مبینہ طورپر ایک "تحریری آئین" کے تحت چلائے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں گزشتہ برس کے اپریل سے مسلسل ایسے واقعات ہورہے ہیں جو واضح طورپر یہ پیغام دے رہے ہیں کہ ہمارا ریاستی بندوبست کاملاََ بے لگام ہوچکا ہے۔ کہانی آبادی کے اعتبار سے ہمارے سب سے بڑے صوبے پنجاب سے شروع ہوئی تھی۔ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کے مستعفی ہوجانے کے بعد وہاں"گورنر راج" رہا۔
کچھ دنوں کو حمزہ شہبازشریف کی نظام سقہ نما حکومت بھی نمودار ہوئی۔ اسے مگر عدالت نے "لوٹوں" کی وجہ سے غیر آئینی قرار دے دیا۔ ان کی رخصت کے بعد پرویز الٰہی تشریف لائے تو آئینی مدت مکمل کرنے کے بجائے قبل از وقت انتخاب مسلط کرنے کی ضد میں پنجاب اسمبلی کو تحلیل کردیا۔ گزشتہ آٹھ مہینوں سے یہ صوبہ "نگران حکومت" چلارہی ہے۔ 12اگست 2023سے اگرچہ سارا ملک ہی اب نامزد کردہ "نگرانوں" کی "زد"میں ہے۔ انہیں نوے دنوں کے بجائے کم از کم آئندہ برس کے مارچ تک برسرِ اقتدار رہنے کا جواز بھی نئی مردم شماری کی بنیاد پر فراہم کردیا گیا ہے۔
آئینی اعتبار سے کامل بے یقینی کے اس موسم میں"صدر مملکت" عارف علوی نے اتوار کی سہ پہر ریاستی بندوبست کے کھوکھلے پن کو عیاں کرنے کے لئے ایک "موراوور "مارکہ حرکت فرمادی ہے۔ سوشل میڈیا کا ایک پلیٹ فارم ہے جسے اب ٹویٹر کے بجائے اس کا نیا مالک "ایکس" پکارنے کو مصر ہے۔ موصوف نے مذکورہ ایپ کو ایک پیغام پھیلانے کے لئے استعمال کیا۔ "خدا کو حاضر ناظر"ٹھہراتے ہوئے 25کروڑ آبادی والے ایٹمی ملک کے صدر مملکت جو خیر سے افواج پاکستان کے سپریم کمانڈر بھی تصور ہوتے ہیں اپنے پیغام میں عوام کو یقین دلانے کی کاوش میں مصروف رہے کہ انہوں نے ان دو قوانین پر اجرائی کے دستخط نہیں کئے جن کی بدولت فوج اور سرکاری رازوں سے متعلق قواعد وضوابط کو مزید سخت گیر بنادیا گیا ہے۔
ان کا دعویٰ ہے کہ پارلیمان کے دونوں ایوانوں سے منظور ہوئے قوانین جب ان کے روبرو رکھے گئے تو انہوں نے اجرائی دستخط کرنے سے انکار کردیا۔ اپنے سٹاف کو حکم دیا کہ مذکورہ قوانین"واپس" کردئیے جائیں۔ علوی صاحب نے جو پیغام لکھا اس میں یہ وضاحت نہیں فرمائی کہ مذکورہ قوانین "کسے" واپس بھجوانا مقصود تھا۔ پارلیمانی جمہوریت اور ہمارے تحریری آئین کا تاہم یہ کلیدی اصول ہے کہ اگر مملکت کا سربراہ منتخب قومی اسمبلی اور سینٹ سے منظور ہوئے کسی قانون سے مطمئن نہ ہو تو اپنے اعتراضات تحریری طورپر تاریخ کا حصہ بناتے ہوئے انہیں پارلیمان کو واپس لوٹادیتا ہے۔ مقصد اس مشق کا پارلیمان کو قائل کرنا ہوتا ہے وہ منظور ہوئے قوانین کو نظرثانی کی چھلنی سے گزارے۔
مذکورہ بالا حقیقت ذہن نشین کرلینے کے بعد اس حقیقت کوبھی یاد رکھنا ہوگا کہ قومی اسمبلی اب تحلیل ہوچکی ہے۔ انتخابات کی بدولت اس کا احیائ آئندہ انتخاب کے بغیر ممکن نہیں جو 2024ء کے مارچ سے قبل منعقد ہوتے نظر نہیں آرہے۔ سوال اٹھتا ہے کہ قومی اسمبلی کے احیاءسے قبل آرمی اور سرکاری رازوں سے متعلق معاملات کیسے نمٹائے جائیں گے۔ "پرانے" یا ان قوانین کے مطابق جو حالیہ ترامیم کے ساتھ منظور ہوئے ہیں؟
جو سوال میں نے اٹھایا ہے اس کا جواب تو شاید بالآخر عدالتوں سے مل ہی جائے۔ یہ سوال مگر اپنی جگہ قائم رہے گا کہ صدر مملکت نے اپنے سٹاف کو "زبانی کلامی" حکم کیوں دئے۔ سرکاری ملازمت میں چند ماہ گزارنے والا شخص بھی ملازمت کے پہلے روز سے یہ جان لیتا ہے کہ "سرکار" کے ادنیٰ ترین فریضے کو بھی سرانجام دینے کے لئے "تحریری نوٹ" سے کارروائی کا آغاز ہوتا ہے۔ "فائل کا پیٹ" تحریری نوٹوں ہی سے بھرا جاتا ہے جو نچلی سطح سے اوپری یا اوپر سے چلتی ہوئی نچلی سطح کے افسروں تک آتی ہے۔ عارف علوی 2018ئ سے ایوان صدر میں براجمان ہیں۔ پڑھے لکھے آدمی ہیں۔ چھابڑی لگانے سے اپنے کیرئیر کا آغاز نہیں کیا تھا۔ انہیں اگر آرمی اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ میں ہوئی ترامیم پسند نہیں آئی تھیں تو اپنے اعتراضات ان سے متعلق فائل پر انہیں باقاعدہ قلم بند کرنا چاہیئں تھے۔
اتوار کے روز ان کا لکھا پیغام ہر صورت قابل اعتماد سنائی دیتا اگر وہ اس کے ساتھ مذکورہ قوانین پر اٹھائے اعتراضات بھی عوام کے روبرو لے آتے۔ موصوف نے مگر اس سے اجتناب برتا۔ بے بس آدمی کی طرح محض اس "فریاد" پر ہی اکتفا کیا کہ ان کے "سٹاف" نے انہیں مبینہ طورپر دھوکا دیا ہے۔ میرے اور آپ جیسے عام پاکستانی کو کوئی نوسر باز "دھوکہ" دے تو غالباََ ہم اس کا کچھ بگاڑ نہیں سکتے۔ عارف علوی مگر اس ملک کے صدر ہیں۔ انہیں بخوبی علم ہے کہ انہوں نے اپنے کن افسروں کو یہ حکم دیا تھا کہ ان کے روبرو رکھے قوانین کو ان کے دستخطوں کے بغیر لوٹا دیا جائے۔ ان کا یہ دعویٰ بھی ہے کہ مذکورہ افسروں سے وہ بارہا پوچھتے رہے کہ وہ قوانین جنہیں"لوٹادینے" کا حکم ہوا تھا "لوٹا" دئے گئے ہیں یا نہیں۔ انہیں یقین دہانی کروائی گئی۔ وہ مطمئن رہے۔ مگر وہ قوانین بالاخر لاگو ہوگئے۔
وہ قوانین جو بقول عارف علوی لاگو نہیں ہونا چاہئیں تھے نظر بظاہر سرکاری گزٹ میں شائع ہوجانے کے بعد قابل اطلاق ہوگئے تو صدر مملکت کہلاتے عارف علوی کو فی الفور ان افسروں کے نام لے کر انہیں معطل کردینا چاہیے تھا جنہوں نے انہیں"دھوکہ" دیا تھا۔ مشکوک افسروں کی معطلی کے بعد ان کے خلاف تادیبی کارروائی کا آغاز ہوجانا چاہیے تھا۔ عارف علوی نے مگر یہ سب کرنے کا اعلان نہیں کیا۔ محض اپنی لاتعلقی ثابت کرنے میں مصروف رہے۔
اپنی "پاک دامنی" کی دہائی مچاتے ہوئے عارف علوی نے یہ حقیقت بھی بھلادی کہ سوشل میڈیا کے ایک مقبول پلیٹ فارم پر لکھا پیغام دنیا کو "اسلامی امہ کی واحد ایٹمی قوت" کے بارے میں کیا پیغام دے گا۔ آپ میں حوصلہ ہے تو خدارا دل تھام کرجان لیں کہ عارف علوی کے ٹویٹر پیغام کے ذریعے مچائی دہائی نے دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدر مملکت کو ان کے سٹاف نے "دھوکا" دیا ہے۔ جس ملک کے افسروں کے خلاف وہاں کا صدر ہی دھوکے کے الزام لگانا شروع ہوجائے ان پر کوئی دوسرا ملک کیوں اعتبار کرے؟