گزشتہ چند دنوں سے ایک فلمی گیت میں بیان ہوئی "یہ تو وہی جگہ ہے گزرے تھے ہم جہاں سے" والی کیفیت دل ودماغ کو گھیرے میں لئے ہوئے ہے۔ آئی ایم ایف سے معاہدہ ہوجانے کے بعد وزیر اعظم شہباز شریف مسلسل اعلان کئے چلے جارہے ہیں کہ وہ اگست میں قومی اسمبلی کی تحلیل کے لئے تیار ہیں۔
"آئینی مدت" ہر صورت مکمل کرنے کے بجائے اگرچہ وہ ایوان کو دس اگست تک تحلیل ہوا دیکھنا چاہیں گے۔ اس خواہش کا اشاروں کنایوں میں اظہار وا ضح پیغام دے رہا ہے کہ وہ انتخابی مہم کے لئے نوے دنوں کے طلب گار ہیں۔ انہیں یہ گمان ہے کہ متوقع دن ان کے مہنگائی کے عذاب سے بیزار ہوئے حامیوں کے دلوں میں نرمی لاسکتے ہیں۔ دریں اثناءایسی قانونی راہیں بھی نکل سکتی ہیں جو نواز شریف کی پاکستان آمد اور ان کی جانب سے پاکستان مسلم لیگ (نون) کی انتخابی مہم کی قیادت کو ممکن بناسکیں۔
حکمران اتحاد کی دوسری بڑی جماعت یعنی پاکستان پیپلز پارٹی بھی انتخاب سے فرار کا تاثر دینا نہیں چاہ رہی۔ یاد رہے کہ قومی اسمبلی تحلیل کرنے کے لئے اسی جماعت کے سید نوید قمر نے 8اگست کا ذکر کیا تھا۔ نوید قمر 1990کی دہائی سے مسلسل پیپلز پارٹی کی ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے لئے منتخب ہوئے چلے آرہے ہیں۔ خود کو میڈیا میں نمایاں رکھنے کی ہوس سے آزاد ہیں۔ اسی باعث بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ آئین اورپارلیمانی قواعد وضوابط کے تقاضوں کو وہ قابل رشک حد تک جانتے ہیں۔ 8اگست کا دن انہوں نے واضح طورپر اس لئے تجویز کیا کیونکہ ایوان صدر میں ان دنوں عارف علوی براجمان ہیں۔
آئین انہیں قومی اسمبلی کی تحلیل کے لئے وزیر اعظم کی جانب سے آئی ایڈوائس پر 48گھنٹے سوچنے کی مہلت دیتا ہے۔ علوی صاحب کی تحریک انصاف سے محبت کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہم باور کرسکتے ہیں کہ وہ آئندہ انتخابات 90نہیں بلکہ 60دنوں کے اندر دیکھنا چاہیں گے۔ 8اگست کو بھجوائی ایڈوائس تاہم اس ضمن میں انہیں بے بس بنادے گی۔ انہوں نے اس پر منظوری کے دستخط نہ بھی کئے تب بھی قومی اسمبلی 11اگست کی صبح از خود تحلیل ہوجائے گی اور یوں انتخابی مہم چلانے کے لئے موجودہ حکومت میں شامل جماعتوں کو 90دن مل جائیں گے۔
سوال مگر یہ اٹھ کھڑا ہوا ہے کہ آئندہ انتخابات 90دنوں کے دوران بھی ہوپائیں گے یا نہیں۔ یوٹیوب چینلوں کے ذریعے لوگوں کی ذہن سازی کا فریضہ سرانجام دینے والے میرے نوجوان ساتھیوں کی اکثریت اس تناظر میں شکوک وشبہات شدومد سے اچھال رہی ہے۔ سازشی کہانیوں کو جنم دینے والے اسلام آبا د کے ڈرائنگ روموں میں سجی محفلیں بھی آئندہ نوے دنوں میں انتخاب ہوتے نہیں دیکھ رہیں۔ حکومت سے ریٹائر ہوئے چند سینئر افسروں کا ایک تگڑا گروپ بھی شدت سے اصرار کئے جارہا ہے کہ آئندہ انتخابات رواں برس کے اکتوبر یا نومبر کے بجائے آئندہ برس کے مارچ میں ہوں گے۔
اس دعویٰ کی بابت سوال اٹھائیں تو شفقت سے سمجھایا جاتا ہے کہ ریاست پاکستان کی اولین ترجیح ان دنوں ملک کو دیوالیہ سے بچانے کے بعد معاشی استحکام کی جانب بڑھانا ہے۔ انتخابات کے انعقاد میں الجھی نوے دنوں کی حکومت اس ہدف پر توجہ مرکوز نہیں رکھ پائے گی۔ اسی باعث بہتر یہی ہوگا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ ہوئے معاہدے پر مارچ کے اختتام تک کامل عمل درآمد یقینی بنانے کے لئے ٹیکنوکریٹس پر مبنی حکومت بنالی جائے اور اسے مارچ 2024تک چلانے کے راستے ڈھونڈنے پر توجہ دی جائے۔
فی الوقت میں اس بحث میں الجھنا نہیں چاہتا کہ آئندہ انتخابات اگلے برس کے مارچ تک ٹالنا ممکن ہے یا نہیں۔ آپ سے اس کیفیت کا احوال بیان کرنا ہے جو "گزرے تھے ہم جہاں سے" پر مبنی ہے۔ اس کیفیت سے گزرتے ہوئے 1993کے ہیجانی دن یاد آگئے۔ اس برس کے اپریل میں صدر غلام اسحاق خان نے نواز شریف کی پہلی حکومت کو برطرف کردیا تھا۔ ان کا اقدام مگر جسٹس نسیم حسن شاہ کی سپریم کورٹ میں چیلنج ہوا تو عدلیہ نواز حکومت کو روزانہ کی بنیاد پر ہوئی سماعت کے ذریعے بحال کرنے کو ڈٹی نظر آئی۔ بالآخر وہ حکومت بحال کردی گئی۔
قرار تاہم اسے نصیب نہ ہوا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے اسے ہٹانے کے لئے لاہور سے اسلام آباد تک لانگ مارچ کا ا علان کردیا۔ لانگ مارچ کی تاریخ سے ایک یادو روز قبل ہی ان دنوں کے آرمی چیف عبدالوحید کاکڑ نے ہیلی کاپٹر بھیج کر محترمہ کو مذاکرات کے لئے مدعو کرلیا۔ بالآخر ایک "کاکڑ" فارمولاتشکیل پایا۔ صدر غلام اسحاق خان اور وزیر اعظم نواز شریف اپنے عہدوں سے مستعفی ہوگئے۔ قومی اور صوبائی اسمبلیاں تحلیل کردی گئیں اور نئے انتخاب کی تیاریاں شروع ہوگئیں۔
نگران حکومت کی قیادت کے لئے واشنگٹن سے معین قریشی صاحب کو ہنگامی حالات میں بلایا گیا۔ ان کی حیران کن آمد نے صحافیوں کی اکثریت کو یہ طے کرنے کو اُکسایا کہ نئے انتخابات کسی نہ کسی بہانے موخر کردئیے جائیں گے۔ معین قریشی جیسے ماہر معیشت کی نگرانی میں بھرپور توجہ معاشی استحکام کی جانب مبذول کردی جائے گی۔ میں اکثر اس ضمن میں شک وشبے کا اظہار کرتے ہوئے دوستوں کے طنزیہ فقروں کی زد میں رہتا تھا۔ انتخاب مگر اس وقت ہی ہوئے جب ان کی توقع تھی اور محترمہ بے نظیر بھٹو وزارت عظمیٰ کے منصب پر لوٹ آئیں۔
صدر لغاری نے 1996میں محترمہ کی دوسری حکومت برطرف کردینے کے بعد "احتساب" کے لئے جو ٹیم تشکیل دی اس کے ہوتے ہوئے ہم صحافیوں کی اکثریت ایک بار پھر یہ طے کرنے کو مائل ہوئی کہ انتخابات بروقت نہیں ہوں گے۔ انہیں پہلے "احتساب پھر انتخاب" کے بہانے موخر کردیا جائے گا۔ اس منصوبے کو امریکہ کے لئے قابل قبول بنانے کیلئے لغاری صاحب کے لگائے وزیر خارجہ صاحبزادہ یعقوب علی خان مرحوم مگر ابھی واشنگٹن کی جانب پرواز کررہے تھے تو امریکی وزارت خارجہ سے ایک تگڑا بیان آگیا۔ اس میں واضح طورپر تقاضہ ہوا کہ آئندہ انتخابات پاکستان کے آئین کے مطابق بروقت کروائے جائیں۔
انتخاب ملتوی کرنے کے منصوبے لہٰذا دھرے رہ گئے۔ بروقت انتخاب کی بدولت نواز شریف "ہیوی مینڈیٹ" کے ساتھ ایک بار پھر ہمارے وزیر اعظم منتخب ہوگئے۔ اس کے بعد جو ہوا وہ تاریخ ہے۔ دیکھتے ہیں اب کی بار بالآخر کیا سامنے آئے گا۔