کسی کو اقتدار میں بٹھانے یا وہاں سے ہٹانے کے لئے جو محلاتی سازشیں ہوتی ہیں ان کا کھوج لگانے کی مجھے بطور رپورٹر علت لاحق رہی ہے۔ مذکورہ علت مگر صحافیانہ تجسس تک ہی محدود رہی۔ ذاتی طورپر میں کسی خاص شخص کے سرپر اقتدار کا ہما بٹھانے کی سازش میں کبھی ملوث نہیں رہا۔ نہ ہی کسی شخصیت کے سیاسی زوال سے کبھی ذاتی لطف اٹھایا ہے۔ عملی صحافت سے بتدریج کنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے محلاتی سازشوں کی بابت مگر گزشتہ کئی برسوں سے غافل رہنا شروع ہوگیا۔
عمران خان البتہ اگست 2018ء میں ریاست کے طاقتور ترین اداروں کی معاونت سے لگائی گیم کی بدولت وزارت عظمیٰ پر فائز ہوگئے۔ اقتدار سنبھالنے کے چند ہی ہفتے بعد ان کی حکومت نے مجھے ٹی وی اداروں کے لئے "مالی بوجھ" ثابت کردیا۔ محض رزق کمانے کی خاطر ہی نہیں بلکہ صحافت میں اپنا وجود برقرار رکھنے کے لئے مجھے پرنٹ صحافت میں لوٹنا پڑا۔ "نوائے وقت" نے اس ضمن میں میرا ڈٹ کر ساتھ دیا۔
پرنٹ صحافت میں لوٹا تو اپنے اصل میدان یعنی پارلیمان کی کارروائی پر تمام تر توجہ مبذول کردی۔ سینٹ یا قومی اسمبلی کے اجلاس ہوتے تو پریس گیلری سے ان کے بغور مشاہدے کے بعد "دی نیشن" کے لئے انگریزی میں کالم لکھتا۔ اس کالم کے لئے بیشتر مواد بھی پارلیمان ہائوس کی راہداریوں میں گھومتے ہوئے مل جاتا۔ صحافت سے بہت محنت سے برقرار رکھے اس تعلق کی بنیاد پر کبھی کبھار چند مہربان دوستوں کی شفقت ایسی محفلوں میں شرکت کے مواقع بھی فراہم کردیتی جہاں سیاستدان "آف دی ریکارڈ" گپ شپ کے لئے ضرورت سے زیادہ احتیاط برتنے سے گریز کرتے ہیں۔
مارچ 2021ء کے ابتدائی دنوں میں خوش قسمتی سے ایسی ہی ایک محفل میں موجود تھا۔ اس مہینے سینٹ کی آدھی نشستیں خالی ہونا تھیں۔ سیاستدانوں کی رچائی محفلوں میں اندازے لگائے جارہے تھے کہ ان کی جماعتوں کے قائدین کونسے افراد کو خالی ہوئی نشستوں پر "ٹھونسنے" کی کاوش کریں گے۔ ڈاکٹر حفیظ شیخ ان دنوں ہمارے وزیر خزانہ ہوا کرتے تھے۔ کسی بھی منتخب ایوان کے رکن نہیں تھے۔
آئی ایم ایف کو رام کرنے کی خاطر مگر عمران خان قومی خزانے کی کلید ان کے سپرد کرنے کومجبورہوئے اور اس تناظر میں اپنے پرانے وفادار اور کارپوریٹ دنیا کے کرشمہ ساز تصور ہوتے اسد عمر کو چٹکی بجاکر فارغ کرنے سے بھی گریز نہیں کیا تھا۔ ڈاکٹرصاحب وزارت خزانہ کا منصب سنبھالنے کے بعد آئی ایم ایف سے ایک معاہدہ کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ اس معاہدے نے پاکستان کو معاشی سہارا تو فراہم کردیا مگر اس کی عائد کردہ شرائط پر عملدرآمد کے دوران ہمارے عام اور دیہاڑی دار افراد کی زندگیاں اجیرن ہوگئیں۔
تحریک انصاف کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے اراکین قومی اسمبلی کے دلوں میں"بغاوت" کی خواہش ان ہی دنوں ابھرنا شروع ہوگئی تھی۔ نجی محفلوں میں مجھ جیسے "راندئہ درگاہ" صحافی کے روبرو بھی سرگوشی میں بیان کردیتے کہ وہ اپنے حلقوں میں جانے کے قابل نہیں رہے۔ اپنے حامیوں کو وہ "حفیظ شیخ کی نازل کردہ"مہنگائی اور کسادبازاری کے تسلی بخش جواب فراہم نہیں کرپاتے۔ تحریک انصاف کے ارا کین قومی اسمبلی کے دلوں میں جو غصہ اور مایوسی اْبل رہے تھے ڈاکٹر حفیظ شیخ اس کے بارے میں کاملاََ غافل رہے۔
بطور "ٹیکنوکریٹ" انہیں عوام کے براہ راست ووٹوں سے قومی اسمبلی میں پہنچے اراکین کی اکثریت معاشی امور کی مبادیات کے بارے میں قطعاََ جاہل محسوس ہوتی تھی۔ وہ ان کی دلجوئی میں"وقت ضائع" کرنے کو بھی آمادہ نہیں تھے۔ دفتری امور نبٹانے کے بعد گالف کھیلنے چلے جاتے۔ موسم گالف کی اجازت نہ دیتا تو اپنے گھر ہی میں اس کھیل کی تنہائی میں پریکٹس سے جی بہلاتے۔ بارہا اسمبلی میں کھڑے ہوکر انہوں نے نہایت رعونت سے یہ اعلان بھی کیا کہ ان کی پالیسیوں پر "جاہلانہ"تنقید کے عادی افراد کبھی آئی ایم ایف جیسے عالمی اداروں کے اندر داخلے کے قابل بھی نہیں ہیں۔ نہ ہی انہیں دنیا کی کسی مستند یونیورسٹی سے معاشیات کو بطور مضمون پڑھنے کی "سعادت" نصیب ہوئی ہے۔ ان کے خود پسند رویے کے باوجود عمران خان صاحب نے انہیں سینٹ کی اسلام آباد سے خالی ہوئی ایک نشست کے لئے امیدوار نامزد کردیا۔
آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کو آئندہ دوبرسوں تک برقرار رکھنے کے لئے لازمی تھا کہ ڈاکٹر حفیظ شیخ بطور "منتخب" وزیر خزانہ عالمی معیشت کے نگہبانوں سے معاملات سنبھالے رکھتے۔ تحریک انصاف کے ا راکین قومی اسمبلی کی خاطر خواہ تعداد مگر انہیں"سبق سکھانے" کو مچل رہی تھی۔ ان کے دلوں میں جو جذبات مچل رہے تھے ان کی بھنک مصطفیٰ نواز کھوکھر کو بھی مل گئی۔ ان دنوں وہ پیپلز پارٹی کے جواں سال اور متحرک سینیٹر ہوا کرتے تھے۔ اپنی جماعت کے قائد بلاول بھٹو زرداری سے بھی ان کی بہت قربت تھی۔
اس قربت کی بنیاد پر وہ پیپلز پارٹی کی قیادت کو اس امر پر آمادہ کرنے میں کامیاب ہوگئے کہ ڈاکٹر حفیظ شیخ کی شکست یقینی بنانے کے لئے سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو ان کے مدمقابل سینٹ کا امیدوار بنادیا جائے۔ کافی ہچکچاہٹ اور سوچ بچار کے بعد پیپلز پارٹی کی قیادت اور گیلانی صاحب اکھاڑے میں اترنے کو آمادہ ہوگئے تو مسلم لیگ (نون) نے بھی ان کی پرخلوص مدد کا فیصلہ کرلیا۔
تحریک انصاف کے "ناراض" اراکین سے مسلم لیگ (نون) کی قیادت نے خفیہ ملاقاتیں کی۔ ان ملاقاتوں میں انہیں یقین دلایا گیا کہ اگر انہوں نے گیلانی صاحب کی حمایت میں ووٹ دیا تو آئندہ انتخابات میں انہیں مسلم لیگ (نون) کا ٹکٹ فراہم کردیاجائے گا۔ گیم لگ گئی تو اس کا نتیجہ بھی برآمد ہوگیا۔ ڈاکٹر حفیظ شیخ خفیہ رائے شماری کی بدولت سینٹ کی نشست حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ ان کی ناکامی کے بعد عمران خان نے بھی انہیں ذلت آمیز انداز میں وزارت خزانہ سے فارغ کردیا۔
وقتی طورپر حماد اظہر کو ان کی جگہ بٹھانے کے بعد شوکت ترین بالآخر مذکورہ منصب پر براجمان ہوگئے۔ "ووٹ کی طاقت" سے 2021ء میں شکست خوردہ ہوئے ڈاکٹر حفیظ شیخ کو مگر اب وزیر داخلہ رانا ثناء ا للہ صاحب نے نگران وزیر اعظم کے لئے "تگڑا" امیدوار ڈیکلیئر کردیا ہے۔ رانا صاحب نے یقینا ازخود ان کی ممکنہ نامزدگی کااعلان نہیں کیا۔ وزیر اعظم شہباز شریف صاحب کی منشاء کے بغیر وہ ایسا بیان جاری کرنے کے متحمل نہیں ہوسکتے تھے۔
مجھے یقین ہے کہ مارچ 2021میں ان دنوں قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شمار ہوتے راجہ ریاض صاحب نے بھی ڈاکٹر حفیظ شیخ کے خلاف ووٹ دیا ہوگا۔ اب مگر وہ ڈاکٹر صا حب کی بطور نگران وزیر اعظم نامزدگی کی مخالفت کو بے چین نہیں ہوں گے۔ فیصل آباد کے دو "رانا" اگر ایک نام پر متفق ہوگئے تو محاورے والا"ہما" ڈاکٹر حفیظ شیخ کے سرپرمنڈلانا شروع ہوجائے گا۔
یہ کالم لکھنے تک مجھے ہرگز خبر نہیں کہ بالآخر "ہما" ڈاکٹر حفیظ شیخ کے سرپربٹھادیا جائے گا یا نہیں۔ میرے اندر بیٹھا تھوڑا ساکمینہ انسان مگر انتہائی گرم جوشی سے یہ توقع باندھ رہا ہے کہ ڈاکٹر صاحب اس منصب پر فائز ہوجائیں۔ ان کی تعیناتی پاکستان کے سیاستدانو ں کی اجتماعی بے بسی کو واضح انداز میں بے نقاب کردے گی۔ ان کی "اوقات" بھونچال کی صورت ہمارے سامنے آجائے گی۔ ثابت ہوجائے گا کہ بالآخرآئی ایم ایف کے چہیتے ہی وطن عزیز میں اقتدار کی مسندوں پر بٹھائے جاتے ہیں۔
"ووٹ" نامی شے اس ضمن میں کسی وقعت کی حامل نہیں۔ "ووٹ کو عزت دو" کا واہمہ لہٰذا جلد از جلد ذہن سے نکال دو اور عالمی اور مقامی اشرافیہ کے روبرو اپنے سرجھکانے کو ہمیشہ تیار رہو۔