ہیجان پھیلاتی "خبروں" کے ذریعے اپنا دھندا چلانے والوں کے لئے پیر کا دن بہت سودمند رہا۔ عوام کی اکثریت جبکہ یہ دعائیں مانگتی رہی کہ سری لنکا کے شہر کولمبو میں بارش جاری رہے اور پاکستان بھارت کے ہاتھوں ایشیا کپ کے لئے ہوئے کرکٹ میچ میں ریکارڈ بناتی شکست سے محفوظ رہے۔ دعائیں ہماری رنگ نہ لائیں۔ ہیجان فروشوں کی "خبر" بھی لیکن منگل کی صبح یہ کالم لکھنے تک درست ثابت نہیں ہوپائی ہے۔
"خبر" تھی کہ 2018ءکے "صاف ستھرے انتخاب" کے بعد تحریک انصاف کی جانب سے ایوان صدر بھیجے ڈاکٹر عارف علوی "کسی بھی وقت" نئے انتخاب کی تاریخ کا اعلان کرسکتے ہیں۔ مذکورہ "خبر" کی تصدیق کے لئے "رپورٹنگ سے عرصہ ہوا ریٹائر ہوئے مجھ ایسے شخص سے بھی کئی لوگوں نے فون پر رابطہ کیا۔ ایوان صدر کے علاوہ "مقتدر حلقوں" تک رسائی نہ ہونے کے اعتراف کے بعد میں یہ سوال مگر اٹھاتا رہا کہ اگر عارف علوی واقعتا "آئین کی حرمت برقرار رکھنے کی خاطر" آئندہ "نوے روز کے اندر" ہمارے تحریری آئین میں لکھے اختیارکو استعمال کرتے ہوئے انتخاب کی تاریخ دینے جارہے ہیں تو یہ "تاریخی قدم" 11ستمبر2023ءسے قبل کیوں نہیں لیا۔ ان کی آئینی مدت رواں مہینے کی 9تاریخ کو ختم ہوچکی ہے۔
اصولی اور اخلاقی اعتبارسے اب وہ "ڈنگ ٹپاؤ" صدر ہیں۔ 9ستمبر گزرجانے کے بعد اگر وہ "آئین کی حرمت" بچانے کو واقعتا ڈٹ گئے تو عدالتوں کے ذریعے سیاسی فیصلے کروانے کے عادی کئی افراد اور ادارے ان کی "ڈنگ ٹپاؤ" حیثیت پر اعتراض اٹھاسکتے ہیں۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ اگست کے آخری ہفتے کا آغاز ہوتے ہی انہوں نے چیف الیکشن کمشنر کو ایک خط لکھا تھا۔ اخبارات کو اس کا متن فی الفور جاری کردیا گیا تھا۔ مذکورہ خط کے ذریعے صدر مملکت نے چیف الیکشن کمشنرکو اپنے "آئینی اختیارات" یاد دلاتے ہوئے ایوان صدر میں"مشاورت" کی دعوت دی تھی تاکہ نئے انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیا جاسکے۔
صدر مملکت کا خط الیکشن کمیشن کو وصول ہوا تو چیف الیکشن کمشنر نے ایوان صدر سے رابطے کے ذریعے مطلوبہ مشاورت کے لئے وقت طلب نہیں کیا۔ اپنے ساتھیوں اور قانونی معاونین سے طویل مشاورت کے بعد بلکہ ایک جوابی خط بھجوادیا۔ مذکورہ خط میں تفصیل کے ساتھ صدر مملکت کو یاد دلوایا گیا کہ سابقہ حکومت نے گھر جانے سے قبل الیکشن ایکٹ میں چند ترامیم پارلیمان سے منظور کروائی ہیں۔ ان کے مطابق انتخاب کی تاریخ اب صدر مملکت نہیں بلکہ الیکشن کمیشن طے کرے گا۔ اس کے علاوہ صدر مملکت کو یہ حقیقت بھی یاد دلائی گئی کہ سابقہ حکومت اپنی آئینی مدت ختم ہونے سے قبل نئی مردم شماری کے نتائج بھی تسلیم کرچکی ہے۔
اس کے بعد نئی مردم شماری کے حقائق کو بروئے کار لانے کے لئے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی نئی حلقہ بندی ضروری ہے۔ اس کے علاوہ اس امر کو یقینی بنانا بھی لازمی ہے کہ 18برس تک پہنچا ہر پاکستانی اب ووٹ دینے کا آئینی حق استعمال کرسکے۔ الیکشن کمیشن نہایت لگن سے نئی حلقہ بندیاں تشکیل دینے کے عمل میں مصروف ہے۔ اسے اعتماد ہے کہ مذکورہ عمل 30نومبر تک مکمل ہوجائے گا۔ نئے انتخابات کے لئے "مشاورت" کا عمل اس دن کے بعد ہی شروع ہوسکتا ہے۔ اس سے قبل صدر اور چیف الیکشن کمشنر کے مابین ملاقات نئے انتخاب کی تاریخ طے کرنے میں کوئی کردار ادا نہیں کر پائے گی۔
عارف علوی اگر سکندر سلطان راجہ کے بھجوائے خط سے مطمئن نہیں تھے تو انہیں فوری طورپر سپریم کورٹ سے رجوع کرنا چاہیے تھا۔ ہوسکتا ہے کہ جسٹس عمر عطا بندیال صاحب کی قیادت میں کام کرنے والی اعلیٰ ترین عدالت صدر مملکت کے "آئینی اختیار" کو بروئے کار لانے میں علوی صاحب کے ساتھ بہت ہی مشہور اور کارآمد ثابت ہوا "تین رکنی" بنچ بناکر کھڑی ہوجاتی۔ عزت مآب بندیال صاحب کی معیادِ ملازمت میں لیکن فقط تین دن باقی رہ گئے ہیں۔ ان دنوں میں وہ عارف علوی کو خاطر خواہ قانونی کمک فراہم نہیں کر پائیں گے۔
سپریم کورٹ کی فراہم کردہ چھتری کے بغیر عارف علوی کے لئے "آئینی اختیار" کوبروئے کار لانا ممکن نہیں۔ اس حقیقت کو ذہن میں رکھتے ہوئے میں اس "خبر" پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں تھا کہ عارف علوی "کسی بھی وقت"نئے انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنے کے لئے پھڑپھڑارہے ہیں۔ مجھ سے رابطہ کرنے والوں کی اکثریت مگر میرے اندازے سے متفق نہیں تھی۔ وہ مصر رہے کہ پیر کے روز نگران حکومت کے وزیر قانون نے صدر مملکت سے جو ملاقات کی ہے اس کے دوران صدر مملکت نے اپنے ارادوں کو کھل کر بیان کردیا ہے۔ مجھ سے گفتگو کرنے والوں کے بقول عارف علوی کے ارادوں کی خبر مسلم لیگ (نون) تک بھی پہنچ گئی ہے۔ اسی باعث ان کے ایک دبنگ ترجمان عطا تارڈ صاحب نے ایک دھواں دھار پریس کانفرنس سے خطاب کیاہے۔
ٹھوس حقائق سے بے خبری مجھے کج بحثی سے محفوظ رکھتی ہے۔ ملکی سیاست کا دیرینہ طالب علم اور شا ہد ہوتے ہوئے لیکن اصرار کرتا ہوں کہ ہمارے نام نہاد "پارلیمانی نظام" کے تحت ایوان صدر میں براجمان شخص کو اپنے "آئینی اختیار" استعمال کرنے کے لئے سپریم کورٹ کے علاوہ "مقتدر حلقوں" کے تھاپڑے یعنی تھپکی کی بھی ضرورت ہے۔ وہ تھپکی مجھے میسر نظر نہیں آرہی۔ چند روز قبل بلکہ "ہمارے معتبر ترین" یوٹیوبرز کے مطابق ایوان صدر میں"وہاں"سے آئے دو سینئر ترین افسروں کی عارف علوی سے ملاقات ہوئی تھی۔ اس ملاقات کی تردید ابھی تک نہیں ہوئی۔ تصدیق کی عدم موجودگی نے کئی لوگوں کو یہ فرض کرنے کو اکسایا ہے کہ مبینہ ملاقات کے دوران عارف علوی صاحب کو سادہ ترین الفاظ میں یہ سمجھانے کی کوشش ہوئی ہے کہ "بس بھئی بس"۔
وطن عزیز سنگین اقتصادی بحران کی زد میں ہے۔ اس سے نبردآزما ہونے کے لئے چند ہنگامی اقدامات لئے جارہے ہیں جن کے "مثبت نتائج" بھی نظر آنا شروع ہوگئے ہیں۔ ایسے حالات میں"نوے روز کے اندر" انتخابات پر اصرار کرتے ہوئے صدر مملکت کو ایسا نیا کٹا نہیں کھولنا چاہیے جو ملک میں استحکام کی کاوشوں کو ناکام بنادے۔ جو پیغام دیا گیا غالباََ اسے "سرائیکی مٹھاس" کے ساتھ دہرانے کے لئے محمد علی درانی صاحب بھی طویل گمنامی کے بعد اچانک نمودار ہوئے اور "قومی مفاد" میں اپنا کردار ادا کرنے کو سرگرم ہوگئے۔ اس ضمن میں آغاز انہوں نے صدر مملکت کے ساتھ ملاقات سے کیا۔
مجھے گماں ہے کہ عارف علوی صاحب کے ساتھ جو ملاقاتیں ہوئی ہیں وہ انہیں مزید "پنگے بازی" سے باز رکھیں گی۔ وہ مگر باز نہ رہے تو یاد دلاتا چلوں کہ ہماری تاریخ میں"ملک غلام محمد" کے خلاف "اسکندر مرزا" ہی جیتتے چلے آئے ہیں۔ غلام اسحاق خان جیسے کائیاں ترین صدر کو آٹھویں ترمیم کے ہوتے ہوئے بھی بالآخر "کاکڑ فارمولے" کے سامنے ہی ڈھیر ہونا پڑتا ہے۔