گزشتہ کئی برسوں سے اس کالم میں آپ کو اکتا دینے کی حد تک ابلاغ کے ہنر کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کی ضرورت نہایت شدت سے ان دنوں محسوس کی جب ہماری ریاست کے چند طاقت ور افراد نے یہ محسوس کیا کہ پاکستان پانچویں پشت کی ابلاغی جنگ، کی زد میں ہے۔ مبینہ جنگ، کو شکست دینے کے لیے صحافتی شعبے سے چندمحبان وطن کا چناؤ ہوا۔
ان کی اکثریت نوجوانوں پر مشتمل تھی۔ انھیں مختلف ورکشاپس اور کورسز کے ذریعے دفاعی امور کے حساس پہلوؤں، سے متعارف کروانے کے بعد قومی مفاد، میں بیانیے، تشکیل دینے کی مہارت، سے مسلح کیا گیا۔ میں بدنصیب مسلسل فریاد کرتا رہا کہ صحافت اور ابلاغ جس کا کام اسی کو ساجھے، کا تقاضا کرتے ہیں۔ غیر، اس کی نزاکتوں سے آگاہ ہو ہی نہیں سکتے۔
اپنی بات سمجھانے کو اکثربرطانوی سامراج کا حوالہ بھی دیتا رہا۔ کسی زمانے میں اس کے زیر نگین علاقوں میں سورج غروب ہی نہیں ہوتا تھا،۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد تاہم وہ یورپ میں اپنے حریفوں سے زچ ہونا شروع ہوا تو ہمارے خطے میں تحریک خلافت، اور گاندھی کی ٹیکس دینے کے خلاف چلائی مہم کا آغاز ہوگیا۔ مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد بھی علماءکے ایک گروہ کے خیالات سے متاثر ہوکر ہندوستان کو دارالحرب، تصورکرتے ہوئے گھربار چھوڑ کر افغانستان جیسے دیگر ممالک میں ہجرت، کو مجبور ہوگئی۔
برطانیہ باغیانہ خیالات، کا اپنے تئیں موثر توڑ ڈھونڈنے میں ناکام رہا۔ بالآخر اسے ہمارے ہی ان چند ادیبوں اور شاعروں کی فراست سے رجوع کرنا پڑا جو کسی بھی صورت برطانیہ کے غلام ہونے پر خوش نہیں تھے۔ وہ مگر خود پر نازل ہوئی غلامی کے حقیقی اسباب کو جان کر اس سے نجات کی پرامن راہ ڈھونڈنے کے خواہاں بھی تھے۔ برطانوی سامراج کے خلاف باغیانہ مگر اپنی سرشت میں نراجی اور انتہا پسندانہ خیالات کا مقابلہ درحقیقت ان افراد کی فراست نے کیا اوریہ سلسلہ دوسری جنگ عظیم کے دوران کرنل فیض احمد فیض، اور میجر مولانا چراغ حسن حسرت، کی صورت بھی جاری رہا۔
مجھے یہ لکھتے ہوئے ہرگز دانشوارانہ رعونت، والی خوشی محسوس نہیں ہورہی کہ پانچویں پشت کی ابلاغی جنگ، کے لیے تیار کیے افراد کی اکثریت گزشتہ اپریل کے بعد سے اب اپنے ہنر، کو ان ہی قوتوں کے خلاف نہایت ضد اور لگن سے استعمال کررہی ہے جنھوں نے ان کے ہاتھ ابلاغ کی تلوار، تھمائی تھی۔ بہرحال جو ہوا سو ہوا۔ اس پر سیاپا فروشی سے اب کچھ حاصل نہیں ہوگا۔
فی الوقت ابلاغ کے تناظر میں مجھے حیرانی ایک اہم واقعہ کی وجہ سے ہورہی ہے۔ عملی رپورٹنگ سے عرصہ ہوا ریٹائر ہونے کے باوجود مجھے خبر تھی کہ پیر کے دن اسلام آباد میں ایک اہم اجتماع ہونا تھا۔ وزیر اعظم پاکستان کے علاوہ آرمی چیف کی موجودگی بھی مذکورہ اجتماع میں متوقع تھی۔ جس اجتماع کا ذکر تھا اس کا مقصد بھی میری دانست میں نہایت اہم تھا۔ موسمیاتی تغیراور غذائی بحران کے امکان میں گھرے پاکستان کو آنے والے دور کی آفتوں سے بچانے کے لیے عسکری اداروں کی بھرپور معاونت سے ایک منصوبہ تیار ہوا ہے۔
اس کے ذریعے ملک بھر میں جدید سائنسی آلات کی بدولت ایسے رقبوں کی نشاندہی کی جائے گی جو ہمارے ہاں کپاس جیسی نقد آور فصل اور روزمرہ استعمال کی سبزیوں کے علاوہ گندم اور چاول جیسی بنیادی غذائی اجناس کی پیداوار کے قابل بنائی جاسکتی ہیں۔ مذکورہ رقبوں کی نشاندہی کے بعد ان کی آباد کاری کے لیے خلیج کے برادر ممالک اور چین جیسے دوستوں کو وہاں سرمایہ کاری کی سہولتیں دی جائیں گی۔ افسر شاہی کی رکاوٹوں سے بالاتر ون ونڈو، جیسا نظام ممکنہ سرمایہ کاروں کو وسیع تر رقبے طویل المدت لیز پر لینے کو اکسائے گا۔ یوں وطن عزیز کو اربوں ڈالر کو چھوتی غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے تیار کیا جاسکتا ہے۔
پیر کے دن اسلام آباد میں جو تقریب تھی وہ مذکورہ منصوبے کی افتتاحی تقریب، تھی۔ مجھے گماں تھا کہ ہمارے تمام چینلوں پر اس تقریب کو براہ راست دکھایا جائے گا۔ گھر بیٹھے ہوئے میں نے ٹی وی دیکھنا کئی برسوں سے چھوڑ رکھا ہے۔ ان دنوں مگر ایک ٹی وی چینل پر ٹاک شو کا مہمان بھی ہوں۔ وہاں جاؤں تو حالاتِ حاضرہ، سے باخبر رہنے کے لیے ٹی وی آن کرلیتا ہوں اور ساتھیوں سے جاننے کی کوشش کرتا ہوں کہ میرے وہاں پہنچنے سے قبل ٹی وی سکرینوں پر کون سے موضوع زیر بحث تھے۔
مجھے یقین تھا کہ جن ساتھیوں سے مذکورہ سوال پوچھوں گا کہ ان کی اکثریت پیر کے دن والی تقریب میں ہوئی تقاریر کے اہم نکات بیان کرے گی۔ انھوں نے تاہم مجھے یہ بتاتے ہوئے حیران وپریشان کردیا کہ مذکورہ تقریب کو براہ راست دکھایا ہی نہیں گیا۔ اس کے علاوہ شام ہونے سے قبل مذکورہ تقریب میں ہوئی تقاریر سے نکالے ٹکر بھی ٹی وی سکرینوں پر نظر نہیں آئے۔ شام کے سات گزرجانے کے بعد وزیر اعظم پاکستان تاہم اچانک، ٹی وی سکرینوں پر رونماہوئے اور ان کا نظر بظاہر نہایت احتیاط سے ایڈٹ، ہوا خطاب سننے اور دیکھنے کو ملا۔ میرا کوئی متحرک ساتھی یہ کالم لکھنے تک مجھے ہرگز نہیں سمجھاپایا کہ جس تقریب کا میں ذکر کررہا ہوں اسے براہ راست دکھانے سے اجتناب کیوں برتا گیا؟
بہرحال وجہ جو بھی رہی ہو اس کی بدولت وہ منصوبہ بھرپور انداز میں عوام کے روبرو نہیں لایا جاسکا جو میری دانست میں موسمیاتی تبدیلیوں کے گرداب میں گھرے آج کے پاکستان کے لیے طویل المدت تناظر میں امید اور خیر کی نوید سناتا ہے۔ کاش اس کی تفصیلات اور جزئیات کو وسیع پیمانے پر زیر بحث لانے کا بندوبست یقینی بنایا جاسکے۔