"کوئی تو ہے" جو نہایت ہوشیاری سے ہمارے میڈیا کی تمام تر توجہ اہم موضوع سے ہٹاکر اصولی طورپر فروعی معاملہ کی جانب موڑ دیتا ہے۔ بدھ کا تمام دن بھی ایسے ہی ایک سوال کا جواب "طے" کرنے کی نذر ہوگیا۔ جولائی 2018ءکے انتخابات کی بدولت وجود میں آئی قومی اسمبلی کا یہ آخری دن تھا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ نہایت سنجیدگی سے یہ جاننے کی کوشش ہوتی کہ اس برس میں ہوئے انتخابات کی بدولت "عمران پراجیکٹ" نامی کسی منصوبے کو ہر صورت ہمارے سروں پر سوار کرنا مطلوب تھایا نہیں۔
اس سوال کا جواب اگر چند طاقتور اور مبینہ" منصوبہ سازوں" کی طبع نازک پرگراں محسوس ہونا تھا تو احترام کا عادی ہوا میڈیا کم از کم اس موضوع کو یقینا زیر بحث لاسکتا تھا کہ 1985ءسے وقتاََ فوقتاََ رونما ہونے والی پارلیمانوں کی نسبت اگست 2018ءسے رواں برس کی 9اگست تک کام کرنے والی قومی اسمبلی کس "معیار" کی حامل تھی۔ صحافتی دن کا آغاز ہوتے ہی مگر "خبر" یہ پھیلنا شروع ہوگئی کہ جلیل عباس جیلانی نگران وزیر اعظم کا "چارج" سنبھالنے کےلئے تیار ہورہے ہیں۔
ملتان کے ایک نامور خاندان سے تعلق رکھنے والے جلیل عباس وزارت خارجہ کے سیکرٹری رہنے کے علاوہ امریکہ میں ہمارے سفیر بھی رہے ہیں۔ اپنے کیریئر کا اہم ترین وقت انہوں نے بھارت میں بھی صرف کیا ہے۔ نہایت دھیمے مزاج کے نصابی اعتبار سے اپنے جذبات پر کامل کنٹرول رکھنے والے سفارت کار ہیں جو دیگر ممالک کی حکومتوں کے پاکستان کے بارے میں ارادوں کے نہایت لگن سے کھوج لگانے کے عادی ہیں۔ اپنے طویل کیریئر کے کسی بھی مرحلے میں وہ کسی جھوٹے سچے تنازعہ یا سکینڈل کی زد میں بھی نہیں آئے۔
آج سے کچھ روز قبل مجھ ریٹائر ہوئے رپورٹر تک بھی یہ خبر پہنچ گئی تھی کہ نگران حکومت کی تشکیل دینے کے اہل ریاستی نمائندوں نے ان سے بھی رابطہ کیا ہے۔ مجھے گماں تھا کہ مذکورہ رابطے کا اصل مقصد انہیں وزارت خارجہ کا منصب سنبھالنے کے لئے آمادہ کرنا ہوگا۔ گزرے اتوار کی سہ پہر تاہم ایک باخبردوست سے سرِراہ اتفاقاََ ملاقات ہوگئی۔ ہم دونوں اپنے خاندان کے ہمراہ بازا ر میں روزمرہّ ضرورت کی اشیاءخریدنے آئے تھے۔
ہمارے خاندان "اپنے کام" میں مصروف ہوگئے تو ہم بازار کے ایک نسبتاََ خاموش کونے میں کھڑے ہوکر گپ شپ لگانے لگے۔ اس دوران "باخبر دوست" نے اطلاع دی کہ محض پیپلز پارٹی ہی نہیں بلکہ مسلم لیگ (نون) کے سرکردہ رہنماؤں کی اکثریت بھی ڈاکٹر حفیظ شیخ کو نگران وزیر اعظم کا عہدہ سونپنا نہیں چاہتی۔ ان کی دانست میں جیکب آباد سے ابھرے آئی ایم ایف کے اس مبینہ چہیتے نے جب بھی وزارت خزانہ کا منصب سنبھالا تو عوام کی مشکلات میں اضافہ ہی ہوا۔
ذاتی رویہ بھی ان کا روایتی سیاستدانوں کے ساتھ "دوستانہ" نہیں۔ وہ انہیں"جاہل اور اجڈ" شمار کرتے ہوئے اپنی قربت کے قابل ہی تصور نہیں کرتے۔ ان کے اس رویے کی بدولت ہی مارچ 2021ءمیں تحریک انصاف کی صفوں میں موجود چند اراکین قومی اسمبلی نے ان دنوں کی اپوزیشن جماعتوں سے رابطوں کے بعد خفیہ رائے شماری کی سہولت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ڈاکٹر حفیظ شیخ کو عمران حکومت کی خواہش کے برعکس سینٹ کا رکن منتخب ہونے نہیں دیا تھا۔ ان کے بجائے پیپلز پارٹی کے نامزد کردہ سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی سنسنی خیز انداز میں کامیاب ہوگئے تھے۔
میرے دوست مصر تھے کہ "حالیہ تاریخ" کے تناظر میں ڈاکٹر حفیظ شیخ کی بطور نگران وزیر اعظم تعیناتی درحقیقت سیاستدانوں کی اجتماعی ساکھ کے لئے ایک طمانچے کی مانند ہوسکتی ہے۔ آج سے دو برس قبل "عوام کے براہ راست ووٹوں" سے منتخب ہوئی قومی اسمبلی سے "مسترد" ہوئے حفیظ شیخ کی تعیناتی درحقیقت یہ پیغام دے گی کہ عوام کے نام نہاد ووٹوں کی ہمارے ہاں کوئی وقعت نہیں۔ پاکستان جیسے ممالک میں بالآخر وہی افراد کامیاب وکامران ہوتے ہیں جو عوام کی شفقت کے بجائے آئی ایم ایف جیسے عالمی اداروں کی سرپرستی میں آگے بڑھتے ہیں۔
اپنے دوست کی گفتگو سنتے ہوئے میں پھکڑپن میں مصروف ہوگیا۔ کج بحثی کا سہارا لیتے ہوئے بلکہ اس تمنا کا اظہار کرتا رہا کہ ہمارے "نکمّے" سیاستدان ڈاکٹر حفیظ شیخ کی بطور نگران وزیر اعظم تعیناتی جیسے "جھٹکوں" کے مستحق ہیں۔ مجھ سے کج بحثی میں تاہم مہربان دوست نے الجھنے سے گریز کیا۔ محض یہ کہتے ہوئے اپنی گاڑی کی جانب بڑھ گئے کہ ان کی دانست میں ڈاکٹر حفیظ شیخ پر اٹھے اعتراضات کے بعد جلیل عباس جیلانی بطور "ڈارک ہارس" نگران وزیر اعظم تعینات ہوسکتے ہیں۔ بدھ کی سہ پہر سے تاہم ان کی بتائی "خبر" حقیقت بنتی محسوس ہونا شروع ہوگئی۔ تقریباََ تمام ٹی وی سکرینوں پر بینڈ باجے اور بارات والی گج وج کے ساتھ ان کی "تعیناتی" کا ذکرشروع ہوگیا۔ رات گئے تک مگر ان کی تعیناتی کی حتمی تصدیق فراہم نہیں ہوئی تھی۔ معاملہ بلکہ کہیں"اٹکا" ہوا محسوس ہوا۔
بدھ کا دن مگر گزر گیا ہے اور جولائی 2018ءکے انتخابات کی بدولت قائم ہوئی قومی اسمبلی کی پانچ سالہ کارکردگی ہم ٹی وی سکرینوں پر کماحقہ اندازمیں زیر بحث لانے میں ناکام رہے۔ اس کالم کے باقاعدہ قاری اب یہ پڑھتے ہوئے اکتاچکے ہوں گے کہ میں 1985ءسے قائم ہوئی ہر پارلیمان کے اجلاسوں کے براہِ راست مشاہدے کے بعد "پریس گیلری" والے کالم لکھتا رہا ہوں۔
گزشتہ چھ مہینوں سے مگر چند طبی وجوہات کی بنیاد پر پارلیمان ہاؤس جانا دشوار ہوگیا ہے۔ طبی مجبوری کے علاوہ حقیقت یہ بھی ہے کہ اگست 2018ءمیں وجود میں آئی پارلیمان نے تسلسل سے اپنی "بالادستی" ریاست کے دیگر اداروں کے روبرو "سرنڈر" کردی ہے۔ عمران حکومت سے جاری ہوئے اس عمل کو روکنے میں 13جماعتوں کے اتحاد پر مبنی شہباز حکومت نے بھی روکنے کی کوشش نہیں کی۔ اپنے اختتامی ہفتوں میں بلکہ اس حکومت نے "تھوک کے حساب" سے ایسے قوانین پاس کئے ہیں جو آنے والے کئی دنوں تک "جمہوری نظام" کو وطن عزیز میں محض جھانسے اور واہمے کی صورت زندہ رکھیں گے۔
جمہوریت کو کمزور تر بنانے کیلئے "ہمارے" نام نہاد "منتخب نمائندوں" نے ریاست کے غیر منتخب اداروں کو اپنے ہاتھوں جو اختیار برضاورغبت فراہم کئے ہیں ان کا اطلاق ان ہی کے خلاف ہوا تو وہ اس کے خلاف"احتجاج "کی اخلاقی قوت سے بھی سراسر محروم رہیں گے۔ ایسی "خودکش" پارلیمان میں نے اپنے طویل صحافتی کیریئر میں ہرگز نہیں دیکھی تھی۔