سابق وزیر اعظم کے دور اقتدار میں بہت ہی بااختیار رہے اعظم خان کے "اعترافی بیان" نے چند دنوں سے میڈیا میں تھرتھلی مچارکھی ہے۔ موصوف کے بیان کا جو حصہ ہمارے سامنے لایا گیا وہ اس امر کی واضح الفاظ میں تصدیق کرتا ہے کہ چیئرمین تحریک انصاف نے ابتداءمیں اپنی حکومت کے خلاف "رجیم چینج" کی داستان پھیلانے کے لئے امریکی حکومت کی جانب سے مبینہ طورپر ملے جس دھمکی آمیز پیغام کو بنیاد بنایا تھا وہ حقیقتاََ آیا ہی نہیں تھا۔
سابق وزیر اعظم یوکرین پر روس کے حملہ آور ہونے سے عین ایک دن قبل صدر پوٹن سے ملنے ماسکو تشریف لے گئے تھے۔ واشنگٹن کی اس بارے میں خفگی اور اضطراب بآسانی سمجھا جاسکتا ہے۔ 1962ءکے بعد سے 1970ءتک امریکی سفارت کار پاکستان کے چین سے بڑھتے تعلقات کے بارے میں تسلسل سے خفگی کا اظہار کرتے رہے۔ بالآخر مگر نکسن حکومت کو ما?زے تنگ کے ملک سے رسم وراہ بڑھانے کے لئے اپنے مشیر قومی سلامتی ہنری کسنجر کو اسلام آباد ہی کے ذریعے بیجنگ بھیجنا پڑا تھا۔
ایران عراق جنگ کے دوران بھی امریکہ ہی نہیں، ہمارے کئی برادر ممالک بھی ہماری "غیر جانب داری" سے ناخوش تھے۔ اس کا اظہار بھی واضح یا اشاروں کنایوں میں ہوتا رہا۔ قصہ مختصر چند معاملات پر خفگی کا اظہار سفارت کاری کا معمول ہے۔ اس کی اطلاع دینے والے پاکستانی سفیر کی جانب سے بھیجے "سائفر" کوسازشی تھیوری کی بنیاد بنانا ہر حوالے سے غیر دانش مندانہ فعل ہے۔
یہ لکھ دینے کے بعد مگر کھلے دل سے یہ حقیقت بھی تسلیم کرنا ہوگی کہ عمران خان کے حامیوں نے ان کی سنائی داستان کو انتہائی سنجیدگی سے لیا۔ 1970کی دہائی سے ہمار ے عوام کی اکثریت امریکہ کے رویے کی شاکی رہی ہے۔ ہمارے حکمران مگر اس کے باوجود اس ملک کے ساتھ مل کر افغانستان کا سیزن لگاتے رہے۔ ہمارے گلی محلوں میں امریکہ مخالف جذبات کو یہ حکمران بلکہ امریکہ سے مزید مراعات لینے کیلئے استعمال کرتے رہے ہیں۔
عمران خان نے پاکستانیوں کے دلوں میں گزشتہ کئی دہائیوں سے امریکہ کے مخالف ابھرتے جذبات کو سائفر کہانی کے ذریعے ابلنے کی راہ دکھائی۔ رجیم چینج، ایبسولیوٹلی ناٹ جیسے انگریزی الفاظ ہماری روزمرہّ زبان کا حصہ بن گئے۔ عمران حکومت کی جگہ آئی حکومت کو "امپورٹڈ حکومت" پکارتے ہوئے تحریک انصا ف کے حامیوں نے "حقیقی آزادی" کی جنگ کا آغاز کردیا۔ شہباز حکومت کے وہ نابغے جو خود کو امور ابلاغ کے حتمی ماہر تصور کرتے ہیں اس ضمن میں قطعاََ بے بس نظر آئے۔ حتیٰ کہ ہمارے طاقت ور ترین ریاستی ادارے کے سربراہ ہوتے ہوئے بھی قمر جاوید باجوہ "میر جعفر" کہلائے جانے کے باوجود صدر مملکت کے ذریعے عمران خان سے ہوئی ملاقاتوں میں ان کا غصہ ٹھنڈا کرنے کی کاوشوں میں مصروف رہے۔
"سائفر کہانی" نے کھڑکی توڑ رش لینا شروع کیا تو عمران خان کے مشیروں کو ادراک ہوا کہ اس کہانی کا مزید اچھلنا تحریک انصاف کے طویل المدت مفاد کے لئے نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔ امریکہ میں مقیم خوش حال اور اپنے اپنے شعبوں میں قابل تقلید حد تک انتہائی کامیاب تصور ہوتے پاکستانیوں کی اکثریت عمران خان صاحب کی دیوانی ہے۔ انہیں یہ خدشہ لاحق ہوگیا کہ سائفر کہانی کو مزید اچھالا گیا تو ان کے لئے تحریک انصاف کی حمایت میں امریکہ کی کانگریس اور بااثر سینٹ کے نمائندوں کو متحرک کرنا دشوار ہوجائے گا۔ اس کے علاوہ ان کی جانب سے "امریکہ دشمنی کا بیانیہ پھیلاتی" تحریک انصاف کے لئے بھیجے چندہ وغیرہ بھی پابندیوں کی زد میں آسکتے ہیں۔ خان صاحب نے ان کے خدشات کو سنجیدگی سے لیا۔ ابن رافیل اور زلمے خلیل زاد سے روابط بڑھائے اور انگریزی محاورے والے "ڈیمج کنٹرول(Damage Control)" میں مصروف ہوگئے۔
مجھے شبہ ہے کہ ان کی کاوشیں ابھی تک بارآور ثابت نہیں ہوئیں۔ عجب اتفاق ہے کہ اعظم خان کے اعترافی بیان کے منظر عام پر آنے سے محض 48گھنٹے قبل امریکی محکمہ خارجہ میں پاکستان ڈیسک کی انچارج نے ٹیکساس کے شہر ہوسٹن میں ہوئی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سائفر کہانی کو رعونت بھرے الفاظ سے رد کردیا۔ ڈان اخبار میں اپنے پرانے رفیق انور اقبال کی جانب سے مذکورہ تقریر کی بابت کہانی پڑھتے ہوئے میں سوچنے کو مجبور ہوا کہ تقریباََ 15مہینے گزرجانے کے باوجود امریکہ میں پاکستانی ڈیسک کی انچارچ نے "سائفر کہانی" کو ایک بار پھر جھوٹا ٹھہرانے کی ضرورت کیو ں محسوس کی۔ ابھی اس سوال کا جواب ڈھونڈ ہی نہیں پایا تھا کہ اعظم خان کا "تائیدی" یا "اعترافی" بیان بھی منظر عام پر آگیا۔
سیاسی مبصرین کی اکثریت کو گماں ہے کہ سائفر سے متعلق اعظم خان کا دیا بیان عمران خان صاحب کے لئے سنگین قانونی مشکلات کا باعث ہوسکتا ہے۔ اس امکان کی بابت قیاس آرائی سے گریز کو البتہ میں ترجیح دوں گا۔ میری دانست میں اگرچہ اس ضمن میں ایک اہم ترین پہلو کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ کہا جاتا ہے کہ "سائفر" کو ڈی کوڈ کرنے کے بعد جو دستاویز تیار ہوئی تھی اس کی ایک کاپی عمران خان نے اپنے پاس رکھ لی تھی۔ ایک ٹی وی انٹرویو میں انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ مذکورہ کاپی ان سے "گم " ہوگئی ہے۔
سائفر جیسی حساس دستاویز کا یوں"گم" ہوجانا ریاست "لاپرواہی" شمار نہیں کرتی۔ قومی سلامتی کے محافظوں کی نظر میں ایسی گمشدگی بلکہ "جرم" شمار ہوتی ہے۔ سابق امریکی صدر ٹرمپ چند حساس دستاویزات کی "گم شدگی" کے بارے میں لاعلمی کا اظہار کرتا رہا۔ کڑی نگرانی کے بعد بالآخر وہاں کی ایف بی آئی نے اس کے فلوریڈا والے گھر سے "لاپتہ" ہوئی دستاویزات برآمد کرلی تھیں۔ مذکورہ "برآمدگی" کے بعدٹرمپ کے خلاف مقدمہ تیار ہورہا ہے جو سنگین سزا کا موجب بھی ہوسکتا ہے۔
عمران خان کے علاوہ میں ان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی صاحب کو بھی اعظم خان کے بیان کے بعد مشکل میں گھرادیکھ رہا ہوں۔ انہیں ایف آئی اے نے طلب کررکھا ہے۔ یہ کالم چھپنے تک امکان ہے کہ وہ اس ضمن میں پیشی بھگت چکے ہوں گے۔ دیکھنا ہوگا کہ وہ سائفر کے بارے میں اب کیا رویہ اختیار کریں گے۔ ان کی پہلی پیشی اور اس کے دوران دئے بیان کی تفصیلات کی بابت مصدقہ ذرائع سے کوئی خبر ملنے کے بعد ہی مزید تبصرہ آرائی کی گنجائش پیدا ہوگی۔