"بھرم برقرار" رکھنے والا فقرہ میں نے کئی بار لکھا اور دوسروں سے سنا ہے۔ اس فقرے کی مگر بہت ٹھوس حوالے سے اہمیت منگل کے دن سپریم کورٹ کے فل بنچ کی کارروائی براہ راست دیکھنے کی بدولت دریافت ہوئی ہے۔ یہ کارروائی دیکھتے ہوئے کئی بار دل میں یہ خواہش بھی ابھری کہ کاش عزت مآب چیف جسٹس صاحب ہماری اعلیٰ ترین عدالت کی کارروائی ٹیلی وژن سکرینوں پر براہ راست دکھانے کی روایت متعارف کروانے سے اجتناب اختیارکرتے۔
میرے اور آپ جیسے سادہ لوح نسلوں سے یہ فرض کئے ہوئے تھے کہ عزت مآب جج صاحبان کے ذاتی نظریات اور ترجیحات ہرگز نہیں ہوتیں۔ ان کے روبرو کوئی معاملہ رکھا جائے تو کھلے ذہن سے اس کی حمایت اور مخالفت میں پیش کئے دلائل کو کامل توجہ سے سنتے ہیں۔ دلائل مکمل ہوجائیں تو تنہائی میں بیٹھ کر اپنے روبرو پیش ہوئے دلائل کو محض آئین اور قانون کی کسوٹی پر پرکھتے ہوئے فیصلہ سنا دیتے ہیں۔ ٹی وی سکرینوں پر میسر براہ راست نشریات مذکورہ بالا تصور کو مسلسل خام خیالی ثابت کررہی ہیں۔ یہ حقیقت بلکہ کھل کر سامنے آگئی ہے کہ جس معاملے کا سپریم کورٹ کی فل کورٹ ان دنوں جائزہ لے رہی ہے اس کے بارے میں اعلیٰ ترین عدالت کے جج اپنی رائے بناچکے ہیں۔ انتہاؤں میں تقسیم ہوئی اس راہ کے ہوتے ہوئے درمیان والی راہ نکالنے کی گنجائش ہی نظر نہیں آرہی۔
منگل کے دن سپریم کورٹ کی براہ راست کارروائی دیکھتے ہوئے میں اکثر یہ سوچنے کو مجبور ہوا کہ اگر یہ کارروائی بند کمرے تک ہی محدود رہتی تو شاید اپنی رائے بناچکے چند عزت مآب جج وکلاءکی جانب سے اپنی رائے کے خلاف آئے دلائل سننے کے بعد اپنی سوچ سے رجوع کرنے کو آمادہ ہوجاتے۔ ٹی وی سکرینوں کی بدولت لیکن ہزا روں نہیں لاکھوں افراد اب دومختلف گروہوں میں تقسیم ہوئے ججوں کی سوچ سے بخوبی واقف ہوچکے ہیں۔ ان میں ایک گروہ اصرار کئے جارہا ہے کہ شہباز حکومت کے دوران چیف جسٹس صاحب کے اختیارات کو لگام ڈالنے کے لئے جو قانون بنایا گیا تھا وہ عدالت کی آزادی وخودمختاری میں مداخلت تھی۔
مذکورہ مداخلت کی وجوہات بھی اصولی نہیں بلکہ حکمران اتحاد کی سیاسی ترجیحات تھیں۔ عزت مآب ججوں کا دوسرا گروہ مگر دیانتدارانہ انکساری سے اعتراف کررہا ہے کہ ازخود اختیارات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ماضی کے چیف جسٹس شاہانہ مزاج کے ساتھ من مانی کرتے رہے۔ اپنی پسند کے عدالتی فیصلوں کے حصول کے لئے بتدریج "ہم خیال ججوں" پر مشتمل بنچ بنانے کی روایت قائم ہوئی۔ ایسے بنچوں کی بدولت جو فیصلے آئے انہوں نے اندھی نفرت وعقیدت میں تقسیم ہوئی سیاست میں ایک فریق کا ڈٹ کر ساتھ دیا۔
اس کی وجہ سے ہمارے ہاں سیاسی انتشار مزید گھمبیر ہونا شروع ہوگیا۔ معاملات کو مزید بگاڑ سے بچانے کے لئے لازمی ہے کہ چیف جسٹس کے اختیارات محدود کئے جائیں۔ وہ از خود کوئی معاملہ اٹھانے کے بجائے اپنے دوسینئر ترین ساتھی ججوں سے مشاورت کے بعد اس ضمن میں قدم اٹھائے۔ چیف جسٹس سمیت تین سینئر ترین ججوں پر مشتمل کمیٹی ہی بنچ سازی میں بھی کلیدی کردار ادا کرے تاکہ اعلیٰ عدالت کے روبرو آئے فریقین کو "انصاف ہوتا" نظر آئے۔
پاکستان کا عام اور بے اختیار شہری ہوتے ہوئے میں دو ٹکے کا رپورٹر یہ طے نہیں کرسکتا کہ مذکورہ بالا گروہوں میں سے کس گروہ کی سوچ درست ہے۔ جان کی امان پاتے ہوئے البتہ عرض کرنا چاہوں گا کہ افتخار چودھری صاحب نے نام نہاد عوامی تحریک کی بدولت چیف جسٹس کے منصب پر 2009ءمیں واپس لوٹ کر ازخود ایسے کئی اقدامات لئے جنہوں نے عوام کی منتخب کردہ پارلیمان کو کمزور سے کمزور تر بناتے ہوئے بالآخر اسے "چوروں اور لٹیروں" کی آماجگاہ ثابت کردیا۔
چودھری صاحب نے منتخب وزیر اعظم کو توہین عدالت کے نام پر فارغ کرنے کی روایت بھی متعارف کروائی۔ اس روایت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے 2017ءمیں ثاقب نثار کے سپریم کورٹ نے نہایت مکاری سے پاکستان کے تیسری بار منتخب ہوئے وزیر اعظم کو پانامہ پیپرز کی بنیاد پر "رسیدیں فراہم"کرنے کو گھیرلیا۔ نواز شریف کے مالی معاملات کی جانچ پڑتال کے لئے سپریم کورٹ نے ریاستی اداروں پر مشتمل ایک تفتیشی ٹیم بھی تشکیل دی۔ اس ٹیم میں عسکری اداروں کو بھی نما ئندگی دی گئی تھی۔
ہمارے تحریری آئین کے مطابق "چیف ایگزیکٹو" کہلاتا وزیر اعظم کئی دنوں تک ملزم کی صورت ایسے افسروں کے روبرو پیش ہوتا رہا جو اپنی کارکردگی کی بابت "چیف ایگزیکٹو" کو جوابدہ تھے۔ اپنے ماتحتوں کی کارکردگی پر نگاہ رکھنے کا حقدار ان کے روبرو گنہگاروں کی صورت پیش ہوتا رہا۔ بالآخر نواز شریف کو پانامہ نہیں بلکہ "اقامہ" کی وجہ سے کسی بھی عوامی عہد ے کے لئے تاحیات نااہل ٹھہرادیا گیا۔ بعدازاں سپریم کورٹ ہی کے ایک اور عزت مآب جج کی براہ راست نگرانی میں تفتیشی ٹیم کے جمع کئے مواد کی وجہ سے احتساب عدالتوں میں مقدمات چلے۔ میاں صاحب کو ان کی دختر سمیت ایک مقدمے میں سزا سناکر جیل بھیج دیا گیا۔ جیل سے مگر ان کو خرابی صحت کی بنیاد پر نکال کر پہلے ہسپتال اور بعدازاں لندن بھجوادیا گیا۔ مریم نواز صاحبہ کے خلاف سنائی سزا اس کے بعد "ناجائز" قرار پائی۔
افتخار چودھری اور ثاقب نثار کے سپریم کورٹ کے ہاتھوں منتخب افراد کی جو درگت بنی اس کی وجہ سے چیف جسٹس کے اختیارات کو لگام ڈالنے کی گنجائش پیدا ہوئی۔ اہم ترین پہلو یہ بھی ہے کہ سپریم کورٹ کے ہاتھوں براہ راست عوامی عہدوں کے لئے نااہل قرا رپایا فرد اپنے خلاف آئے فیصلے کے خلاف اپیل کے حق سے بھی محروم ہوجاتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف سنائی موت کی سزا کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا موقعہ میسر رہا۔ عمران خان بھی اگر ٹرائل کورٹ کے ہاتھوں سائفر وغیرہ کے تحت چلائے مقدمات کی وجہ سے انتخاب میں حصہ لینے کے نااہل ٹھہرادئیے گئے تو ایک نہیں بلکہ دو عدالتوں یعنی ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ سے ریلیف کی توقع رکھ سکتے ہیں۔
ماضی میں چیف جسٹس کے شاہانہ اختیارات کی بدولت جو انصافیاں دیکھنے کو ملیں ان کا تفصیلی تذکرہ شاذہی ٹی وی سکرینوں پر براہ راست دکھائی کارروائی کے دوران سننے کو ملا۔ تمام تر بحث اس نکتے تک محدود ہوچکی ہے کہ پارلیمان آئینی ترمیم کے بجائے سادہ قانون کے ذریعے سپریم کورٹ کے "انتظامی معاملات" میں مداخلت کرسکتی ہے یا نہیں۔ اس سوال کے بارے میں گروہوں میں بٹے عزت مآب جج واضح طورپر اپنی رائے بناچکے نظر آرہے ہیں۔ ان کے روبرو کھڑا وکیل ان کے ذہن میں موجود رائے کو تقویت دیتا سنائی نہ دے تو اسے تواتر سے سوالات اٹھاکر ہلکان کردیتے ہیں۔ بسااوقات ان کی رائے کی حمایت کرنے والے وکیل کو "سوال" کے ذریعے "دلیل" بھی فراہم کردی جاتی ہے۔
بات فقط وکلاءکو لقمے دینے یا انہیں تھکادینے تک ہی محدود رہتی تو شاید میں حیران وپریشان نہ ہوتا۔ منگل کے روز بنچ پر بیٹھے ایک عزت مآب جج چیف جسٹس صاحب سے "نوک جھونک" کرتے بھی دکھائی دئے جس نے ہماری اعلیٰ ترین عدالت میں پائی جانے والے تقسیم کو خلق خدا کے سامنے مزید عیاں کردیا ہے۔ یہ سب دیکھتے ہوئے کئی بار سوچا کہ کاش چیف جسٹس صاحب فل بنچ کی کارروائی براہ راست دکھانے کا قدم نہ اٹھاتے۔ "بھرم" یوں مزید کئی برسوں تک برقرار رہ سکتا تھا۔