مسلح نہیں بلکہ فقط سیاسی جدوجہد سے ہمارے بزرگوں نے قائد اعظم کی قیادت میں برصغیر کے مسلمانوں کے لئے پاکستان کی صورت ایک نیا وطن حاصل کیا تھا۔ اسے چلانے کے لئے مگر اہل اور "دیانتدار" سیاستدان ڈھونڈنے میں ناکام رہے۔ قیام پاکستان کے چند ہی برس بعد "پروڈا" کے عنوان سے ایک قانون بنانا پڑا۔ اس کے ذریعے سندھ کے "مرد آہن" کہلاتے ایک قد آور سیاستدان ایوب خان کھوڑو کو بدعنوانی کا مرتکب قرار دیتے ہوئے ذلت ورسوائی کا نشانہ بنایا گیا۔
مسلم بنگال کے ایک جید خاندان کے ذہین ترین فرزند حسین شہید سہروردی خود کو "پاکستانی" ثابت کرنے کی جدوجہد میں کئی برسوں تک مصروف رہے۔ دریں اثناءجس "دستور ساز اسمبلی" نے وطن عزیز کو "آئین" فراہم کرنا تھا اسے بیورو کریسی سے ابھرے ملک غلام محمد نے بطور گورنر جنرل "معطل" کردیا۔ جسٹس منیر نے اس کے عمل کو "نظریہ ضرورت" کا جواز فراہم کردیا۔ قیام پاکستان کو بالآخر دس برس گزرگئے تو عوام کے روبرو یہ ثابت کردیا گیا کہ سیاستدان اس ملک کو چلانے کے قابل نہیں۔ انہیں فوجی وردی پہنے "چابک سوار" کی ضرورت ہے۔
فیلڈ مارشل ا یوب خان کا انقلاب برپا ہوا اور کامل دس برس تک وہ پاکستان کو "جدید" بنانے میں مصروف رہے۔ عوام مگر مطمئن نہ ہوئے۔ کئی مہینوں تک پھیلی ایک تحریک چلی اور یحییٰ خان کی صورت ایک اور "چابک سوار" ہمیں"سیدھی راہ" پر چلانے کو نمودار ہوگئے۔ یحییٰ خان کی بدولت ملک کو بالآخر بالغ رائے دہی کی بنیاد پر پہلے عام انتخاب میسر ہوگئے۔ ان کے نتائج پر لیکن عملدرآمد ہو نہیں پایا۔ ملک کی اکثریتی جماعت بن کر ابھری عوامی لیگ کو اقتدار منتقل نہ کرتے ہوئے "بنگلہ دیش"کاقیام گویا یقینی بنادیا گیا۔ اس کے بعد امید بندھی کہ بقیہ پاکستان 1973ءکا آئین تشکیل دینے کے بعد اپنے معاملات ایک نارمل ملک کی طرح چلانا شر وع ہوجائے گا۔
آئین کی تشکیل کے چار سال بعد ہی مگر جولائی 1977ءہوگیا اور ضیاءالحق کی صورت ایک اور "چابک سوار" ہمیں دیانت وصداقت کی راہ پر چلانا شروع ہوگئے۔ سیاستدانوں میں لیکن "صادق وامین" دریافت نہ ہوسکے۔ حالیہ تاریخ تک محدود رہیں تو نواز شریف تیسری بار وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد حکومت میں ہوتے ہوئے بھی سپریم کورٹ کے روبرو اپنی صفائیاں دیتے رہے۔ خود کو مگر "صادق وامین" ثابت نہ کرپائے۔ انتخابی عمل میں حصہ لینے کے لئے تاحیات نااہل ٹھہرائے جاچکے ہیں۔
نواز شریف کے برعکس کرکٹ سے سیاست میں آئے کرشمہ ساز چئیرمین پی ٹی آئی کو سپریم کورٹ نے نہایت دھڑلے سے "صادق وامین" قرار دیا تھا۔ ہفتے کے دن ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کی جانب سے آئی وہ "سند" مگراب کار آمد نہیں رہی۔ سیشن کورٹ کے ایک جج نے سابق وزیر اعظم اور تحریک انصاف کے قائد کو انتخابی گوشواروں میں"غلط بیانی" کا مرتکب ٹھہراتے ہوئے بدعنوان قرار دیا ہے۔ تین سال قید میں گزارنے کے علاوہ وہ انتخابی عمل میں اب پانچ سال تک حصہ لینے کےلئے بھی نااہل ٹھہرادئیے گئے ہیں۔ "پروڈا" کے ذریعے جو سفر گویا قیام پاکستان کے چند ہی ماہ بعد شروع ہوا تھا وہ دائروں کی صورت مسلسل جاری ہے۔ ہم اس کی گرفت سے نکلنے میں قطعاََ ناکام رہے ہیں۔
اس کالم کے باقاعدہ قاری بخوبی جانتے ہیں کہ میں خان صاحب کے انداز سیاست کا ثابت قدم ناقد رہا ہوں۔ ان سے میرا کوئی ذاتی جھگڑا نہیں۔ چند مشترکہ دوستوں کی وجہ سے ان کا میں بلکہ شاید اسلام آباد میں مقیم دیگر صحافیوں کی نسبت دیرینہ شناسا تھا۔ ان کے جارحانہ انداز سیاست پر دیانتدارانہ تنقید کی وجہ سے لیکن مجھے ان کے جنونی حامیوں نے "لفافوں" کی صف میں دھکیل دیا۔ سوشل میڈیا پر حاوی سپاہ ٹرول نے مجھے اخلاقی اعتبار سے بھی بدکار ثابت کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔
اگست 2018ءمیں ان کے اقتدار میں آنے کے چند ہی ہفتے بعد مجھے ایک ٹی وی ادارے پر "مالی بوجھ" ٹھہراتے ہوئے فارغ کروادیا گیا۔ ان کے "جمہوری" اور "انسانی حقوق" کو یقینی بنانے والے دورِ اقتدار میں میری آواز اور صورت کسی ٹی وی سکرین پر نمودار نہیں ہوسکتی تھی۔ اپنی ذات پر گزرے تجربات کو ذہن میں رکھوں تو ہفتے کے روز آئے فیصلے کی بابت مجھے "اب پتہ چلا" والا سوال اٹھاتے ہوئے خود کو لطف دیتی کیفیت محسوس کرنا چاہیے تھی۔ ایمان داری کی بات مگر یہ ہے کہ میں اس کے بارے میں اداس اور فکرمند محسوس کررہا ہوں۔
عمران خان پر جو گذری ہے وہ پاکستان کے "دائروں" میں ہوئے سفر کا ایک اور تکلیف دہ سنگ میل ہے۔ اپنے مہربان دوست سرمد صہبائی صاحب کا ایک شعر یاد آرہا ہے۔ اس کا دوسرا مصرع "کوئی رستہ نہیں ہے اور سفر رکھے گئے ہیں" میری کیفیت کا اصل اظہارہے۔ اپنے خیالات دیانتداری سے بیان کردینے کے بعد مگر "اسی باعث۔۔ " والی تلخ حقیقت بھی بیان کرنے کو مجبور ہوں۔ "نااہل اور بدعنوان"سیاستدانوں کو "تاریخ کے کوڑے دان" میں پھینکنے کے عمل پر کئی دہائیوں تک ریاست کے طاقت ور ترین اداروں سے ابھرے "دیدہ وروں" کا اجارہ رہا۔
ہماری اعلیٰ عدلیہ مذکورہ عمل میں ان کی کلیدی معاون نہیں رہی۔ ہماری سیاست کو "صاف ستھرا " رکھنے کے عمل پر غیر سیاسی اداروں کا اجارہ بالآخر ان کی ساکھ کو نقصان پہنچانا شروع ہوگیا۔ اس سے بچنے کے لئے "سیاست" ہی سے ابھرے کسی "بندہ ایماندار ہے" کی شہرت کے حامل کرشمہ ساز کی ضرورت تھی۔ اکتوبر 2011ءمیں عمران خان کی صورت وہ "بندہ" دریافت ہوگیا۔ ریاست کے دائمی اداروں کی مسلسل سرپرستی میں انہیں آگے بڑھاتے ہوئے دیگر سیاستدانوں کو "چور اور لٹیرے" ثابت کرنے کا فریضہ سونپ دیا گیا۔ اسے نبھانے کے لئے وہ تین سے زیادہ برس تک وزارت عظمیٰ کے منصب پر بھی "برداشت"کرلئے گئے۔ ریاست کو لیکن "مزہ" نہیں آیا۔ "تجربہ" ناکام ہوگیا۔
اس سے جو نقصان ہوا ہے اب اس کے ازالے کی صورتیں ڈھونڈی جارہی ہیں۔ مجھ جیسے دو ٹکے کے صحافی اس عمل میں کوئی حصہ ڈالنے کے قابل نہیں رہے۔ مہنگائی کے عذاب سے نبردآزما ہوتے عوام کی بے پناہ اکثریت بھی آج کی روٹی آج کمانے کی فکر میں مبتلا ہوچکی ہے۔ محض تماشائیوں کی صورت دیکھنا ہوگا کہ اب نیا "تجربہ" کیا ہوگا۔