منگل کی رات بستر پر کروٹیں لیتے گذرگئی۔ دل میں اْبلتے وسوسوں اور خوف نے گہری نیند سے محروم رکھا۔ میری پریشانی کی کوئی ذاتی وجہ نہیں تھی۔ دل یہ سوچ کر اداس وپریشان ہوتا رہا کہ ہمارے "جمہوری نظام" کے خود ساختہ چمپئن اپنے ہی ہاتھوں سے ایسی گرہیں لگانے کو کیوں آمادہ ہوگئے جنہیں کھولنے کے لئے بالآخر پنجابی محاورے والے "دانت" استعمال کرنا پڑیں گے۔
یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جو "گرہیں" لگانے کی تیاری ہورہی ہے۔ ان کی وجہ سے جمہوری نظام ہی نہیں بلکہ وطن عزیز کو بھی اتنے گہرے زخم لگیں کہ "دانتوں کا استعمال" بھی ان کا مداوا نہ کرسکے۔ 26جولائی 2023ء کی صبح اْٹھ کر یہ کالم لکھ رہا ہوں۔ آج دوپہر کے بعد پارلیمان کے دونوں ایوانوں کا مشترکہ اجلاس طلب کیا گیا ہے۔ ایسا ہی اجلاس منگل کے دن بھی ہوا تھا۔
اجلاس شروع ہوا تو تحریک انصاف کے سینیٹروں نے حسب توقع ہنگامہ آرائی سے وزیر دفاع خواجہ آصف کو مشتعل کردیا۔ بات تو تکار تک پہنچے تو خواجہ آصف "حساب چکانے "کے لئے ضرورت سے زیادہ بے باک ہوجاتے ہیں۔ منگل کے دن بھی ایسا ہی ہوا۔ جوش خطابت میں کچھ ایسے فقرے ادا کر گئے جو آج کے دور میں"خواتین کا احترام" یقینی بنانے والے رویے کو کسی خاطر میں نہیں لائے۔ کاش وہ اپنے جذبات قابو میں رکھتے۔ سیاست کے اس بدنصیب طالب علم کے لئے مگر سب سے چونکا دینے والا خطاب پیپلز پارٹی کے دیرینہ وفادار رضا ربانی کی جانب سے ہوا۔
موصوف سینٹ کے دو بار چیئرمین رہے ہیں۔ قانون کے سنجیدہ طالب علم ہیں۔ آئین کی بالادستی کے لئے نوجوانی سے جدوجہد کررہے ہیں۔ اپنی سیاسی حیثیت کو کبھی ذاتی مفادات کے حصول کے لئے بھی استعمال نہیں کیا۔ جمہوری جدوجہد کی یہ روشن علامت پوائنٹ آف آرڈر کے ذریعے کھڑی ہوئی۔
انتہائی دْکھی دل سے اس خدشے کا اظہار کیا کہ منگل کے دن پارلیمان کے دونوں ایوانوں کا جو مشترکہ اجلاس طلب ہوا ہے اس کا اصل مقصد "چپکے سے" ایک ایسے قانون کو "بل ڈوز" کرنا ہے کہ جو الیکشن ایکٹ کی شق 230میں ترمیم کرتے ہوئے انتخابات کے انعقاد کے لئے قائم ہوئی "نگران حکومت" کے وزیر اعظم کو باقاعدہ طورپر منتخب ہوئے وزرائے اعظم کے برابر اختیار فراہم کردے گا۔ جس قانون پر "معزز" کہلائی پارلیمان کے اراکین سے انگوٹھے لگوانے کی تیاری ہورہی ہے اس کے بارے میں ایوان کی کسی بھی کمیٹی میں تفصیلی گفتگو اور بحث ومباحثہ نہیں ہوا۔ محض حکم کی صورت نازل ہوا ہے جس کی تعمیل لازمی ہے۔
رضا ربانی نے دل کے پھپھولے کھول دئیے تو جے یو آئی (ایف) کے سینیٹر کامران مرتضیٰ بھی کھڑے ہوگئے۔ یاد رہے کہ رواں مہینے کے آغاز میں موجودہ حکومت نے "انتخابی اصلاحات" کو یقینی بنانے کے لئے نئے قوانین متعارف کروانے کے لئے ایک کمیٹی تشکیل دی تھی۔ اس کمیٹی میں تمام سیاسی جماعتوں کے نمائندے شامل تھے۔ ابتداََ تحریک انصاف کے سینیٹر علی ظفر بھی اس کے چند اجلاسوں میں شریک ہوئے۔ بعدازاں ان کی جماعت نے قطع تعلق کا فیصلہ کرلیا۔ بہرحال جو کمیٹی تشکیل دی گئی تھی اس کے پانچ جولائی کے بعد سے پانچ اجلاس ہوئے ہیں۔
سینیٹر کامران مرتضیٰ اس کے ہر اجلاس میں شریک ہوئے۔ ایوان میں کھڑے ہوکر انہوں نے اصرار کیا کہ مذکورہ اجلاسوں کے دوران "ایک بار بھی" الیکشن ایکٹ کی شق 230میں ترمیم کا سوال نہیں اٹھایا گیا۔ انہوں نے بات مکمل کرلی تو ا یوان ہی میں موجود پیپلز پارٹی کے ایک اور دیانت دارانہ ساکھ کے حامل تاج حیدر صاحب بھی کھڑے ہوگئے۔ انہوں نے نہایت سادہ اور مختصر زبان میں سینیٹر کامران مرتضیٰ کے اس دعوے کو درست قرار دیا کہ نگران وزیر اعظم کے اختیارات بڑھانے والی تجویز "انتخابی اصلاحات" کے لئے قائم کمیٹی کے روبرو ایک دن بھی نہیں لائی گئی۔
سینیٹر کامران مرتضیٰ اور تاج حیدر صاحب کی معتبرگواہیوں کے بعد یہ بات تو طے ہوگئی کہ "نگران" وزیر اعظم کو "ڈنگ ٹپائو" وزیر اعظم کے بجائے باقاعدہ طورپر منتخب ہوئے "چیف ایگزیکٹو" بنانے والا فیصلہ "اوپر" سے آیا ہے۔ یہ "اوپر"ضروری نہیں ریاست کے وہ د ائمی ادارے ہوں جو 1950ء کی دہائی سے ہماری سیاست کو "سیدھی راہ" پر رکھنے کی کوششوں میں مبتلا رہے ہیں۔ اسلام آباد کے متحرک رپورٹروں کی اکثریت بلکہ یہ دعویٰ کررہی ہے کہ مجوزہ ترمیم کا حکم درحقیقت نواز شریف صاحب کی جانب سے آیا ہے۔
عملی سیاست کے تلخ وشیریں حقائق سے 1985ء سے آشنا اور تین بار اس ملک کے وزیر اعظم رہنے کی وجہ سے وہ جبلی طورپر محسوس کررہے ہیں کہ وفاقی کے علاوہ سندھ اور بلوچستان اسمبلیوں کی آئینی مدت ختم ہوجانے کے بعد 60یا 90دنوں میں انتخاب کا انعقاد ممکن نہیں۔ اسے مختلف وجوہات کی بنا پر اگلے برس کے فروری یا مارچ تک ٹالا جاسکتا ہے۔ اپنے خدشات کی بنا پر وہ نہیں چاہتے کہ کوئی "غیر سیاسی" شخص نگران وزیر اعظم کے لئے نامزد ہو۔ ان کی دانست میں اگر کوئی "بااصول سیاستدان" نگران وزیر اعظم نامزد ہوگیا تو وہ "جائز" وجوہات کی عدم موجودگی میں انتخابات ایک دن کے لئے موخر کرنے کو بھی آمادہ نہیں ہوگا۔
غالباََ اسی باعث چند ہی دن قبل ان کے کیمپ کی جانب سے اسحاق ڈار صاحب کا نام بھی بطور نگران وزیر اعظم مارکیٹ میں آیا تھا۔ انتخابات کے بروقت انعقاد کے علاوہ اہم ترین مسئلہ آئی ایم ایف کے ساتھ حال ہی میں ہوا معاہدہ ہے۔ اس کی تاہم ابھی تک پہلی قسط ہی ہمارے خزانے میں جمع ہوئی ہے۔ دوسری قسط کے حصول کے لئے لازمی ہے کہ آئی ایم ایف کو بجلی اور گیس وغیرہ کے نرخ بڑھانے کے لئے جو یقین دہانیاں کروائی گئی ہیں ان پر ہو بہوعمل درآمدہو۔ "ڈنگ ٹپائو" وزیر اعظم شاید افسر شاہی کی اس تناظر میں کڑی نگرانی کے قابل نہیں ہوتا۔
آئی ایم ایف کی بقیہ قسطوں کے حصول کے لئے لہٰذا نگران وزیر اعظم کے اختیارات بڑھانا لازمی تصور کیا گیا۔ بات مگر آئی ایم ایف کے ساتھ ہوئے معاہدے تک ہی محدود نہیں ہے۔ گزشتہ کئی مہینوں سے حکومت عسکری اداروں کی بھرپور معاونت کے ساتھ چند ایسے منصوبوں پر کام کررہی ہے جو عرب ممالک خاص طورپر متحدہ عرب امارات سے بھاری بھر کم سرمایہ کاری کی امید دلاتے ہیں۔ ان منصوبوں پر ہوم ورک تقریباََ مکمل ہوچکا ہے۔ فقط "ہاتھی کی دم" باقی رہ گئی ہے۔ سرمایہ کاری کی تیاریاں مکمل ہوجانے کے بعد اسے یقینی بنانے کے لئے بھی تاہم مزید معاہدوں کی ضرورت ہوگی۔
بے اختیار وزیر اعظم ایسے معاہدوں پر لیکن دستخط کے اختیار سے نگران حکومت کے دوران محروم ہوتا ہے۔ نئی سرمایہ کاری کے لئے لہٰذا ہمیں منتخب وزیر اعظم کا انتظار کرنا ہوگا جو رواں برس کے آغاز سے قبل فی ا لوقت مجھ جیسے لوگوں کو ممکن نظر نہیں آرہا۔ اسی باعث الیکشن ایکٹ کی شق 230میں ترمیم کی بات چلی ہے۔ نگران وزیر اعظم کو "بااختیار" بنانے کے لئے پاکستان کے موجودہ کٹھن حالات میں جو جواز فراہم کئے جارہے ہیں وہ میرے جھکی ذہن کو بھی عموماََ قابل قبول سنائی دئے۔
میں یہ بات سمجھنے سے البتہ قطعاََ قاصر ہوں کہ نگران وزیر اعظم کو ان ہی وجوہات کی بنیاد پر بااختیار بنانے کے لئے مسلم لیگ (نون) اور پیپلز پارٹی نے اپنی ہی جماعتوں کے اراکین قومی اسمبلی اور سینٹ کو اعتماد میں کیوں نہیں لیا۔ ان کی اکثریت منگل کے روز ایوان میں بیٹھی اتنی ہکا بکا کیوں نظر آئی۔