بالآخر آرمی چیف کو خودمتحرک ہونا پڑا ہے۔ گزرے ہفتے کے آخری دو دن انہوں نے لاہور اور کراچی کے بڑے صنعت کاروں کے ساتھ "کھلی کچہری" میں گزارے۔ ان کے خطاب کے بعد سوال وجواب کے طویل سیشن بھی ہوئے۔ جو گفتگو ہوئی اس کی تفصیلات سرکاری ذرائع سے ہوبہو ہمارے سامنے نہیں آئیں۔ کامران خان صاحب جیسے سینئر صحافیوں نے البتہ ان کی مصروفیات کے کلیدی نکات واہداف بہت مہارت سے بیان کردئے ہیں۔ ان کے علاوہ چند "باخبر" صحافیوں نے بھی لاہور اور کراچی میں ہوئی ملاقاتوں کے خلاصے بیان کئے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک نے اگرچہ اپنی پسند کے موضوع کو بڑھاچڑھا کر پیش کیا۔
میرے متحرک ساتھیوں نے اپنے ذرائع کی بدولت معلومات کے حصول کے بعد جو ٹویٹس لکھے ہیں میں ان میں فراہم کردہ اطلاعات پر تبصرہ آرائی کے قابل نہیں۔ اپنے گھر تک محدود ہوئے ریگولر اور سوشل میڈیا کے ذریعے ملی خبروں کا مشاہدہ کرنے کی عادت کی بنا پر لیکن یہ دعویٰ کرنے کو مجبور ہوں کہ ریاست کے طاقت ور ترین ادارے کے سربراہ کا متحرک ہونا میرے اس خدشے کی تصدیق ہے کہ نگران حکومت "بازار" کا دل جیتنے میں ناکام رہی ہے۔ اس حکومت کے اقتدار سنبھالتے ہی ہمارے گھروں میں بجلی کے جو بل آئے انہوں نے عوام کی اکثریت کو بوکھلا دیا۔ بجلی کے ناقابل برداشت بلوں سے بوکھلائے عوام ہمدردی کے مستحق تھے۔ ان کے ساتھ مگر یہ وعدہ کرنا کہ "آئندہ 48گھنٹوں میں" انہیں مصیبت کی اس گھڑی میں کچھ ریلیف فراہم کردیا جائے گا زخموں پر نمک چھڑکنے جیسی سفاکی تھی۔
بہتر یہی تھا کہ نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ براہ راست عوام سے خطاب کرتے۔ اس کے دوران عوام کو عاجزی اور انکساری سے یہ سمجھانے کی کوشش کرتے کہ ان کے گھروں میں بجلی کے جو بل آئے ہیں اس کا واحد ذمہ دار آئی ایم ایف سے ہوا معاہدہ ہے۔ اس معاہدے کے بغیر پاکستان دیوالیہ ہوجاتا۔ پاکستان کو دیوالیہ سے بچانے کے لئے شہباز حکومت عالمی معیشت کے نگہبان ادارے کی انتہائی کڑی شرائط بھی تسلیم کرنے کو مجبور ہوئی ہے۔ نگران حکومت کا ان شرائط کو تسلیم کرنے سے کوئی لینا دینا نہیں۔ ایک غیر منتخب حکومت ہوتے ہوئے وہ آئی ایم ایف کو ان شرائط پر نظرثانی کو مائل بھی نہیں کرسکتی۔ عوام کو لہٰذا ناقابل برداشت بلوں کی کڑوی گولی کسی نہ کسی طرح نگلنا ہوگی۔
یہ حقیقت بیان کردینے کے بعد وزیر اعظم کو کھلے دل سے یہ بات بھی تسلیم کرلینا چاہیے تھی کہ بجلی کے بلوں کے ذریعے حکومت نے کئی ایسے ٹیکس بھی صارفین سے وصول کرنے کی کوشش کی ہے جو انہیں دیگر انداز میں ادا کرنا چاہئیں تھے۔ انتہائی خلوص سے لہٰذا انہیں یہ وعدہ کرنا چاہیے تھا کہ ان کی حکومت اس امر کو یقینی بنائے گی کہ بجلی کے صارفین سے محض ان یونٹوں کی قیمت وصول کی جائے گی جو وہ خرچ کرتے ہیں۔ فقط ان ہی پر واجب جنرل سیلز ٹیکس بھی ادا کرنا لازمی ہوگا۔ اس کے علاوہ کوئی اور ٹیکس بجلی کے بلوں کے ذریعے وصول نہیں کیا جائے گا۔ مجھے گماں ہے کہ نگران وزیر اعظم کی جانب سے مجوزہ نکات پر مبنی خطاب لوگوں کو تھوڑی تسلی دینے کا باعث ہوسکتا تھا۔
عوام کو مگر یہ جھانسہ دینے کو ترجیح دی گئی کہ "آئندہ 48گھنٹوں میں" کچھ ریلیف فراہم کردیا جائے گا۔ سب سے اہم امید یہ دلائی گئی کہ جوبل آئے ہیں انہیں شاید آسان اقساط میں ادا کیا جاسکے گا۔ آسان اقساط میں ادائیگی کی امید پر بے تحاشہ لوگوں نے بروقت اپنے بل ادا ہی نہیں کئے۔ اب جرمانے سمیت مزید بوجھ اٹھانے کو مجبور ہوں گے۔ میری اطلاع کے مطابق آئی ایم ایف سے "ریلیف" کی تجویز زیر بحث لائی گئی تو عالمی معیشت کے نگہبان ادارے نے چند کلیدی سوالات اٹھائے۔ ان سوالات کا بنیادی پیغام یہ تھا کہ اگر حکومت نے بجلی کے بلوں کو آسان اقساط میں وصول کرنے کا سلسلہ شروع کردیا تو بجلی پیدا کرنے والوں کے جو گردشی قرضے ادا کرنا ہیں ان میں بے پناہ اضافہ ہوجائے گا۔ اس کے علاوہ مناسب اور بروقت کیش کی عدم دستیابی بالآخر ملک میں لوڈشیڈنگ کے طویل گھنٹے واپس لانے کا باعث بھی ہوگی۔ بہتر یہی ہوگا کہ آسان اقساط والی تجویز کو نظرانداز کردیا جائے۔
آئی ایم ایف نے حکومت کو جو پیغام دئے بے بس وبے اختیار عوام اس سے بے خبر رکھے گئے۔ نامور اور قدآور صحافیوں کے ایک بڑے اجتماع سے گزری جمعرات کی سہ پہر خطاب کرتے ہوئے نگران وزیر اعظم نے بلکہ ایک بار پھر مزید "48گھنٹوں" میں ریلیف کی صورت نمایاں ہونے کی امید دلادی۔ دریں اثناء پٹرول کی قیمت میں تقریباََ 15روپے کا اضافہ ہوگیا۔ اس کی وجہ سے بجلی کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہونا بھی لازمی نظر آرہا ہے۔ اس کے علاوہ اس حقیقت سے بھی نگاہیں چرائی نہیں جاسکتیں کہ ہمارے روپے کی قدر امریکی ڈالر کے مقابلے میں ریکارڈ سطح کی حد تک گررہی ہے۔
بے امیدی کے اس موسم میں"ٹیکنوکریٹ" ہونے کی وجہ سے وزارت خزانہ کی مدارالمہام ہوئی ڈاکٹر شمشاد اختر صاحبہ نے سینٹ کی ایک کمیٹی کے روبرو چند ایسے کلمات بھی ادا کردئیے جنہوں نے یہ تاثر دیا کہ پاکستان کے معاشی بحران کی سنگینی کا ان جیسی "ماہر معیشت" کو بھی اندازہ نہیں تھا۔ یہ بیان سوشل میڈیا پر وائرل ہوا تو اس کے منفی اثرات کے تدارک کے لئے ڈاکٹر صاحبہ کو ایک ویڈیو ریکارڈ کروانا پڑی۔ انگریزی محاورے والا Damage مگر ہوچکا تھا۔ اس کے حقیقی اثرات ہمیں سٹاک ایکس چینج کے کریش ہونے کی صورت دیکھنے کو ملے۔
نگران وزیر اعظم اور ان کے معاشی امور کی بابت معاونین نے اپنی اجتماعی حماقتوں کی بدولت مایوسی کی جو فضا پیدا کی اسے ختم کرنے کے لئے بالآخر آرمی چیف کو متحرک ہونا پڑا ہے۔ "اندر کی بات" سے قطعاََ بے خبر ہوتے ہوئے میں فقط یہ امید ہی باندھ سکتا ہوں کہ آرمی چیف نے مذکورہ خطاب مناسب ہوم ورک کے بعد کیا ہوگا اور اس کے نتیجے میں کم از کم ہمیں پاکستانی روپے کی قدر مزید گرتی نظر نہیں آئے گی۔ اگر ایسا ہوگیا تو آئندہ 15روز بعد پٹرول کی قیمت میں مزید اضافے کا اعلان بھی نہیں ہوگا۔ پٹرول اور ڈیزل کی قیمت آئندہ چند ہفتوں تک ایک ہی سطح تک منجمد رہی تو یہ امید بھی پیدا ہوگی کہ شاید اب بجلی کے نرخ بھی قابل برداشت ہونا شروع ہوجائیں گے۔