بارہا اس کالم میں یاد دلاتا رہتا ہوں کہ پاکستان کے غریب اور سفید پوش طبقات کا دیوالیہ، تو عرصہ ہوا ہوچکا ہے۔ گزشتہ ایک برس سے سوال فقط اتنا تھا کہ ریاستِ پاکستان بھی اس سے محفوظ رہ پائے گی یا نہیں۔ جناتی انگریزی میں ہمیں ملکی معیشت کی بابت آگاہ رکھنے والے مسلسل دہائی مچاتے رہے کہ ریاست کو دیوالیہ سے بچانے کے لیے آئی ایم ایف کی ہر بات سرجھکا کر مان لیں۔ مفتاح اسماعیل نے تاہم موجودہ حکومت کے قیام کے بعد اس جانب قدم بڑھائے تو عوام کی اکثریت بلبلااٹھی۔ بجلی، گیس اور پٹرول کے نرخوں میں ناقابل برداشت اضافے نے تنخواہ دار اور دیہاڑی پر گزارہ کرنے والوں کی کمر توڑ دی۔
ان کی تسلی کے لیے مفتاح کو قربانی کے بکرے کی صورت فارغ کرنا پڑا۔ ان کی جگہ اسحاق ڈار آئے۔ شہرت ان کی ڈالرشکن، کی صورت کئی برس قبل ہی ثابت ہوچکی تھی۔ اب کی بار مگر چھٹے اسیر تو بدلا ہوا زمانہ تھا،۔ کافی اڑی دکھانے کے بعد بالآخر ان کو بھی سرجھکانا ہی پڑا ہے۔ ہفتے کی سہ پہر قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے ڈار صاحب نے درحقیقت ایک نیا بجٹ متعارف کروایا ہے جو کئی اعتبار سے ان تجاویز سے کامل ہٹ کر ہے جو انھوں نے ر واں مہینے کی 9تاریخ کو پیش کی تھیں۔ سوال اگرچہ یہ بھی اٹھتا ہے کہ موصوف اس کے سوا اور کر بھی کیا سکتے تھے۔
مجھ جیسے قلم گھسیٹ ان دنوں آپ کو خبر، دینے کے لیے کالم نہیں لکھتے۔ دنیاوی مقصد ہماری یاوہ گوئی کا اخبار میں چھپے کالم کے سوشل میڈیا پر پوسٹ ہوجانے کے بعد زیادہ سے زیادہ شیئرز اور لائیکس کا حصول ہوتا ہے۔ مذکورہ خواہش کو ترجیح دوں تو آج کے کالم میں وزیر خزانہ سے براہ راست مخاطب ہوتے ہوئے پوچھنا چاہیے کہ صاحب، آپ کی لگائی بڑھکوں کا کیا ہوا۔ طبیعت مگر اس جانب مائل نہیں ہورہی۔ ہفتے کی سہ پہر ان کی تقریر سنتے ہوئے مجھے بلکہ ترس آیا۔ حالات کے جبر کے آگے جھکے شخص سے چھیڑچھاڑ میری دانست میں سفاکی ہے۔ اسے بھلے وقتوں کے لیے بچالیتے ہیں۔
فی الوقت یہ حقیقت نہایت خلوص سے تسلیم کرنا ہوگی کہ 1950ءکی دہائی کاآغاز ہوتے ہی ہماری ریاست نے پاکستان کی جغرافیائی اہمیت، کو اپنی معیشت کی کلید بنالیا تھا۔ دنیا ان دنوں کمیونسٹ اور سرمایہ دارانہ خیموں میں تقسیم تھی۔ ہم نے امریکا اور اس کے اتحادیوں کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ جن کا ساتھ دیا تھا وہ ہمارے جغرافیے، اور انسانی وسائل سوویت یونین کو دیوار سے لگانے کے لیے استعمال کرنا چاہتے تھے۔
اس کے عوض امداد، اور سستی شرائط پر قرض مہیا ہونے کی علت بتدریج ہماری جبلت کا حصہ بن گئی۔ بالآخر 1990ءکی دہائی میں سوویت یونین ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا۔ اسے وہاں تک پہنچانے کی سعادت جنرل ضیاءالحق کو نصیب ہوئی۔ افغان جہاد، بھڑکائے رکھنے کو جمہوری دنیا، ان کے کئی برسوں تک صدقے واری جاتی رہی۔ روسی افواج مگر افغانستان سے رخصت ہوگئیں تو جنرل ضیاءکو احساس ہوا کہ کوئلے، کی دلالی میں ہمارے حصے کالک ہی آئی ہے۔ اس دکھ سے نجات ڈھونڈ نہ پائے تھے کہ 1988ءمیں فضائی حادثے کی نذر ہوگئے۔
ان کے بعد آئی حکومتوں کو نئی پالیسیاں متعارف کروانا تو دور کی بات ہے ان کی بابت غور کی مہلت بھی نہ ملی۔ حکومت سے باہر بیٹھی جماعتیں ایک طاقتور صدر اورریاست کے دیگر اداروں کی سرپرستی میں حکمران جماعت کی زندگی اجیرن بناتی رہیں۔ ایک دوسرے پر کرپشن کے سنسنی خیز الزامات لگاتے ہوئے خلقِ خدا کی نگاہ میں تمام سیاستدانوں نے خود کو نااہل اور بدعنوان ثابت کردیا۔ اقتدار میں باریاں، لینے کا تاثر ہمارے دلوں میں جم گیا تو اکتوبر 1999ءہوگیا۔
جنرل مشرف کی صورت اس مہینے ایک اور دیدہ ور، نمودار ہوا۔ ہماری معیشت کے لیے نئی راہیں تلاش کرنے کے لیے انھوں نے عالمی سطح پر مشہورہوئے بینکار شوکت عزیز کی فراست سے رجوع کیا۔ کرپٹ، سیاستدانوں کو احتساب کے حوالے کرکے امید باندھی کہ وہ کھمبوں سے الٹکا لٹکے اپنی چھپی ہوئی دولت، قومی خزانے کے سپرد کردیں گے۔ دوکانداروں سے ٹیکس جمع کرنے کے لیے سرویز کا سلسلہ بھی شروع ہوا۔
جنرل صاحب کے سات نکاتی ایجنڈا کے تحت جن انقلابی اصلاحات، کا ارادہ باندھا تھا ابھی پرواز کے قابل بھی نہ ہوئی تھیں تو امریکا میں نائن الیون ہوگیا۔ پاکستان کی جغرافیائی اہمیت، ایک بار پھر مہذب دنیا، کو یاد آگئی۔ امریکی صدر بش ہمارے جنرل صاحب کے جگری یار بن گئے۔ امداد، اور سستی شرائط، پر قرض کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا۔ تقریباً نو برس تک اس کی وجہ سے رونق لگی رہی۔ دریں اثناء2008ءآگیا۔ نو منتخب صدر اوباما نے فیصلہ کیا کہ امریکی قوت اور وسائل کو خواہ مخواہ کی مسلط کردہ جنگوں میں ضائع نہ کیا جائے۔ وہاں کی عسکری اشرافیہ اوباما کی اس سوچ سے تلملا اٹھی۔ اسے دیوار سے لگاتے ہوئے مجبور کیا کہ افغانستان میں موجود امریکی افواج کو وہ ملک سیدھا، کرنے کی مہلت دی جائے۔ وہ آمادہ تو ہوا مگر اپنے رویے سے بتدریج واضح کردیا کہ افغان سیزن، زیادہ عرصے تک چلایا نہیں جاسکتا۔
واشنگٹن کی بدلی سوچ متقاضی تھی کہ پاکستان اپنی معیشت مستحکم وخوش حال بنانے کے لیےجغرافیائی اہمیت، کے علاوہ بھی کچھ نئے راستے دریافت کرے۔ اس جانب توجہ دینے کے بجائے قوم کو عوامی قوت، سے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے منصب پر بحال ہوئے ایک اور دیدہ ور، یعنی افتخار چودھری نے جعلی ڈگریوں اور کرپٹ حکومتوں کے خلاف سیاپا فروشی میں الجھادیا۔ جو ماحول موصوف کی بدولت بنا اس نے 2011ءمیں نوجوان نسل، کی توانائی بھری حمایت کے ساتھ کرکٹ سے سیاستدان ہوئے ایک اور دیدہ ور، کو ہمارا ہیرو بنادیا۔
2013ءکے انتخاب کے فقط ایک برس بعد اسلام آباد میں دھرنا ہوا۔ وہ اپنے اہداف کے حصول میں ناکام ہوگیا تو اپریل 2016ءسے پاناما ڈرا ما، شروع ہوگیا۔ انجام اس کا 2018ءکے انتخاب تھے جس کے نتیجے میں دیدہ ور، کو اقتدار نصیب ہوا۔ انھیں سیم پیج، کی قوت بھی حاصل رہی۔ پاکستان کی معیشت بدلنے کو انقلابی اصلاحات، تاہم متعارف نہ ہوپائیں۔ اقتدار میں آنے سے قبل موصوف آئی ایم ایف سے رجوع کرنے کے بجائے خودکشی کو ترجیح دینے کی بڑھک لگایا کرتے تھے۔
اقتدار سنبھالنے کے چند ہی ماہ بعد مگر عالمی معیشت کے نگہبان اس ادارے سے رجوع کرنا پڑا۔ اس کے ساتھ جو تین سالہ معاہدہ ہوا اس پر کامل عمل درآمد سے البتہ گریز کیا۔ آئی ایم ایف نے خفاہوکر امدادی رقم، روکی تو امریکی سازش، کی دہائی مچاتے ہوئے اقتدار سے فارغ ہوگئے۔
گزشہ کئی دہائیوں کا بوجھ موجودہ حکومت نے اب اپنے سر لیا ہے۔ اس کا تمسخراڑانا مجھے بے پناہ شیئرز اور لائیکس تو فراہم کردے گا مگر حقائق بدل نہیں پائے گا۔ کڑا وقت ہے۔ خلوص دل سے دعا مانگیں کہ رب کریم اسے مختصر تر کردے۔