اپنے صحافتی کیرئیر میں مجھے بارہا بھارت میں کئی ہفتوں کے قیام کے دوران فقط اس ملک کے داخلی اور خارجہ امور کے بارے میں رپورٹنگ کے علاوہ تفصیلی کالم بھی لکھنا ہوتے تھے۔ 2005ءسے مگر بھارت پر توجہ سے جی بھرگیا۔ جنرل مشرف کے آخری برسوں میں ہمارے ہاں کی سیاست ویسے بھی "عوامی اور جمہوری" ہوتی محسوس ہوئی۔ اس جانب توجہ موڑی تو بالآخر عدلیہ تحریک شروع ہوگئی اور بتدریج میں ٹی وی شوز کا "عقل پھیلاتا" اینکر بھی مشہور ہوگیا۔
ہمارے سیاسی منظر نامے پر لگے تماشوں کی وجہ سے اب بھارت کے بارے میں شاذہی لکھنے اور بولنے کی فرصت ملتی ہے۔ اس کے باوجود پرانی عادت کی وجہ سے دن میں کم از کم ڈیڑھ سے دوگھنٹے ہمسایہ ملک کے معاملات پر بھارتی اور ملکی میڈیا میں نمایاں ہوئیں خبریں اور مضامین غور سے پڑھنے میں صرف کرتا ہوں۔
حال ہی میں بھارت میں جی ٹونٹی ممالک کا اکٹھ ہوا ہے۔ اس کا انعقاد سفارتی اعتبار سے نریندر مودی کی بہت بڑی کامیابی تھی۔ اپنے ملک کی آبادی، وسائل اور امکانات کی بدولت وہ خود کو عالمی فیصلہ سازوں میں شامل کرتا ہوا نظر آیا۔ بہت سے مبصرین کا خیال تھا کہ مذکورہ کانفرنس میں چینی اور روسی صدور کی عدم شرکت جی ٹونٹی کا میلہ سجنے نہیں دے گی۔ بھارتی سفارت کاروں نے مگر مہارت سے رونق لگائے رکھی۔ بالآخر دنیا کو یہ خواب بھی دکھایا گیا کہ امریکہ بھارت کے ساتھ مل کر مشرق وسطیٰ اور یورپ کے ممالک کو جوڑنے والا ایک کوریڈور تعمیر کرے گا۔ اس کی تعمیر چین کے ون بیلٹ ون روڈ والے منصوبے کو گہنادے گی۔
اپنے گھربیٹھے لیپ ٹاپ کھول کر بھارت میں لگی جی ٹونٹی کی رونق دیکھتے ہوئے ایک دن مجھے اچانک محسوس ہوا کہ وہاں کا میڈیا کینیڈین وزیر اعظم کا مسلسل "توا" لگارہا ہے۔ کینیڈا غریب ملک نہیں ہے۔ امریکہ کا ہمسایہ ہے۔ اس کی طرح سپرطاقت تو نہیں مگر قدرتی وسائل سے مالا مال ملک ہے جو دیگر ممالک میں خطیر سرمایہ کاری کو ہمہ وقت تیار ہے۔ اس کے علاوہ وہ نیٹو نامی اتحاد کا حصہ بھی ہے جو سرمایہ دارانہ نظام کا دفاعی اعتبار سے حتمی محافظ شمار ہوتا ہے۔
خود کو چین کے مقابلے کی قوت ثابت کرنے کے جنون میں مبتلا بھارت کو منطقی اعتبار سے اس ملک سے تعلقات بہتر رکھنا چاہیے۔ اس سوچ کے تناظر میں مجھے بھارتی میڈیا کا کینیڈا کے وزیر اعظم کے بارے میں رویہ مخاصمانہ سے زیادہ اشتعال دلاتا نظر آیا۔ لطیفہ یہ بھی ہوا جب جی ٹونٹی کانفرنس ختم ہوگئی تو کینیڈین وزیر اعظم کا طیارہ فنی مشکلات کا شکار ہوگیا۔ اس کی و جہ سے وزیر اعظم ٹروڈو کو عالمی رہ نماؤں کی بھارت سے رخصت کے بعد وہاں کے دارالحکومت میں 38سے زیادہ گھنٹے تقریباَ تنہائی میں گزارنے پڑے۔ سوشل میڈیا پر ٹروڈو کی بھارت سے روانگی میں تاخیر کا بھی خوب مذاق اڑایا گیا۔
بھارتی میڈیا کے کینیڈین وزیر اعظم کے ساتھ اپنائے رویے کی بابت میں حیران ہوتا رہا۔ اس کی وجوہات کریدنے کی البتہ کوشش نہ کی۔ منگل کے دن مگر جان لیا ہے کہ بھارت اور کینیڈا کے مابین تلخیوں کا لاوا کئی دنوں سے ابل رہا تھا۔ ہمارے وقت کے مطابق پیر کی رات اپنی قومی اسمبلی میں کھڑے ہوکر وزیر اعظم ٹروڈو نے ساری کہانی کھل کر بیان کردی ہے۔
کینیڈا میں سکھ کمیونٹی بہت بڑی تعداد میں آباد ہے۔ ان کی اکثریت کے اجداد1870ءسے امریکی ریاست کیلی فورنیا سے وہاں منتقل ہونا شروع ہوگئے تھے۔ وہاں آباد ہوئے سکھوں کی اکثریت کے بزرگ رنجیت سنگھ کی فوج میں اہم عہدوں پر فائز رہے تھے۔ ان کے وارث لہٰذا برطانیہ کی پنجاب پر قبضے کی خاطر سکھوں کے خلاف ہوئی جنگوں کو یاد رکھتے ہوئے "غدرپارٹی" جیسی جماعتوں کے ذریعے برطانوی سامراج کو نیچادکھانے کے خواب دیکھتے رہے۔
1947ءکے بعد سے ان سکھوں کی اکثریت بتدریج اپنی شناخت اجاگر کرنے کی خاطر خالصتان کے خواب دیکھنا شروع ہوگئی۔ بھارت اس کے بارے میں متفکر رہتا ہے۔ اس کی فکر مندی کا آغاز 1980ءکی دہائی سے ہوا جب کینیڈا میں مقیم کئی متمول سکھ سنت جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ کی چلائی خالصتان تحریک کی حمایت میں ڈٹ کر سامنے آگئے۔ جون 1985ءمیں ایسی ہی حمایت کے نتیجے میں ایئرانڈیا کا ایک طیارہ اس میں نصب بم کی وجہ سے دوران پرواز آئرلینڈ کے قریب گرکر تباہ ہوگیا۔ اس کی بدولت 300کے قریب ہلاکتیں ہوئیں۔ بھارتی حکومت 1985ءسے بارہا کینیڈا میں مقیم چند سکھوں کے نام لے کر انہیں مذکورہ طیارے کی تباہی کا ذمہ دار پکارتی رہی ہے۔ کینیڈا کی حکومت مگر ان کے خلاف سخت گیر رویہ اپنانے کو آمادہ نہ ہوئی۔ اہم بات یہ بھی ہے کہ اس دہائی میں کینیڈاکا وزیر اعظم موجودہ وزیر اعظم کا والد تھا۔ ٹروڈو خاندان کے ساتھ بھارت کی مخاصمت لہٰذا "موروثی "ہے۔
بہرحال خالصتان تحریک ہی کی وجہ سے بھارت کو مطلوب ایک اور سکھ-ہردیپ سنگھ نجر- رواں برس کے جون میں"نامعلوم افراد" کے ہاتھوں قتل ہوگیا۔ کینیڈا کی پولیس اور انٹیلی جنس ایجنسیوں نے طویل تحقیق کے بعد یہ دعویٰ کیا ہے کہ مذکورہ قتل کینیڈا میں بھارتی انٹیلی جنس کے تعین کردہ اسٹیشن چیف کی نگرانی میں ہوا ہے۔ کینیڈا کی جانب سے دعویٰ یہ بھی کیا جارہا ہے کہ بھارت اور کینیڈا کے مابین ماحول کو معمول کے مطابق رکھنے اور جی ٹونٹی سے قبل سنسنی خیز خبراچھالنے کے بجائے ٹروڈو حکومت نے اپنے پاس جمع ہوئے "ثبوت" سفارتکارانہ ذرائع سے بھارتی ہم منصبوں تک پہنچائے۔
مودی حکومت نے مگر ان "ثبوتوں" کو قابل توجہ ہی نہیں گردانا۔ کینیڈا اس کے باوجود خاموش رہا اور بردباری سے فیصلہ یہ کیا کہ جی ٹونٹی کانفرنس کے دوران وہ دلی میں بھارتی وزیر اعظم سے متوقع ملاقات کے دوران اس معاملے کو زیر بحث لائے گا۔ نظر بظاہر ٹروڈو مودی کے ساتھ ہوئی ملاقات کے دوران نجر کا قتل زیر بحث لایا۔ بھارتی وزیر اعظم نے تاہم اس کی جانب سے ہوئے شکوے کو اہمیت ہی نہ دی۔
کینیڈا ایک ایسی تنظیم کا رکن بھی ہے جسے 5I(فائیو آئی)پکارا جاتا ہے۔ سادہ لفظوں میں اس کا مطلب"پانچ آنکھیں" ہے۔ اس تنظیم کی بدولت امریکہ، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، برطانیہ اور کینیڈا کی انٹیلی جنس ایجنسیاں"دہشت گردی" سے متعلق معلومات ایک دوسرے کے ساتھ برق رفتار بنیادوں پر شیئر کرتی ہیں۔ آج سے چند سال قبل راولپنڈی سے نیوزی لینڈ کی ٹیم میچ کھیلے بغیر "اچانک" پاکستان سے اپنے ملک روانہ ہوگئی تھی۔ اس کی وجہ بھی 5Iکی فراہم کردہ اطلاع تھی۔
ٹروڈو کو یہ امید تھی کہ جی ٹونٹی کے اجلاس کے دوران امریکی صدر اور برطانوی وزیر اعظم بھی مودی کے ساتھ کینیڈا میں ہوئے قتل کا معاملہ شدت سے اٹھائیں گے۔ ان دونوں نے مگر مودی کی جی حضوری کی خاطر ٹروڈو کا ساتھ نہیں دیا۔ کینیڈا کا وزیر اعظم لہٰذا بھارت سے وطن لوٹنے کے بعد اپنی پارلیمان میں کھڑے ہوکر اب تک چھپائی کہانی بیان کرنے کو مجبور ہوگیا۔ اوٹاوا میں تعین را کے اسٹیشن چیف کو ٹروڈو کی تقریر کے بعد کینیڈا چھوڑنے کا حکم بھی مل گیا ہے۔ جواباََ دہلی نے اپنے ہاں مقیم ایک کینیڈین سفارت کار کو اپنے ہاں سے چلے جانے کا حکم دیا ہے۔
منگل کی شام سے رات گئے تک میں بھارت کے کئی جید صحافیوں کے نجر کے قتل کی وجہ سے اٹھے قضیہ کے بار ے میں خیالات یوٹیوب کی بدولت سنتا رہا۔ بے تحاشہ باہمی نظریاتی اختلافات کے باوجود تمام بھارتی صحافی اس امر پر اصرار کرنے کو مصر سنائی دئے کہ ٹروڈو "انتخابی مجبوریوں" کی وجہ سے خالصتانی انتہاپسندوں کی "آزادی اظہار" کے بہانے نازنخرے اٹھائے چلے جارہا ہے۔ اس کے پاس نجر کے قتل میں بھارتی ایجنسیوں کے ملوث ہونے کے ثبوت موجود نہیں ہیں۔ بھارت کے خلاف مبینہ طورپر اس نے جو "جھوٹی کہانی" گھڑی ہے اس کی وجہ سے 5Iمیں شامل اس کے دیرینہ اتحادی یعنی امریکہ، آسٹریلیا اور برطانیہ کے سربراہان بھی خود کو شرمندہ محسوس کررہے ہیں۔ ٹروڈو نے گویا "بونگی" مارکر اپنی سیاسی تنہائی کو یقینی بنادیا ہے۔
بھارتی صحافیوں کے برعکس میں ٹروڈو کو ایک کائیاں سیاستدان شمار کرتا ہوں۔ اپنی پارلیمان میں کھڑے ہوکر اس نے جو الزامات لگائے ہیں انہیں لگانے کی ہمت ٹھوس ثبوتوں کے بغیر میسر نہیں ہوسکتی۔ کینیڈا کا وزیر اعظم اپنے موقف پر ڈٹا رہا تو امریکہ، آسٹریلیا اور برطانیہ کے لئے بہت دشوار ہوجائے گا کہ محض بھارت کو راضی رکھنے کی خاطر وہ اپنے دیرینہ اتحادی کو نظرانداز کرتے رہیں۔