متعصب مفروضوں کی بنیاد پر گھڑی سازشی تھیوریوں سے میں چڑجاتا ہوں۔ ہفتے کے دن فلسطینی مزاحمت کاروں کی ایک تنظیم نے غزہ سے غباروں کی طرح اڑکر اسرائیل کے جنوب میں صہیونی آبادکاروں کی بسائی بستیوں میں جو کارروائیاں کیں انہوں نے لیکن حیران کردیا ہے۔ مسلسل سوچ رہا ہوں کہ اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد کی صلاحیتوں کو کیا ہوا۔ یہ سوچتے ہوئے البتہ ذہن میں یہ خیال بھی آیا کہ نائن الیون نے بھی سی آئی اے جیسی ایجنسیوں کی محدودات کو بے نقاب کردیا تھا۔ ایجنسیوں کی "شکست" سے کہیں زیادہ فکر اب مجھے یہ لاحق ہے کہ ہفتے کے دن ہوئے واقعات صہیونی ریاست کو آتش انتقام سے دیوانہ بنادیں گے۔ وحشت سے مغلوب ہوئی یہ ریاست نہایت سفاکی سے غزہ کی پٹی میں محصور ہوئے فلسطینیوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کو ڈٹ جائے گی۔ مزید بدقسمتی یہ بھی ہوگی کہ نام نہاد مہذب دنیا سے تعلق رکھنے والے عقل کے غلام آتش انتقام کو فلسطینی انتہا پسندوں کی جانب سے ہوئی کارروائیوں کا حوالہ دیتے ہوئے جائزوواجب ٹھہرائیں گے۔
ان دنوں ٹویٹر جسے اب Xکہا جاتا ہے کا استعمال میں نے بہت کم کررکھا ہے۔ ہفتے کے دن مگر اپنے جذبات قابو میں نہ رکھ پایا۔ مذکورہ بالا خدشات کو نہایت محتاط انداز میں Xکے بنائے پلیٹ فارم پر بیان کردیا۔ میرا پیغام پوسٹ ہونے کے چند ہی لمحوں بعد کراچی میں مقیم ایک نہایت ذہین خاتون نے مجھے یاددلایا کہ جو کچھ ٹی وی سکرینوں پر ہمارے لئے فلسطینی "مزاحمت کاروں کی جانب" سے ہوا نظر آرہا ہے وہ "پلان" بھی تو ہوسکتا ہے۔ درحقیقت مجھے متنبہ کرنے والی محترم خاتون اسرائیل کی خفیہ ایجنسی کے اپنائے ہتھکنڈوں کا حوالہ دے رہی تھیں۔ ان کی بات میں چھپا پیغام سمجھ کر میں یہ جواب لکھنے کو مجبور ہوگیا کہ موساد یقینا سوروپ دھارکراپنے مقاصد حاصل کرتی ہے۔ اپنے ہی ملک میں ایک بڑے فوجی آپریشن کا جوازگھڑنے کے لئے مگر وہ ایسی کارروائیوں کو انگیخت دینے کی جرات نہیں دکھاسکتی جو ہفتے کے روز دیکھنے کو ملی ہیں۔
اتوار کی شام مگر سوشل میڈیا کا مشاہدہ کرتے ہوئے میری نگاہ میں ایک وی لاگ آیا۔ ارفات فین گسن Erfat Fengson) نام کی ایک خاتون ہیں۔ و ہ صحافی اور پوڈکاسٹر ہیں۔ اتوار کی شام موصوفہ کا تیارکردہ وی لاگ جو میں نے دیکھا ہے اسے پیر کی صبح یہ کالم لکھنے تک 13لاکھ افراد کی خطیر تعداد دیکھ چکی تھی۔ آپ میں سے اکثر لوگوں کو معلوم ہوگا کہ اسرائیل کے ہر شہری کے لئے نوجوانی میں دو سے تین برس فوج میں شامل ہوکر تربیت کا حصول لازمی ہے۔ اپنے وی لاگ میں اس حقیقت کا حوالہ دیتے ہوئے ارفات نے انکشاف کیا کہ آج سے 25برس قبل اس نے بھی فوجی تربیت حاصل کی تھی۔ فوج میں تعیناتی کے دوران وہ اس کے انٹیلی جنس کے شعبے سے وابستہ رہی۔
خفیہ ایجنسیوں کی سوچ سے ذاتی طورپر آگاہ ہوتے ہوئے ارفات یہ تسلیم کرنے سے نہایت ڈھٹائی کے ساتھ انکار کرتی رہی کہ ہفتے کے روز جو کارروائیاں دیکھنے کو ملی ہیں اسرائیل کی خفیہ ایجنسی اس کے بارے میں قطعاََ بے خبر تھی۔ یہ دعویٰ کرتے ہوئے اس نے اس شک کا اظہار بھی کردیا کہ اسرائیل کے خفیہ اداروں نے "جان بوجھ کر" اپنے کچھ شہریوں کو فلسطینی اہلکاروں کے ہاتھوں اغوا ہونے دیا ہے۔ اسرائیل جیسا کہ آپ جانتے ہیں ایک محدود آبادی کا نسبتاََ چھوٹا ملک ہے۔ اپنے شہریوں کی جان ومال کی حفاظت کے لئے وہ کچھ بھی کرنے کو تیار رہتا ہے۔ اس کا کوئی شہری مگر مغوی بن جائے تو طویل مذاکرات کے ذریعے کوئی درمیانی راہ نکالنے کی کوشش بھی کرتا ہے۔
اپنے ملک کی مذکورہ کمزوری کا حوالہ دیتے ہوئے ارفات نے اس شک کا اظہارکیا کہ اسرائیل کی ڈیپ اسٹیٹ Deep Stateیعنی خفیہ ایجنسیوں نے فلسطینی مزاحمت کاروں کو اسرائیل میں جان بوجھ کر درآنے دیا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ امریکہ کے دبا? پر سعودی عرب کے لئے اسرائیل کے ساتھ معمول کے تعلقات بحال کرنا بہت مشکل ہورہا تھا۔ ہفتے کے روز مگر جو واقعات ہوئے ہیں ان کے نتیجے میں اغوائی ہوئے اسرائیلی شہریوں کی بازیابی اور غزہ کو مکمل تباہی سے بچانے کے لئے سعودی عرب مہا سفارت کاری کے عمل میں کلیدی کردار ادا کرتے ہوئے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کا جواز ڈھونڈسکتا ہے۔
ایمانداری کی بات ہے کہ اسرائیل میں بیٹھ کر ارفات نے جو سازشی کہانی سنائی وہ سننے میں تو انتہائی توجہ طلب رہی مگر عقل کے غلام میرے ذہن نے اسے تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ اتوار ہی کی رات مگر عالمی سطح پر معتبر گردانے سی این این (CNN)پر بھارتی نڑاد صحافی فرید ذکریا کے پروگرام جی پی ایس کی چند کلپس میں نے سوشل میڈیا پر دیکھیں۔ ان میں سے ایک کلپ میں نیویاک ٹائمز کے مشہور کالم نگار تھامس فریڈمین نے بھی حالیہ واقعات کے بار ے میں فرید ذکریا سے ون آن ون گفتگو کی۔
تھامس فریڈمین نے بھی نہایت حقارت سے یہ دعویٰ تسلیم کرنے سے انکارکردیا کہ ہفتے کے روز اسرائیل کے جنوبی علاقوں میں جو کچھ دیکھنے کو ملا موساد اس کے بارے میں قطعاََ بے خبر تھی۔ فریڈمین مصررہا کہ جس انداز میں 300کے قریب مزاحمت کار غزہ کی پٹی سے اڑکراسرائیل کے جنوب میں واقع دیہات میں درآئے اس کے لئے کئی مہینوں کی تیاری اور تربیت درکار ہے۔ ایسی تیاریوں سے موساد جیسی ایجنسی بے خبر رہ نہیں سکتی جو دنیا کے ہر شخص کے زیر استعمال ٹیلی فون تک رسائی کا نظام ایجادکرچکی ہے۔ فریڈمین نے اپنی زندگی کے کئی برس بیروت اور یروشلم میں مقیم ہوکر خبریں تلاش کرنے میں صرف کئے ہیں۔ وہ اسرائیل سے بخوبی واقف ہے اور گزشتہ کئی ہفتوں سے مسلسل دہائی مچائے چلے جارہا ہے کہ اس ملک کا وزیر اعظم نیتن یاہوکرپشن کے مقدمات سے بچنے کے لئے اعلیٰ عدالتوں کو لگام ڈالنا چاہ رہا ہے۔ اس تناظر میں سیاسی قوت کے حصول کے لئے اس نے حال ہی میں ہوئے انتخابات کے بعد ایسی مخلوط حکومت تشکیل دی ہے جس میں مذہبی اعتبار سے جنونی جماعتوں کے نمائندوں کو اہم وزارتیں دی گئی ہیں۔
اسرائیل کی کابینہ میں ایک وزیر یاریولیون (Yariv Levin)نام کا بھی ہے۔ اس نے ایک ایسا قانون تیار کیا ہے کہ جو اسرائیل کے سپریم کورٹ کو حکومت کا ملازم بناسکتا ہے۔ مذکورہ قانون کے خلاف اسرائیل کے کئی شہروں میں گزشتہ کئی مہینوں سے مظاہرے ہورہے تھے۔ ان مظاہروں کی شدت سے مغلوب ہوکر فوج سے ریٹائر ہوئے سینکڑوں شہریوں نے ایک یادداشت پر دستخط کئے جن میں یہ عہد ہوا کہ اگر نیتن یاہوکی حکومت سپریم کورٹ کو اپنا غلام بنانے میں کامیاب ہوگئی تو وہ اسرائیل کے خلاف ہوئی کسی جنگ میں بطور ریزرو فوجی حصہ نہیں لیں گے۔
مختصر لفظوں میں یوں کہہ لیں کہ تھامس فریڈ مین جیسا جہاں دیدہ اور نہایت تجربہ کار صحافی بھی یہ دعویٰ کرتا سنائی دیا کہ اسرائیل کی خفیہ ایجنسیوں نے ہفتے کے روز ہوئے واقعات کی تیاری کے بارے میں"میسر اطلاعات" کو جان بوجھ کر نظرانداز کیا۔ غالباََ ریاست وحکومت نے باہم مل کر یہ سوچا ہوگا کہ فلسطینی مزاحمت کار جن کارروائیوں کے منصوبے بنارہے ہیں وہ بروئے کار آگئے تو اسرائیل کے عوام جو ان دنوں سیاسی اعتبار سے بدترین انداز میں تقسیم ہوچکے ہیں باہمی اختلافات یکسربھلاکر "قومی دفاع اور سلامتی" کی خاطر یکسو ویکجا ہوجائیں گے اور نیتن یاہو کو فلسطینیوں سے "حساب چکانے"کے لئے "کھلاہاتھ"مل جائے گا۔
ارفات فین گسن اور تھامس فریڈمین کے خیالات سن کر میں سازشی سنائی دیتی کہانیوں کو سنجیدگی سے لینے کو مجبور ہوگیا ہوں۔ میرا ماؤف ہوا ذہن بھی تاہم اس قیامت کو نظرانداز کرنے کے قابل نہیں رہاجسے غزہ کی پٹی میں کئی دہائیوں سے جانوروں کی طرح محصور کئے فلسطینیوں پر ڈھانے کی تیاریاں ہورہی ہیں۔