گزشتہ ہفتے کے آغاز تک مجھے "ذرائع" کی بدولت نہیں بلکہ فقط صحافتی تجربے کی بنیاد پر کامل یقین تھا کہ قومی اسمبلی کے علاوہ ملک بھر کی چاروں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ہر صورت رواں برس کے اکتوبر یا نومبر میں منعقد ہوجائیں گے۔ گزرے پیر کی دوپہر سے تاہم اسلام آباد میں سرعت سے پھیلتی سرگوشیوں سے یہ شبہ لاحق ہونا شروع ہوا کہ اپنے تجربات پر میں ضرورت سے زیادہ اعتماد کررہاہوں۔ یہ سوچنے کے باوجود جمعہ کی صبح جو کالم چھپا اس میں 1993ءاور 1996ءکے سیاسی ماحول کو یاد رکھنے کی کوشش کی تھی۔
ان دنوں بھی اسلام آباد کے "باخبر" تصور ہوتے ڈرائنگ روم یہ اصرار کررہے تھے کہ نواز شریف کی پہلی اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت کی آئین کی آٹھویں ترمیم کے باعث صدر مملکت کے ہاتھوں برطرفی بروقت انتخابات ناممکن بناچکی ہے۔
صدر غلام اسحاق خان کے ہاتھوں اپریل 1993ءمیں برطرف ہوئی نواز حکومت جسٹس نسیم حسن شاہ کے سپریم کورٹ نے روزانہ کی بنیاد پر ہوئی سماعتوں کے بعد گج وج کر بحال کردی تھی۔ مذکورہ بحالی نے غلام اسحاق خان جیسے کائیاں اور تجربہ کار بیوروکریٹ کو بوکھلادیا تھا۔ سول اور ملٹری اداروں کی جانب سے "بابا" پکارے ایوان صدر میں تنہا بیٹھے اپنے دفتر میں لگائے پردے کھڑکیوں سے ہٹواکر آسمان پر نگاہیں مرکوز رکھنا شروع ہوگئے۔ کئی واسطوں کے طفیل ان سے مجھے پندہ منٹ ملاقات کا موقعہ مل گیا۔ "آف دی ریکارڈ"وعدے کے باوجود وہ میرے اٹھائے سوالات کے جواب فراہم کرنے کے لئے ارتکاز توجہ سے قطعاََ محروم نظر آئے۔
غلام اسحاق خان کے برعکس مگر ان دنوں کے گورنر پنجاب چودھری الطاف حسین صاحب اپنی جگہ ڈٹ کر کھڑے تھے۔ سپریم کورٹ کے اتباع میں لاہور ہائی کورٹ نے بھی پنجاب اسمبلی بحال کرنے کا فیصلہ سنادیا۔ جب یہ فیصلہ آیا تو اتفاق سے میں گورنر ہاؤس لاہور میں ان کے دفتر میں موجود تھا۔ میری موجودگی میں انہوں نے گرین فون اٹھاکر غلام اسحاق خان کو مطلع کیا کہ وہ ایک بار پھر پنجاب اسمبلی کی تحلیل کا حکم جاری کررہے ہیں۔ یہ اطلاع دینے کے بعد انہوں نے فون بند کردیا اور خود کو لذت دیتی مسکراہٹ کے ساتھ اعلان کیا کہ "بابارہ گیا ہے"۔ میں نے صحافیانہ تجسس سے فقط یہ جاننا چاہا کہ غلام اسحاق خان جیسے "بابا"کے دل شکستہ ہونے کے بعد وہ کس برتے پر ایک بارپھر پنجاب اسمبلی توڑ رہے ہیں۔
شفقت سے وہ مجھے اکثر "نصرت صاحب بہادر" پکارا کرتے تھے-انہیں الفاظ سے اپنے جواب کا آغاز کیا اور نہایت پراعتماد لہجے میں یاد دلایا کہ ان دنوں جو آئین نافذالعمل تھا وہ گورنر پنجاب کو منتخب اسمبلی توڑنے کا اختیار دیتا ہے۔ یہ کہتے ہوئے انہوں نے اس عہد کا اظہار کیا کہ مذکورہ اختیار کو جب تک آئین سے نکالا نہیں جاتا وہ عدلیہ کی جانب سے تحلیل ہوئی پنجاب اسمبلی کی بحالی کے بعد اسے دوبارہ برطرف کرنے میں ایک منٹ بھی نہیں لگائیں گے۔ وہ اپنے عہد پر قائم رہے اور ان کی ضد کی وجہ ہی سے بالآخر ان دنوں کے آرمی چیف عبدالوحید کاکڑ کو متحرک ہوکر ملک کو سیاسی بحران سے بچانے کے لئے "کاکڑفارمولا" استعمال کرنا پڑا تھا۔
مذکورہ فارمولے کے تحت جب غلام اسحاق خان اور نواز شریف صدارت اور وزارت عظمیٰ سے مستعفی ہوگئے تو نگران وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے واشنگٹن سے "اچانک" معین قریشی صاحب نمودار ہوگئے۔ ہمارے باخبر ترین صحافیوں کی اکثریت بھی ان کے نام سے ناواقف تھی۔ گورنمنٹ کالج لاہور سے فراغت کے بعد یہ صاحب امریکہ چلے گئے تھے اور علم معیشت میں اعلیٰ تعلیم کے بعد کئی برس ورلڈ بینک کی نوکری میں گزاردئیے۔ ہمارے لوگوں کو ان کی آمد کے بہت دن گزرنے کے بعد علم ہوا کہ ان کا تعلق قصور کے اس نامور خاندان سے ہے جس کے ایک جید فرزند میاں محمد علی قصوری صاحب ہماری سیاست میں جمہوریت اور انسانی حقوق کے تاحیات چمپئن رہے۔
بہرحال معین قریشی جیسے "ماہر معیشت" اور ان کے ورلڈبینک کے ساتھ تعلق نے اسلام آباد کے ہمہ وقت "سازش" تلاش کرتے افراد کو یہ طے کرنے کو مجبور کیا کہ "معاشی استحکام" یقینی بنائے بغیر بروقت انتخاب نہیں ہوپائیں گے۔ یہ تمام قیافے مگر بالآخر قطعاََ غلط اور بے بنیاد ثابت ہوئے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو سادہ اکثریت کے ساتھ وزارت عظمیٰ کے منصب پر لوٹ آئیں۔ سردار فاروق خان لغاری کے ہاتھوں محترمہ کی دوسری حکومت کی 1996ءمیں برطرفی کے بعد بھی اسلام آباد میں ایسی ہی سرگوشیوں کا راج رہا۔ انتخاب مگر بروقت ہوئے اور ان کے نتیجے میں نواز شریف "ہیوی مینڈیٹ" کے ساتھ وزارت عظمیٰ کے منصب پر لوٹ آئے۔
اب کی بار سازشی سرگوشیوں کی حدت ماضی کے برعکس بہت شدید ہے۔ معیشت کے بجائے کلیدی نکتہ اس کا یہ "دلیل" ہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان گزرے برس کے اپریل میں تحریک عدم اعتماد کی بدولت برطرف ہونے کے بعد جارحانہ سیاست کے ذریعے اپنے ووٹ بینک کو واضح طورپر برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ ان کی جگہ لینے والی حکومت عوام کی اکثریت پر مہنگائی کا ناقابل برداشت عذاب نازل کرنے کی ذمہ دار تصور کی جارہی ہے۔ سیاسی مبصرین کی اکثریت یہ محسوس کرتی ہے کہ موجودہ حکومت کے خلاف مہنگائی کی وجہ سے بڑھتی ہوئی نفرت ورکروں کی بے پناہ اکثریت کو "بلے" کے نشان پر ٹھپہ لگانے کو مجبور کرے گی۔
سازشی کہانیاں بننے والے مگر یہ اصرار بھی کررہے ہیں کہ رواں برس کے نومئی کو ہوئے واقعات کے بعد ریاست کا طاقت ور ترین ادارہ سابق وزیر اعظم کی اقتدار میں واپسی کو اب درگزر نہیں کر پائے گا۔ اسی باعث یہ سوچ اب تیزی سے پھیل رہی ہے کہ سابق وزیر اعظم کی توشہ خانہ یا کسی اور مقدمے میں گرفتاری اور سزا سنائے جانے کے بعد ہی نئے انتخابات کا انعقاد ممکن ہے۔ سپریم کورٹ سے "واضح حکم" کے باوجود پنجاب اسمبلی کی تحلیل کے بعد آبادی کے اعتبارسے ہمارے سب سے بڑے صوبے میں انتخاب کا نہ ہونا بھی اس تناظر میں"نظیر" کی صورت زیر بحث لایا جارہا ہے۔
وزیر اعظم شہباز شریف بارہا اعلان کرچکے ہیں کہ وہ اگست کا دوسرا ہفتہ ختم ہونے سے قبل قومی اسمبلی کی تحلیل یقینی بنادیں گے۔ بلوچستان اور سندھ کی اسمبلیاں بھی اس مہینے اپنی آئینی مدت مکمل کرلیں گی۔ اگست کے دوسرے ہفتے کے بعد لہٰذا وفاق کے علاوہ مذکورہ دونوں صوبوں میں بھی انتخابات کے انعقاد کے لئے نگران حکومتوں کا قیام لازمی ہوجائے گا۔ سوال مگر یہ ا±ٹھ رہا ہے کہ "نگران" کب تک حکمران رہیں گے۔ شاید میں یہ سوال قابل توجہ ہی نہ گردانتا۔ بدھ کے روز سے مگر ہمارے ٹی وی چینلوں پر "ذرائع" کی بدولت یہ خبر چلتی رہی کہ 25جولائی کو مشترکہ مفادات کی کونسل کا اجلاس بلانے کی تیاری ہورہی ہے۔ ہماری وزیر اطلاعات نے "ذرائع" سے چلائی اس "خبر" کی تردید یا تصدیق سے گریز کیا۔ اب یہ بات بھی چل رہی ہے کہ جس اجلاس کا ذکر ہورہا ہے وہ 25جولائی کے بجائے 31جولائی کے دن بھی ہوسکتا ہے۔
نظر بظاہر جس اجلاس کا ذکر ہورہا ہے اس کا واحد مقصد حال ہی میں مکمل ہوئی مردم شماری کا "سرکاری طور" پر تسلیم کرنابتایا جارہا ہے۔ اگرچہ یہ خیال درست ثابت ہوا تو انتخابات کے انعقاد کے لئے نوے دنوں سے بڑھ کر مزید چند مہینوں تک انتظار کرنا ہوگا۔ آئین اس امر کا متقاضی ہے کہ اگر مشترکہ مفادات کی کونسل نئی مردم شماری کو "اپنالے" تو الیکشن کمیشن اس کی روشنی میں تازہ حلقہ بندیوں کا اہتمام کرے۔ اس کے علاوہ یہ بھی طے کرنا ہوگا کہ کونسے صوبے کو قومی اسمبلی کی کتنی نشستیں دینا ہوں گی۔
مشترکہ مفادات کونسل کے جس اجلاس کا "ذرائع" منتظر ہیں اس کی بابت وزیر اعظم اور ان کی حکومت کی خاموشی مجھ شکی مزاج کو "پراسرار" دِکھنا شروع ہوگئی ہے۔ اتوار کی صبح اٹھتے ہی یہ کالم لکھنے تک میں اس خاموشی کے تسلی بخش جواز ڈھونڈنے میں ناکام رہا ہوں۔