دنیا کے تقریباََ ہر ملک میں انتہاء پسندوں کے گروہ سوشل میڈیا کے ذریعے مذہبی اور نسلی بنیادوں پر نفرت پھیلانے میں مصروف رہتے ہیں۔ چند ممالک میں یہ نفرت انتہائی منظم انداز میں پھیلاتے ہوئے مذہبی اقلیتوں کو بدترین تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے اپنے گھروں سے فرار ہونے کو مجبور بھی کیا گیا۔ اس تناظر میں برما کے روہنگیا مسلمانوں اور سری لنکا کی مذہبی اقلیتوں کے ساتھ بدھ انتہا پسندوں کے ہاتھوں جو گزری اسے کئی لکھاریوں نے گہری تحقیق کے بعد تاریخ کے لئے مرتب کردیا ہے۔
امریکی کانگریس کی ایک کمیٹی کے روبرو پیش ہوکر فیس بک کے ذریعے پھیلائے مواد پر نگاہ رکھنے والی ایک خاتون افسر نے بھی چشم کشا انکشافات کئے تھے۔ فیس بک کی اس ملازم نے ٹھوس مثالوں سے یہ حقیقت اجاگر کردی کہ اس کی کمپنی زیادہ سے زیادہ صارفین کے حصول کے لئے ایسے نفرت انگیز پیغامات کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ فیس بک کی بدولت پھیلائی نفرت کی بنیاد پر انتہا پسندوں کے گروہ بالآخر واٹس ایپ گروپ کی صورت منظم ہوجاتے ہیں۔ ریاستی ایجنسیوں کی نگاہوں سے اوجھل رہتے ہوئے اقلیتی گروہوں کے گھروں کی نشاندہی کرتے ہیں۔ گھروں کی نشاندہی اور وہاں مقیم افراد کی شنا خت کے بعد واٹس ایپ ہی کے ذریعے انتہا پسند گروہ بالآخر وہ دن اور وقت بھی طے کرلیتے ہیں جب اقلیت سے وابستہ کسی محلے میں اکثریتی طبقے کا ایک "مشتعل ومتشدد "گروہ "اچانک" نمودار ہوکر قتل وآتش زنی کی وارداتوں میں مصروف ہوجاتا ہے۔
مذہبی اور نسلی ا نتہا پسندوں کی جانب سے پھیلائے انتشار اور غارت گری سے ہر ریاست کو فطری طورپر خوف کھانا چاہیے۔ کسی بھی ریاست کے قیام کا بنیادی مقصد اور جواز ہی وہاں کے باسیوں کے لئے امن وامان یقینی بنانا ہے۔ وہ یہ فریضہ انجام نہ دے پائے تو خانہ جنگی شروع ہوجاتی ہے جو ریاست کو قطعاََ مفلوج بنادیتی ہے۔ اسرائیل مگر عجب ریاست ہے۔ صہیونی نسل پرستوں نے یورپ کے مختلف ممالک میں یہودیوں کے خلاف صدیوں سے ہوئے ناروا سلوک کو اس ریاست کے قیام کا جواز بتایا تھا۔
1948ء میں"اپنی" ریاست قائم کرلینے کے بعد صہیونیوں کو لیکن اطمینان نصیب ہوجانا چا ہیے تھا۔ وہ مگر "عظیم تر اسرائیل" کی بحالی سے کم کسی اور شے پر گزارا کرنے کو آ مادہ ہی نہیں ہورہے۔ یروشلم کو مسلمانوں اور دیگر مذاہب سے چھین کر فقط یہودی شہر بنانا چاہتے ہیں۔ ان کا جنون ہے کہ ہمہ وقت پھیلتے اسرائیل میں یہودیوں کے علاوہ کسی اور مہذب کے ماننے والوں کو جینے کا حق بھی نہ ملے۔ جس جنون کا میں ذکرکررہا ہوں وہ اب نسل پرست "ٹرولز" تک محدود نہیں رہا۔ اسرائیل نے بلکہ بطور ریاست بھی "ٹرول" والی روش اختیار کرلی ہے۔
اتوار کے دن سوشل میڈیا پر نگاہ ڈالتے ہوئے میں نے ٹویٹر پر جو اب کہلاتا ہے، ایک پیغام پڑھا۔ اس پیغام کے ذریعے بھارت کو پاکستان کے خلاف ہفتے کے روز احمد آباد میں ہوا ون ڈے کرکٹ میچ جیتنے کی مبارک دی گئی تھی۔ جس انداز میں یہ مبارک لکھی گئی اس نے مجھے حیران کردیا۔ مبارک کا پیغام "اسرائیل" نامی اکاؤنٹ سے ہوا تھا۔ میں نے اس کی تفصیلات معلوم کرنا چاہیں تو علم ہوا کہ اس اکاؤنٹ کو چلانے والوں کا دعویٰ ہے کہ وہ اسرائیلی وزارت خارجہ کی بنائی اس ٹیم سے تعلق رکھتے ہیں جو انٹرنیٹ کے ذریعے سفارت کاری کی خاطر تشکیل دی گئی ہے۔ مذکورہ اکاؤنٹ کو Xنے تصدیقی "بلیو ٹک" بھی فراہم کررکھی تھی جو یہ عندیہ دیتی ہے کہ ٹویٹر کی انتظامیہ بھی مذکورہ اکاؤنٹ کو اسرائیلی ریاست کا نمائندہ تسلیم کرچکی ہے۔
بہرحال "اسرائیل کے لئے ڈیجیٹل سفارتکاری" کی دعوے دار اس ٹیم نے "بھارتی دوستوں" کو پاکستان کے خلاف ورلڈ کپ کا ایک میچ جیتنے پر مبارک باد کا پیغام دیتے ہوئے اس امر پر بھی خوشی اور اطمینان کا اظہار کیا کہ پاکستان اگریہ میچ جیت جاتا تو اسے "حماس کے دہشت گردوں" کے نام کردیتا۔ میں یہ پیغام پڑھ کر بہت حیران ہوا۔ پاکستان نے یقینا ورلڈ کپ جیتنے کی تمنا کے ساتھ اپنی کرکٹ ٹیم کو بھارت بھیجا ہے۔ اسرائیل اور حماس کے مابین جنگ نہ بھی ہورہی ہوتی تو پاکستان کرکٹ کے تناظر میں بھی بھارت کا ازلی حریف ہوتے ہوئے نہ صرف احمد آباد میں ہوا ایک میچ بلکہ آخر کارورلڈ کپ بھی جیتنے کا خواہش مند ہوتا۔
ورلڈ کپ جیتنے کے بعد عموماََ اسے کسی کے "نام" نہیں کیا جاتا۔ اس کے حصول کے بعد آپ اپنے ہم وطنوں کو مبارک باد دیتے ہوئے فخر محسوس کرنے کا موقعہ فراہم کرنے پرہی اکتفا کرتے ہیں۔ کرکٹ کے ورلڈ کپ کی تاریخ میں اسے جیتنے والی ٹیم نے اس کے سوا کسی اور جذبے کا اظہارکبھی نہیں کیا۔ مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ احمد آباد میں ہوا ورلڈ کپ کا فقط ا یک میچ جیت کر پاکستان کی ٹیم اسے حماس کے نام کیوں کرتی۔ فرض کیا کہ اگر ہمارا کوئی کھلاڑی جیت کی خوشی میں فرطِ جذبات سے مغلوب ہو بھی جاتا تو شاید کشمیر کا کسی بہانے ذکر کردیتا۔ اس کا ذہن مگر غزہ تک ہرگز نہ پہنچ پاتا۔
اسرائیل کی انٹرنیٹ کے ذریعے سفارت کاری کی دعوے دار ٹیم نے مگر ڈھٹائی سے یہ فرض کرلیا کہ پاکستان حماس کا دیوانہ ہے۔ اس کی جانب سے اٹھائے ہر قدم کو جائز اور واجب سمجھتا ہے۔ کرکٹ کی جیت پر مبارکباد دیتے مذکورہ پیغام نے یہ بھی اعتراف کیا کہ بھارت حماس کی جانب سے دس روز قبل ہوئے حملے کے بعد سے اسرائیل کے ساتھ مسلسل یکجہتی کا اظہار کررہا ہے۔ "اسرائیل" نامی اکاؤنٹ نے اس تناظر میں"بھارتی دوستوں" کا تہہ دل سے شکریہ بھی ادا کیا۔
کرکٹ کا محض ایک میچ جیتنے کی وجہ سے بھارت کو اسرائیل کی جانب سے ٹویٹر کے ذریعے بھیجے مبارک بادی کے پیغام نے مجھے حیران کرنے کے بعد تجسس کو اکسایا تو لیپ ٹاپ کے بورڈ پر انگلیاں چلاتے ہوئے میں نے ایک اور اکاؤنٹ بھی دریافت کرلیا جو سرکاری طورپر بھارت میں اسرائیل کی جانب سے تعینات سفیر سے منسوب ہے۔ یہ اکاؤنٹ ایسے کئی پیغامات سے بھرا ہوا تھا جو بھارت کے متعدد شہروں میں اسرائیل کی حمایت میں نکالے جلوسوں کو سراہ رہے تھے۔ اس ضمن میں دلی میں لگائے ایک کیمپ کا ذکر بھی ہے جسے "حیفہ کیمپ" کا نام دیا گیا۔ اس کیمپ میں ایک رجسٹررکھا گیا ہے جس پر اسرائیل کی حمایت میں لکھے پیغامات جمع کئے جارہے ہیں۔
بھارت میں تعینات اسرائیل کے سفیر نے مگر ازحد خوشی اور شکریے کے اظہار کے ساتھ مختلف ٹی وی چینلوں کی جانب سے دی ان خبروں کو اپنے اکاؤنٹ کے ذریعے اجاگر کیا ہے جو یہ اطلاع دے رہی تھیں کہ بھارت کے صوبہ اترپردیش کے "یوگی" وزیر اعلیٰ نے پولیس اور ا من وامان کے دیگر ذمہ داران کو سختی سے یہ حکم دیا ہے کہ گزرے جمعہ کے روز اس کے صوبے میں قائم مساجد میں دئے خطبوں پر کڑی نگاہ رکھی جائے۔ ان خطیب اور علماء حضرات کی واضح نشاندہی بھی ہوجو جمعہ کے خطبے کے دوران نمازیوں کو"فلسطینی دہشت گردوں" کی حمایت میں اکساتے سنائی دیں۔ ایسے خطیبوں کے خلاف قانونی کارروائی کے علاوہ مسلمانوں کی جانب سے چلائے سوشل اکاؤنٹ پر کامل توجہ دینے کا بھی حکم ہوا تانکہ "اسرائیل مخالف"جذبات ابھارنے والوں کی "بروقت نشان دہی" ہوسکے۔
بھارت کی کسی اور ریاست یعنی صوبے کے وزیر اعلیٰ کو اسرائیل کے سفیر نے دادوتحسین کا مستحق تصور نہیں کیا۔ غالباََ اسے گماں ہے کہ مودی کے بعد یوپی کا انتہا پسند "یوگی" ہی اس کا حقیقی وارث بن کر بھارت کا وزیر اعظم بن جائے گا اور یوں اسرائیل اور بھارت مسلمانوں کے خلاف حقیقی "بھائی-بھائی" بن جائیں گے۔