حکمرانوں کی جانب سے ہر فیصلے کو شک کی چھلنی سے گزارنا صحافی کی جبلت میں شامل ہوتا ہے۔ جو قدم اٹھانے کی تیاری ہورہی ہو اس کی بابت حکمران جماعت کے اراکین پارلیمان کی جانب سے منتخب ایوانوں میں سوال اٹھنا شروع ہوجائیں تو معاملہ مزید مشکوک ہوجاتا ہے۔ پارلیمان کے مشترکہ اجلاس کے ذریعے نگران وزیر اعظم کو جس انداز میں"بااختیار" بنایا گیا ہے اس کے حوالے سے بھی ایسا ہی واقعہ ہوا ہے۔
قانون تو بالآخر پاس ہوگیا۔ شکوک وشبہات تاہم مزید بڑھایا گیا ہے۔ عمران خان کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے وزارت عظمیٰ کے منصب سے فارغ کروانے کے بعد موجودہ حکومت گزشتہ برس کے اپریل میں برسراقتدار آئی تھی۔ اس حکومت میں شامل کم از کم چار جماعتیں -مسلم لیگ نون، پیپلز پارٹی، جے یو آئی (ایف) اور ایم کیو ایم-1988سے ہماری سیاست میں کلیدی کردار ادا کرتی رہی ہیں۔ انہیں خبر تھی کہ موجودہ قومی اسمبلی کی آئینی مدت اگست 2023میں ختم ہوجائے گی۔ اس کے بعد نئے انتخابات کا انعقاد لازمی ہوجائے گا۔
جون 2022-23کا بجٹ تیار کرنے اور اسے منظور کروالینے کے بعد نظر بظاہر یہ فیصلہ ہوگیا کہ شہباز حکومت قبل از وقت انتخابات کے لئے تیار نہیں ہے۔ انتخاب لہٰذا بروقت ہونا طے تھا اور انہیں"صاف شفاف" بنانا اگر حکومت کی حقیقی ترجیح تھی تو "انتخابی اصلاحات" کے لئے ایک وسیع تر پارلیمانی کمیٹی کا قیام لازمی تھا۔ مذکورہ کمیٹی میں سینٹ کے اراکین بھی شامل ہوسکتے تھے جو تحریک انصاف کو انتخابی اصلاحات کے لئے اپنی رائے فراہم کرنے کے پلیٹ فارم مہیا کرتے۔
وسیع تر تناظر میں یہ جماعت خود کو انتخابی عمل کے شفاف اور قابل اعتبار بنانے والے عمل سے دور نہ رکھ پاتی۔ حکومت نے مگر اس جانب بڑھنے کا تردد ہی نہیں کیا۔ اگست میں قومی اسمبلی کی آئینی مدت ختم ہونے کے چند ہی ہفتے قبل 5جولائی کو "انتخابی اصلاحات" کے نام پر ایک کمیٹی کے قیام کا اعلان کردیا۔ تحریک انصاف کے علی ظفر نے ابتداََ اس کے چند اجلاسوں میں شرکت کی۔ بعدازاں لاتعلقی اختیار کرلی۔
مذکورہ کمیٹی نے البتہ اپنا کام جاری رکھا۔ اگرچہ اس کے پانچ سے زیادہ اجلاس نہیں ہوئے۔ بطور صحافی میرے لئے سب سے حیران کن یا "مشکوک" بات یہ تھی کہ "انتخابی اصلاحات" کے نام پر بنائی کمیٹی کے اجلاسوں کو "خفیہ" رکھا گیا۔ "انتخابات" عوام کی بھرپور شرکت ہی سے قابل اعتبار ہوتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مذکورہ کمیٹی کے روبرو جو تجاویز آرہی تھیں میڈیا کی معاونت سے انہیں عوام کے سامنے لایا جاتا۔ اس کے علاوہ غیر سرکاری تنظیمیں جو جمہوری اور انتخابی عمل پر کئی برسوں سے نگاہ رکھے ہوئے ہیں ان کی رائے کو بھی آئندہ انتخابات کو صاف شفاف بنانے کے لئے خلوص سے زیر بحث لایا جاسکتا تھا۔
"انتخابی اصلاحات" کی بابت "سنجیدگی" کا مگر یہ عالم تھا کہ ان کے لئے بنائی کمیٹی کے محض پانچ اجلاس ہوئے۔ مذکورہ کمیٹی کے جو پانچ اجلاس ہوئے اس میں سے کسی ایک میں بھی یہ تجویز زیر غور نہیں آئی کہ انتخابات کے لئے بنائی "نگران حکومت" ماضی کی طرح محض "ڈنگ ٹپا?" حکومت نہیں ہوگی۔ اسے ماضی کے برعکس محض "روزمرہّ معاملات" تک محدود رکھنے کے بجائے غیر ملکی حکومتوں اور عالمی اداروں سے معاہدات کرنے کا حق بھی میسر ہوگا۔
گزرے اتوار کی صبح مگر ہمارے ایک متحرک رپورٹر شہباز رانا نے اپنے اخبار کے لئے ایک "ایکسکلسیو (Exclusive)"خبر دے کر ہم سب کو حیران کردیا۔ خبر میں یہ دعویٰ ہوا کہ نگران حکومت کو غیر ملکوں اور عالمی اداروں سے معاملات طے کرنے کے اختیارات فراہم کرنے کےلئے الیکشن ایکٹ کی شق 230میں ترمیم کی جارہی ہے۔ اس کے علاوہ سنسنی خیز خبر یہ بھی تھی کہ اگر مطلوبہ اختیارات میسر کردئیے گئے تو موجودہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار صاحب نگران حکومت کے وزیر اعظم نامزد ہوجائیں گے۔
حیران کن بات یہ بھی ہوئی کہ جس روز یہ خبر چھپی اسی شام ڈار صاحب نے ڈان ٹی وی کے لئے اپنا انٹرویو ریکارڈ کروادیا۔ مذکورہ انٹرویو میں شہباز کی دی خبر کی تقریباََ تصدیق فراہم کردی گئی۔ پارلیمانی سیاست کے 1985سے مسلسل مشاہدہ کی بدولت میں یہ سوچنے کو مجبور ہوں کہ منگل کے روز پارلیمان کے دونوں ایوانوں کا مشترکہ اجلاس شروع ہوتے ہی پیپلز پارٹی کے دیرینہ وفادار اور سینئر ترین پارلیمنٹرین رضا ربانی نے جو دہائی مچائی اس کی بنیادی وجہ شہباز رانا کی دی ہوئی خبر تھی۔ ان کا جے یو آئی کے سینیٹر کامران مرتضیٰ نے ڈٹ کر ساتھ دیا اور مصر رہے کہ الیکشن ایکٹ کی شق 230میں جس ترمیم کا ذکر ہورہا ہے وہ ایک بار بھی انتخابی اصلاحات کے لئے بنائی کمیٹی کے روبرونہیں رکھی گئی تھی۔
پیپلز پارٹی کے سینیٹر تاج حیدر نے ان کے دعویٰ سے اتفاق کیا۔ وہ بھی کامران مرتضیٰ کی طرح انتخابی اصلاحات کے نام پر بنائی کمیٹی کے رکن ہیں اور اس کے ہر اجلاس میں شریک ہوتے رہے ہیں۔ منگل کے روز رضا ربانی جیسے کہنہ مشق پارلیمنٹرین نے پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں کھڑے ہوکر جو دہائی مچائی وہ جمہوری نظام کے ہر چاہنے والے کے لئے باعث تشویش ہونا چاہیے۔ پارلیمانی نظام کا اصل مقصد عوام کے منتخب نمائندوں کو قانون سازی کے عمل میں شریک کرنا ہے۔ اسی باعث ہر سیاسی جماعت کی ایک "پارلیمانی پارٹی" بھی ہوتی ہے۔
قومی اسمبلی یا سینٹ کے اجلاسوں کے دوران اس کے باقا عدہ اجلاس ہوتے ہیں۔ ان میں یہ طے کیا جاتا ہے کہ رواں اجلاس کے دوران کونسے قوانین متعارف ہوں گے اور انہیں کس انداز میں منظور یا رد کیا جائے۔ حکمران جماعت مجوزہ قوانین کو جلد از جلد منظور کروانے کی حکمت عملی تیار کرتی ہے۔ اس کے برعکس اپوزیشن میں موجود ہ جماعتیں مجوزہ قانون میں رخنہ اندازی کی کارگر ترکیبیں سوچتی ہیں۔
شہباز حکومت میں شامل جماعتوں نے مگر اپنے اراکین پارلیمان کو اس قابل ہی تصور نہیں کیا۔ اس کے باوجود بدھ کے روز الیکشن کمیشن کی شق 230میں تجویز کردہ ترامیم منظور ہوگئی ہیں۔ رضا ربانی وغیرہ کی ماتم کنائی نے نگران وزیر اعظم کے اختیارات کو نظربظاہر تھوڑی لگام ڈالی ہے۔ یہ بات مگر طے ہوگئی کہ ہماری سیاسی جماعتوں کے قائدین اپنے اراکین کو ان کی منشا کے مطابق انگوٹھا لگانے والے فدوی ہی شمار کرتے ہیں۔