Friday, 01 November 2024
  1.  Home/
  2. Guest/
  3. Apne Deeda War Ki Siasat

Apne Deeda War Ki Siasat

انٹرنیٹ کی ایجاد سے قبل ہی انسان نے دریافت کررکھا تھا کہ "دیدہ ور" درحقیقت حقیقی دنیا میں وجود نہیں رکھتے۔ انہیں پراپیگنڈہ کی بدولت "ایجاد" کیا جاتا ہے۔ دوسری جنگ عظیم سے قبل والے جرمنی اور اٹلی میں ہٹلر اور مسولینی کی صورت ایسا ہی ہوا تھا۔ برطانیہ کی غلامی کے دوران ہمارے خطے میں کئی افراد نے قومی حمیت کو اجاگر کرنے کے لئے اپنی زندگیاں وقف کردیں۔

سرسید جیسے افراد نے اگرچہ جذبات بھڑکانے کے بجائے "عقلی بنیادوں" پر مسلمانوں کو جدید دور کے تقاضوں سے نبردآزما ہونے کے قابل بنانے کے لئے تعلیم کے فروغ پر زور دیا۔ ان کے بنائے علی گڑھ کالج سے مگر مولانا محمد علی جوہر اور مولانا حسرت موہانی جیسے "دیوانے" منظر عام پر آئے جنہوں نے "مشق سخن" کے ساتھ جیلوں میں کئی برسوں تک "چکی کی مشقت" بھی جاری رکھی۔

سرسید جیسے "عقل پسندوں" اور مولانا جوہر اور موہانی جیسے "دیوانوں" کے اجتماعی ورثے کو لے کر قائد اعظم پھونک پھونک کر قدم اٹھاتے ہوئے پاکستان کی صورت میں برصغیر کے مسلمانوں کے لئے ایک الگ وطن بنانے کے قابل ہوئے۔ قیام پاکستان کئی مورخوں نے اپنے تئیں ایک "معجزہ" قرار دیا ہے۔ اگرچہ اس کا سبب ہوئے محمد علی جناح اپنی ہر سیاسی ترجیح کو آئین او ر قانون کے سنجیدہ طالب علم کی طرح ٹھوس دلائل کے ذریعے لوگوں کے روبرو لاتے تھے۔ "تاریخ" بہرحال آج کے کالم کا موضوع نہیں۔

عرض فقط یہ کرنا تھی کہ انٹرنیٹ نے Virtualدنیا کا تصور دیا ہے۔ آسان زبان میں اسے حقیقی دنیا کے متوازی دنیا پکارلیتے ہیں جو کافی حد تک "مصنوعی" ہونے کے باوجود ہمارے دل ہی نہیں بلکہ دماغوں کو بھی حقیقت کے گماں میں مبتلا کردیتی ہے۔ عقل کی بنائی اس دنیا میں"دیدہ ور" کی ایجاد بھی بہت آسان ہوچکی ہے۔ برطانیہ میں بورس جانسن کا عروج وزوال اس کی بہترین مثال ہے۔

امریکہ میں ٹرمپ کی "دیدہ وری" بھی متوازی دنیا ہی کی مرہون منت ہے۔ وطن عزیز میں 2011ء سے انٹرنیٹ کی متعارف کردہ مہارتوں کو عمران خان کے حامیوں نے بھرپور انداز میں استعمال کیا۔ کرکٹ کی بدولت کرشمہ ساز ہوئے خان صاحب نے اپنی والدہ کی یاد میں کینسر کے علاج کے لئے جدید ترین ہسپتال کے قیام کے لئے چندہ اکٹھا کرنے کی جو مہم شروع کی تھی اس کی حکمت عملی درحقیقت "دیدہ ور" ایجاد کرنے کی تکنیک پر بھروسہ کرتی رہی۔

ہم سادہ لوح مگر اسے دیکھنے میں ناکام رہے۔ بالآخر اکتوبر2011ء میں ایک جلسہ لاہور کے مینارِ پاکستان تلے منعقد ہوا تو وسوسوں بھرے دلوں میں سوالات اٹھنا شروع ہوگئے۔ بدقسمتی سے میں بھی سوالات اٹھانے والوں میں شامل تھا۔ انتہائی نیک نیتی سے مگر اپنے ہا ں ایجاد ہوئے "دیدہ ور" کے انداز سیاست پر سوالات اٹھانا شروع کئے تو ان کے جنونی حامیوں نے مشتعل ہوکر مجھے "لفافہ" ٹھہرانا شروع کردیا۔

میری زندگی ہمیشہ کھلی کتاب رہی ہے۔ اپنے جذباتی دفاع میں کئی مہینے ضائع کرنے کے بعد بالآخر جدید تحقیق کی بدولت دریافت کیا کہ دورِ حاضر اندھی نفرت وعقیدت میں تقسیم ہوچکا ہے۔ اگر آپ کسی ایک فریق کے دلوں میں موجود تعصبات کا شدت سے اثبات فراہم نہیں کریں گے تو ان کی نگاہ میں راندہ درگاہ ہی رہیں گے۔ آپ کو ان سے دیانت داری کی "سند" حاصل کرنے میں وقت ضائع کرنے سے اجتناب برتنا چاہیے۔ اس ضمن میں اجتناب بھی لیکن کام نہیں آیا۔ "سیم پیج" کی برکتوں سے بالآخر عمران خان 2018ء میں وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہوگئے اور ان کے دورِ اقتدار کا آغاز ہوتے ہی مجھے ٹی وی اداروں پر "مالی بوجھ" ٹھہرادیا گیا۔

چار برس گمنامی اور نیم بے روزگاری کی نذر ہوگئے۔ "نوائے وقت" یہ کالم لکھنے کے لئے اپنے صفحات پیش کرنے پر ڈٹا نہ رہتا تو شاید میں صحافتی اعتبار سے مرگیا ہوتا۔ ذاتی طورپر "دیدہ ور" کی بدولت جو صدمے اور اذیت برداشت کی اس کا ایمان داری سے مگر ہرگز دْکھ محسوس نہیں ہوتا۔ "اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں" والا رویہ ہی اختیار کئے رہتا ہوں۔ حیرانی مگر ان لوگوں کا رویہ دیکھ کر ہورہی ہے جو محض "دیدہ ور" کی سرپرستی کے طفیل ہمارے سیاسی منظر نامے پر طویل عرصے تک چھائے رہے۔ ان کی ان دنوں فدویانہ خاموشی اور "گمشدگی" مسلسل حیران کئے چلے جارہی ہے۔ اس ضمن میں چند نمایاں افراد کے نام لے کر انہیں شرمندہ کرنا نہیں چاہ رہا۔

"فدویانہ لاتعلقی" کے ذکر کو سینٹ میں تحریک انصاف کے نامزد کردہ اراکین کے رویے نے مزید مجبور کیا ہے۔ یوم عاشور کے عین ایک دن بعد ایوان بالا کا اجلاس اتوار کے دن طلب کیا گیا تھا۔ "ہنگامی حالات" میں"غیر معمولی" دِکھتے اس اجلاس کا واحد مقصد نظربظاہر ایسا قانون متعارف کروانا تھا جس کا مسودہ چیخ چیخ کر بتارہا تھا کہ تحریک انصاف کو بحیثیت جماعت "کالعدم" ٹھہرانے کی تیاری شروع ہوگئی ہے۔

مذکورہ قانون پیش ہونے سے محض د ودن قبل آرمی ایکٹ میں چند ترامیم بھی انتہائی عجلت میں منظوری کروائی گئی تھیں۔ ان کی مخالفت میں تحریک انصاف کے کسی ایک نمایاں رکن نے بولنے کی ضرورت ہی محسوس نہ کی۔ رضا ربانی اور طاہر بزنجو جیسے ازلی "دیوانے" ہی اس کی مخالفت میں بولے۔ جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق نے ان کا بھرپور ساتھ دیا۔ اتوار کے روز البتہ عمران خان کے ایک دیرینہ پرستار ڈاکٹر ہمایوں نے کچھ مزاحمت دکھائی۔ ان کی برتی مزاحمت بآسانی نظرانداز کی جاسکتی تھی۔ جو قانون متعارف کروانے کی کوشش ہوئی اس کی ڈٹ کر مخالفت میں تاہم مسلم لیگ (نون) کے عرفان صدیقی کھڑے ہوگئے۔

صدیقی صاحب کالم نگاری کے حوالے سے میرے لئے زبان وبیان کے استعمال کے تناظر میں استاد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ عرصہ ہوا وہ مسلم لیگ (نون) سے باقا عدہ انداز میں وابستہ ہوچکے ہیں۔ "غیر جانبداری" کی منافقت برتنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ اپنے "باغیانہ" خیالات کی وجہ سے "سیم پیج" کے دنوں میں کافی اذیت برداشت بھی کی ہے۔ بے بنیاد مقدمے میں گرفتار ہوکر کال کوٹھڑی میں پھینک دئے گئے تھے۔

تحریک انصاف کے ہاتھوں ذلت واذیت ثابت قدمی سے برداشت کرنے کے باوجود وہ اس جماعت سے "حساب برابر" کرنے کو آمادہ نہیں تھے۔ اصولوں کی بنیاد پر ڈٹ گئے اور جو قا نون متعارف کروانے کی کوشش ہورہی تھی اسے حقارت سے "کالا قانون " پکارا۔ عرفان صاحب نے مجوزہ قانون کی مخالفت میں جو رویہ اختیار کیا اس کے ہوتے ہوئے وزیر قانون اسے منظور کروانے کی جرات دکھاہی نہیں سکتے تھے۔ چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی نے بلکہ "ازخود" مجوزہ قانون کو منظوری کے لئے پیش کرنے سے انکار کردیا۔ یوں مسلم لیگ (نون) کے وزیر قانون کی عزت گویا "بچالی"۔

سوال مگر یہ اٹھتا ہے کہ جس وقت ایک "کالے قانون" کی مزاحمت ہورہی تھی اس دن اس قانون کا حتمی نشانہ یعنی تحریک انصاف کے دیگرسینیٹر ڈاکٹر ہمایوں کے علاوہ کہاں چھپے بیٹھے تھے۔ اپنے "دیدہ ور" کی سیاست کے بارے میں دیانت داری پر مبنی سوال اٹھانے والوں پر دشنام طرازی کی عادی "سپاہ ٹرول" ان کی فدویانہ خاموشی کے بارے میں صوفیوں جیسی درگذری کیوں اپنائے ہوئے ہے؟

About Nusrat Javed

Nusrat Javed

Nusrat Javed, is a Pakistani columnist, journalist and news anchor. He also writes columns in Urdu for Express News, Nawa e Waqt and in English for The Express Tribune.