1984 میں اپنی وفات سے چند ہفتے قبل فیض احمد فیض اسلام آباد تشریف لائے تھے۔ اتفاق سے وہ جتنے دن یہاں قیام پذیر رہے میری ان سے روزانہ اور طویل ملاقاتیں رہیں۔ ان ملاقاتوں کی بدولت میں نے بہت کچھ سیکھا۔ ان کے انتقال کے بعد اکثر یہ سوچتا رہا کہ شاید دنیا سے رخصت ہونے سے قبل وہ اپنے دل میں چھپائے خیالات برملا بیان کردینا چاہ رہے تھے۔
بہرحال اسلام آباد تشریف لانے کے پہلے دن وہ پروفیسر خواجہ مسعود صاحب کے ہمراہ روزانہ "دی مسلم" کے دفتر تشریف لائے۔ میں اس اخبار کا متحرک رپورٹر تھا۔ ثقافتی ڈائری لکھنے کے علاوہ عالمی امور اورسفارتی سرگرمیاں رپورٹ کرنا بھی میری ذمہ داری تھی۔ ان دنوں عرب ملک دو انتہائوں میں بٹ چکے تھے۔ وجہ اس کی مصر کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات کا آغاز تھا۔ مصر کو اس کی وجہ سے کئی مسلم ممالک عرب لیگ ہی نہیں بلکہ او آئی سی کی تنظیم سے بھی باہر نکالنا چاہ رہے تھے۔
ہمارے جنرل ضیاء الحق مگر مصر کے ساتھ ڈٹ کر کھڑے ہوگئے۔ اسلامی ممالک کی تنظیم کے سربراہی اجلاس میں گلوگیر آواز کے ساتھ مصر کو مسلم اُمہ کے ساتھ رکھنے کی حمایت میں دلائل دیتے رہے۔ میں اور میرے بیشتر ساتھی فقط جنرل ضیاء کی مخالفت میں نہیں بلکہ اسرائیل سے نفرت کی وجہ سے مصر کے بدترین مخالف تھے۔ ہمیں اس کے مقابلے میں شام اور خاص طورپر اس کا صدر حافظ الاسد "کٹرانقلابی" محسوس ہوتا۔
فیض صاحب کے ساتھ گفتگو کا ا ٓغاز ہوا تو انہوں نے اپنی عادت سے ہٹ کر حافظ الاسد کے خلاف نہایت سخت زبان استعمال کی۔ مصر رہے کہ وہ ایک موقعہ پرست شخص ہے۔ بدترین آمر کی حیثیت میں شاہانہ خواہشات کا حامل ہے۔ فلسطین اور لبنان کو وہ "بلادشام" یا عظیم تر شام کے علاقے تصور کرتا ہے اور وہ کبھی نہیں چاہے گا کہ فلسطینی متحد رہ کر اسرائیل کی مزاحمت کرتے ہوئے اپنے لئے ایک آزاد اور خودمختار ریاست قائم کرسکیں۔ ان کا یہ دعویٰ بھی تھا کہ یاسر عرفات اور پی ایل او سے نفرت کی وجہ سے حافظ الاسد لبنان کی انتہا پسند مسیحی تنظیموں کی پشت پناہی کرتے ہوئے یاسر عرفات کو لبنان سے نکال کر عرب دنیا کے مرکز سے دور تیونس بھجوانے کی سازش میں کلیدی کردار کا حامل رہا ہے۔
فیض صاحب ان دنوں بیروت میں رہا کرتے تھے۔ وہاں یاسر عرفات کی معاونت سے انہوں نے افریقہ اور ایشیاء کے لکھاریوں کو دنیا سے متعارف کروانے کے لئے "لوٹس " نام کے انگریزی جریدے کا آغاز کیا تھا۔ عرب دنیا اور اس کی سیاست سے میری واقفیت ان دنوں نہ ہونے کے برابر تھی۔ تھوڑی شدبدھ بھی ہوتی تب بھی فیض صاحب سے اختلاف کی ہمت نہیں تھی۔ سرجھکائے ان کے خیالات سنتا رہا۔
محترمہ بے نظیربھٹو کی پہلی حکومت کے دوران شام جانے کا اتفاق ہوا تو وہاں کے شہریوں کی گفتگو سنتے ہوئے فیض صاحب اکثر یاد آئے۔ رواں صدی کا آغاز ہوا تو عراق اور لبنان میں چھڑی جنگوں کی وجہ سے کئی بار شام میں قیام پذیر ہونا پڑا۔ آمرانہ نظام کی مسلط کردہ خاموشی کو وہاں جبلی طور پر محسوس کیا۔ اس بارے میں لیکن ہمیشہ حیرت رہی کہ شام ہوتے ہی شامی لوگ اپنے خاندان کے ہمرہ ریستورانوں یا پارکوں میں کئی گھنٹے بیٹھ کر خوش گپیوں میں مصروف رہتے۔ خاندان میں محبت ویگانگت کے ایسے مظاہرے دیگر ملکوں میں کم ہی دیکھنے کو ملے تھے۔
شام اور فیض احمد فیض کے ذکر سے آج کے کالم کا آغاز کرنے کو اس وجہ سے مجبور ہوا ہوں کہ اتوار کی صبح اٹھتے ہی سرہانے رکھے فون پر نگاہ ڈالی تو واٹس ایپ پیغامات کا طومار بندھا تھا۔ ان کے ذریعے خبر ملی کہ دمشق پر باغیوں نے قبضہ کرلیا ہے۔ یہ کالم لکھنے تک بشارالاسد کے بارے میں کوئی خبر نہیں تھی۔ اس کی حکومت کا تختہ الٹ جانا شام کو بدترین آمریت سے نجات کے باوجود کوئی منظم نظام فی الوقت نہیں دے پائے گا۔ مختلف النوع نظریات کی حامل تنظیموں نے وہاں "اپنے علاقے" بنارکھے ہیں۔ ترکی، روس، سعودی عرب اور ایران شام میں خانہ جنگی بھڑکانے میں حصہ لیتے رہے ہیں۔ ا مریکہ اور اسرائیل کردوں کی سرپرستی کو ترجیح دیتے ہیں۔
روس مگر اب یوکرین کے خلاف جنگ میں تقریباََ پھنس چکا ہے۔ اس قابل نہیں رہا کہ اسد خاندان کی حکومت کو اپنی فوج بھیج کر بچاسکے۔ فقط اس کی ایئرفورس ہی فضائی بمباری کے ذریعے باغیوں کی پیش قدمی روکنے کی کوشش میں مصروف رہی ہے۔ شام مسلکی اعتبار سے ایران کے قریب نہ ہونے کے باوجود تہران کا طاقتور ترین حلیف رہا ہے۔ اس کے زمینی راستوں سے ایران لبنان میں اسرائیل کے خلاف ڈٹی حزب اللہ کو نہ صرف جدید ترین اسلحہ پہنچاتا رہا بلکہ شام سمیت لبنان تک بھی اپنا تیل فروخت کرتے ہوئے اپنے خلاف لگائی اقتصادی پابندیوں کا مقابلہ کرتا رہا۔
حماس کے ساتھ مگر اسرائیل نے حزب اللہ کو بھی کامل یکسوئی اور بے دردی سے نشانہ بنانا شروع کردیا۔ جدید ترین ٹیکنالوجی کی بدولت اس نے حزب اللہ کے قائد حسن نصراللہ ہی نہیں بلکہ کئی نامور کمانڈروں کو بھی انٹیلی جنس کی بنیاد پر ہوئے حملوں سے شہید کیا۔ شہری علاقوں پر ہوئی جارحانہ بمباری نے جنوبی لبنان سے دس لاکھ کے قریب حزب اللہ کے حامیوں کو دربدر ہونے کو مجبور کردیا۔ قیادت اور گھربار سے محروم ہوئی حزب اللہ کو بالآخر اسرائیل کی مسلط کردہ "صلح" قبول کرنا پڑی۔ موجودہ حالات میں ترکی ہی وہ واحد ملک رہ گیا ہے جو شام میں صورتحال کو معمول پر لانے میں مددگار ہوسکتا ہے۔ ترکی کی مداخلت اگرچہ شام کے قوم پرستوں کو طویل المدت بنیادوں پر اشتعال دلانے کا باعث ہوگی۔
دمشق میں باغیوں کے داخلے سے قبل ٹرمپ نے ایک ٹویٹ لکھا ہے۔ اپنی عادت کے مطابق اس نے شام میں پھیلی بدامنی کا ذمہ دار سابق صدر اوبامہ کو ٹھہراتے ہوئے واضح طورپر اعلان کردیا کہ شام امریکہ کا کبھی دوست نہیں رہا۔ اگر وہ اس وقت بدترین ابتری اور خلفشار کا شکار ہے تو امریکہ کو اس کے بارے میں ہرگز فکرمند نہیں ہونا چاہیے۔ ربّ کریم سے فریاد ہی کرسکتے ہیں کہ وہ شامیوں کے لئے آسانیاں پیدا کرنے کی کوئی صورت نکالے۔ ہم سب کے لئے اگرچہ شام کی موجودہ صورتحال یہ بات سمجھانے کا سبب ہونا چاہیے کہ جمہوری نظام ہی اپنی تمام تر خامیوں کے ساتھ قوموں کو متحد رکھ سکتا ہے۔ ڈنڈے کے زور پر چلائے ملک بالآخر ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتے ہیں۔