تقریباً ایک دہائی ہوچکی ہے۔ ہفتے کے پانچ دن بستر سے اٹھتے ہی یہ کالم لکھنے کی مشقت میں الجھ جاتا ہوں۔ رزق کے حصول کے علاوہ لکھتے ہوئے گماں یہ بھی لاحق ہوتا ہے کہ اپنے پڑھنے والوں کی نگاہ میں آئی خبروں کا سیاق وسباق بیان کررہا ہوں۔ میری کاوش انھیں حقائق سے باخبر رکھنے میں مددگار ثابت ہوگی۔ گزشتہ کئی مہینوں سے مگر یہ خیال جند ہی نہیں چھوڑ رہا کہ میں احمقوں کی دنیا میں رہتا ہوں۔ خبر، اور حقائق، اندھی نفرت وعقیدت میں تقسیم ہوئی دنیا کا اب مسئلہ نہیں رہے۔ آج کی صحافت، کا واحد مقصد یہ ہے کہ لوگوں کے دلوں میں پہلے سے موجود تعصبات کی آگ بھڑکانے کے لیے حقائق، اگر موجود نہیں ہیں تو انھیں ایجاد، کرلیا جائے۔
مذکورہ بالا حقیقت کافی عرصہ قبل دریافت کرلینے کے باوجود کئی مہینوں سے پرانی وضع کی صحافت، اختیار کرنے کو ڈٹا ہوا ہوں۔ ہمت اگرچہ اب جواب دے رہی ہے۔ گزرے تین دن تو ذہنی اعتبار سے کاملاً مفلوج رہا۔ ہوا یہ تھا کہ جمعرات کی رات سونے سے قبل تازہ ترین، سے باخبر رہنے کے لیے سوشل میڈیا پر نظرڈالی۔ اس غرض سے اپنے فیس بک اکائونٹ پر بھی گیا۔ وہاں ایک خبر، لگی ہوئی تھی۔
جس دوست نے وہ خبر، لگائی تھی صحافت میں مجھ سے بھی تقریباً پانچ برس سینئر ہیں۔ دھیمے مزاج کے مہذب آدمی ہیں۔ مجھے ہمیشہ اندھی نفرت وعقیدت سے بالاتر محسوس ہوئے۔ ان دنوں ریٹائر ہوے کسی غیر ملک میں راحت بھری زندگی گزاررہے ہیں۔ ان کی جانب سے فیس بک پر لگائی خبر، مگر ان کے دل میں جانے کتنے برسوں سے پلتے غصے کا بھرپور اظہار تھی۔ اس کا آغاز اس اعلان، سے ہوا کہ نگران وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ نے اپنے فرزند کو وزیر بنوادیا ہے۔
جو خبر، میرے دوست نے فیس بک پر پوسٹ کی تھی اسے دیکھتے ہی ذہن میں فوری خیال یہ آیا کہ کاکڑ صاحب کے بیٹے نے غالباً ابھی میٹرک بھی نہیں کیا ہے۔ ان کی حلف برداری کے روز وہ کیمروں کے روبرو بھی آئے تھے۔ ان کی عمر ہرگز وزیربننے کے قابل نظر نہیں آئی۔ بہرحال یہ سوچتے ہوئے بھی میں نے فیس بک پر لگائیخبر، کو مزید پڑھا تو دریافت ہوا کہ جس وزیر کا ذکر ہورہا ہے نام ہے ان کا جمال رئیسانی۔ انھیں بلوچستان کی نگران حکومت میں وزیر کھیل لگایا گیا ہے۔ جمال کی عمر یقینا 25سال سے ز یادہ نہیں۔ وہ پاکستان کی تاریخ کے کم عمر ترین وزیر بھی شمار ہوسکتے ہیں۔
میری ان سے آج تک ملاقات نہیں ہوئی۔ یہ بات مگر جانتا ہوں کہ تعلق ان کا بلوچستان کے مشہور رئیسانی خاندان سے ہے جو اس قبلے کا سردار شمار ہوتا ہے۔ جمال کے والد کو داعش سے تعلق کے دعوے دار ایک گروہ نے کسی انتخابی جلسے کے دوران سوکے قریب افراد سمیت دہشت گردی کی ہولناک واردات کے ذریعے شہید کردیا تھا۔ غالباً ان کی قربانی نے ہماری سیاست کے نگہبانوں کو مائل کیا کہ ان کے نوجوان جانشین کو بلوچستان کی نگران حکومت میں وزیر بنواکرسیاست میں آگے بڑھنے کا موقع فراہم کیا جائے۔ جمال رئیسانی مستقبل میں اپنا مقام بناسکتے ہیں یا نہیں فی الوقت ٹھوس منطقی بنیادوں پر زیر بحث لایا ہی نہیں جاسکتا۔ انھیں مگر نگران وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ کا فرزند بتاتے ہوئے موروثی اور کرپٹ سیاستدانوں، کی بھرپور مذمت کا آغاز ہوچکا ہے۔
جمال رئیسانی کے بارے میں فیس بک پر لگائی پوسٹ کو شاید میں بھول جاتا۔ اس کے لگنے کے دو روز بعد مگر ہفتے کی دوپہر اسلام آباد میں میری ایک نہایت قریبی عزیز سے سرسری ملاقات ہوگئی۔ میرے عزیز ہماری سیاست اور اس سے وابستہ خاندانوں سے بخوبی وقف ہیں۔ ٹی وی ٹاک شوز کو اب بھی توجہ سے دیکھتے ہیں اور کم از کم دو اخبارات اپنے گھر پر منگواتے اور انھیں تفصیل سے پڑھتے ہیں۔
مجھے دیکھتے ہی انھوں نے پہلا سوال یہ کیا کہ یہ بات درست ہے کہ نگران وزیر اعظم نے اپنے بیٹے کو وزیر بنوادیا ہے۔ موصوف کا سوال سن کر میں ہکا بکا رہ گیا۔ یہ سوچتے ہوئے اب تک صحافی، ہونے پر شرمندہ محسوس کررہا ہوں کہ اگر مجھ جیسے صحافیوں، کے ہوتے ہوئے بھی انتہائی پڑھے لکھے افراد کا ایک گروہ سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلائی بے بنیاد خبر، پر اعتبار کرلیتا ہے تو ہم کس دھندے میں اپنا وقت اور توانائیاں ضائع کررہے ہیں۔
بنیادی پیغام یہ ملا ہے کہ عوام کی بے پناہ اکثریت اب نفرت سے کاملاً مغلوب ہوچکی ہے۔ وہ حکمران اشرافیہ کے بارے میں پھیلائی ہر جھوٹی خبر آنکھ بند کرتے ہوئے تسلیم کرنے تیار ہیں۔ جھوٹی اور بے بنیاد خبریں، فقط اس لیے درست مان لی جاتی ہیں کیونکہ وہ ہمارے دلوں میں ابلتے اس تعصب کی تصدیق فراہم کرتی ہیں کہ حکمران اشرافیہ کے تمام افراد خود غرض اور کرپٹ ہیں۔ اقتدار مل جائے تو اس کی برکتوں سے پہلے اپنے خاندان اور پھر چند قریبی دوستوں کو نوازتے ہیں۔ دیگر افراد کے مسائل سے انھیں کوئی دلچسپی نہیں۔
ہمارے مقدرکا مالک ہوئے حکمران طبقات سے نفرت کے اسباب ہرگز بے جواز نہیں۔ نفرت کی انتہا مگر حقائق سے غافل رکھنے کا باعث بھی نہیں ہونا چاہیے۔ ہم ان سے غافل رہتے ہوئے فقط حکمرانوں کی مذمت ہی میں مصروف رہیں گے تو ہماری بدنصیبی کا سبب ہوئے حقائق پر توجہ بھی نہیں دے پائیں گے جنھیں بدلنے کے لیے نہایت سوچ بچار کے بعد تیارہوئی حکمت عملی کے ذریعے ہماری مشکلات کا باعث ہوئے حقائق بدلنے کی جدوجہد درکار ہے۔ انوار الحق کاکڑ کا دفاع میرا درد سر نہیں۔ اقتدار سنبھالے ابھی انھیں دو ہفتے بھی مکمل نہیں ہوئے تھے تو میں نے ایک کالم لکھ کر بڑھک لگادی تھی کہ بجلی کے بلوں کے بارے میں انھوں نے جو رویہ اپنایا اس نے نگران حکومت کی ساکھ کو سرمنڈاتے ہی پڑے اولوں کی وجہ سے تباہ کردیا ہے۔
یہ لکھنے کے باوجود اگر صاحبانِ علم وخبر، مجھے یہ بتائیں گے کہ کاکڑ صاحب نے اپنے فرزند کو وزیر، بنوادیا ہے تومیں اس سے فرزند، کا نام اور محکمہ ضرورپوچھوں گا۔ فرض کیا ان کا فرزندوزیر، بنا ہے تو اس کے نام کے آگےکاکڑ، کا لاحقہ بھی لگاہونا چاہیے۔ جس فرزند، کا نام بتایا جاتا ہے وہ مگر رئیسانی، ہے۔ ہمارے نام نہاد بلکہ ضرورت سے زیادہ پڑھے لکھے پاکستانیوں کو بھی یہ خبر نہیں کہ کاکڑ، بلوچستان میں آباد پشتون قبیلہ ہے۔ رئیسانی، اس کے برعکس ایک بلوچ قبیلہ ہے۔ بلوچستان کا جاہل ترین باسی بھی اس شناخت کو جبلی طورپر جانتا ہے۔ فیس بک کے ذریعےپاکستان، کو جاننے کے دعوے دار سپاہ ٹرول لیکن یہ بنیادی حقائق کو بالائے طاق رکھتے ہوئے افواہ سازی میں بازی لے جاتے ہیں۔
سوال اٹھتا ہے کہ ہم صحافیوں، کے مقابلے میں افواہ سازوں کی پھیلائی خبر، کیوں معتبر اور قابل اعتبار شمار ہوتی ہے۔ اس سوال کا جواب مجھے معلوم ہے۔ اسے مگر بیان کردوں تو یہ کالم لکھنے کی سہولت سے بھی محروم ہوجائوں گا۔ التجا فقط یہ ہے کہ اگر صحافیوں، کو ان کا کام نہیں کرنے دیں گے تو سپاہ ٹرول ہی افواہ سازی کی بدولت حکمرانوں کو بالآخردیوار سے لگانے میں کامیاب وکامران ہوں گے۔