تین دہائیوں سے مختلف حکومتوں کے عروج وزوال کا ضرورت سے زیادہ متحرک رپورٹر ہوتے ہوئے بہت قریب سے مشاہدہ کیا ہے۔ وقت نے سکھایا ہے تو فقط یہ کہ "حکمرانی" کے لئے میسر چہرے تو بدلتے رہتے ہیں مگر ان کے اطوارقطعاََ نہیں بدلتے۔
شہباز شریف کی قیادت میں گزشتہ برس کے اپریل میں قائم ہوئی حکومت بھی اس تناظر میں مختلف نہیں۔ اس میں شامل کئی افراد 1999سے "احتساب" کے نام پر بنائے بندوبست کے ہاتھوں ذلیل ورسوا ہوتے رہے ہیں۔ نجی محفلوں میں جب بھی ملتے اپنے تجربات تفصیل سے بیان کرتے ہوئے طاقت ور دلائل کے ساتھ اس امر پر قائل کرنے کو مصر رہتے کہ "احتساب بیورو" کا واحد مقصد سیاستدانوں پردباؤ بڑھاکر حکومت وقت کے لئے آسانیاں فراہم کرنا ہے۔ اس کے ہوتے ہوئے "احتساب" تو ہرگز ممکن نہیں تاہم "احتساب" کے نام پر جو مارا ماری ہوتی ہے وہ کاروبار میں خوفناک مندی لاتی ہے۔ افسر شاہی کو لکیر کا فقیر بنے رہنے کو مجبور کرتی ہے۔ نئے خیالات سے گریز کے جواز فراہم کرتی ہے۔
جن افراد کا ذکر ہورہا ہے ان میں سے آصف علی زرداری اور شاہد خاقان عباسی جیسے قدآور رہ نما فقط نجی محفلوں ہی میں نہیں بلکہ اسمبلی میں ہوئی کئی تقاریر اور ٹی وی انٹرویوز کے ذریعے بھی یہ تجویز دیتے رہے ہیں کہ تمام سیاستدانوں کو باہم مل کر احتساب بیورو کو ختم کرنے کی راہ ڈھونڈنا ہوں گی۔
ایسے قدآور رہنماؤں کی جانب سے بار ہا دہرائے بیانات کو ذہن میں رکھتے ہوئے مجھ سادہ لوح کو امید تھی کہ موجودہ حکومت کے دوران اگر احتساب بیورو کو "تالا" نہ بھی لگا تو کم از کم اس ادارے کے ان اختیارات کو لگام ڈالی جائے گی جو نیب کو لوگوں کی زندگیاں اجیرن بنانے کے سفاک کارخانے میں بدل دیتے ہیں۔ مذکورہ امید کے تناظر میں ان "ترامیم" سے ہرگز مضطرب نہیں ہوا جو حکومت سنبھالتے ہی نیب قوانین میں متعارف ہوئی تھیں۔ قانون کا واقعتا احترام کرنے والے کسی بھی ملک میں طاقتور ترین ریاستی اداروں کو یہ بھی اختیار ہرگز حاصل نہیں ہوتا کہ وہ اپنے کسی شہری کو فقط "شک" کی بنیاد پر اٹھالے اور نوے روز تک اپنی حراست میں رکھ کر اس کے خلاف لگائے الزامات کی تصدیق کو مجبور کرے۔
"الزامات کی تصدیق" کا ذکر اس لئے ضروری تھا کیونکہ نیب اگر کسی شہری پر کوئی الزام عائد کرے تو اسے ثابت کرنا اس ادارے کے لئے ضروری نہیں۔ ملزم ہی کو اپنی بے گناہی ثابت کرنا ہوتی ہے۔ ضمانت کے حق سے محروم ملزم اس کی حراست میں نوے دن رہنے کے بعد اکثر "پلی بارگین" یا "مک مکا" کو مجبور ہوجاتا ہے اور انصاف ہوتا نظر نہیں آتا۔ اس تناظر میں یہ فیصلہ یقینا خوش آئندہ تھا کہ نیب کے ہاتھوں گرفتار ہوئے شخص کو چودہ دنوں سے زیادہ ضمانت کے حق سے محروم نہیں رکھا جائے گا۔
پیر کی شام مگر نجانے کیا سوچتے ہوئے موجودہ حکومت نے قومی اسمبلی کا اجلاس جو بجٹ منظوری کے بعد 17جولائی تک "موخر" ہوا تھا "ختم" کردیا۔ پارلیمان کے دونوں ایوان قانونی طورپر "ان سیشن" نہ رہے تو آرڈیننس کے ذریعے "نیا قانون" متعارف کروانے کا جواز پیدا ہوگیا۔ اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے قائم مقام صدر کے ہاتھوں ایک ترمیم پر دستخط کروالئے گئے جس کی بدولت نیب کی حراست میں آئے ملزم کو اب 14دنوں کے بجائے کامل تیس دنوں تک ضمانت کے حق سے محررم رکھا جائے گا۔
پیر کی شام مذکورہ آرڈیننس "قانون" کی صورت لاگو ہوگیا تو میرے سمیت بے شمار صحافیوں کی اکثریت نے یہ فرض کرلیا کہ جو ترمیم ہوئی ہے اس کا واحد مقصد سابق وزیر اعظم کو گرفتار کرنا ہے۔ عمران خان منگل کی صبح مختلف مقدمات کے حوالے سے اسلام آباد آرہے تھے۔ انہیں نیب کے دفتر بھی چند سوالات کے جواب فراہم کرنے کو پیش ہونا تھا۔ ہم نے فرض کرلیا کہ راتوں رات متعارف ہوئی ترامیم کا واحد مقصد ان کی لاہور واپسی کو روکنا ہے۔ وہ نیب کے دفتر جانے کے بعد گرفتارکرلئے جائیں گے۔ ایسا مگر ہوا نہیں۔ سابق وزیر اعظم کو کم از کم بارہ مختلف مقدمات میں ضمانیں وغیرہ مل گئیں۔
عمران خان پیر کی شام سنسنی خیز انداز میں ہوئی ترامیم سے بچ نکلے تو میں نیب قوانین میں آرڈیننس کی بدولت متعارف کروائی تبدیلیوں کے متن کو نہایت غور سے پڑھنے کو مجبور ہوا۔ ان کا مطالعہ کرتے ہوئے احساس ہوا کہ 14دن کے بجائے 30دنوں تک ضمانت کے حق کے بغیر حراست ہی اکلوتی اہم ترمیم نہیں تھی۔ میری دانست میں بلکہ اس سے بھی کہیں زیادہ "با ریک واردات" ایک اور ترمیم کے ذریعے ڈالی گئی ہے جو "وعدہ معاف گواہ" کی گنجائش نکالتی ہے۔ اس کے دئے "اعترافی" بیان کے بعد نیب اس کی جانب سے دئے "تحائف" وغیرہ کو "رشوت" شمار کرنے سے گریز کرے گا۔ اس کے "تحفے" وصول کرنے والا شخص مگر "رشوت ستانی" کا ملزم قرار پائے گا اور نیب عدالتوں سے کڑی سزاؤں کا حقدار متصور ہوگا۔
نیب آرڈیننس میں پیر کی شب "اچانک" ہوئی ترامیم کا بغور مطالعہ یہ سوچنے کو ا±کساتا ہے کہ ان کا واحد مقصد سابق وزیر اعظم اور ان کے نہایت قریبی تصور ہوتی شخصیات کو مبینہ طورپر گرانقدر تحفے تحائف دینے والوں کو "سات قتل معاف" کی سہولت دیتے ہوئے "رشوت ستانی" کی کہانیاں سنانے کو ا±کسانا ہے۔ مذکورہ ترامیم رونما ہونے سے چند روز قبل موجودہ حکومت کے قریب تصور ہوتے ہوئے کئی صحافیوں اور یوٹیوبروں کے ذریعے یہ "خبر" بھی پھیلائی گئی تھی کہ عمران خان کے خلاف ایک مشہور ومعروف کاروباری شخصیت وعدہ معاف گواہ بننے کو رضا مند ہوگئی ہے۔
سابق وزیر اعظم اور ان کے قریب ترین افراد کو گرانقدر تحائف کے نام پر "رشوت" حاصل کرنے کے الزام میں کڑی سزائیں دلانا میرا درد سر نہیں۔ میری حیرانی کا واحد سبب پیر کی شب اچانک متعارف کروائی ترامیم کے دوررس امکانات ہیں۔ ان کا اطلاق یاد رہے 1999ءسے ہونا ہے۔ ٹھنڈے دل سے ذرا سوچیں۔ آئینی اعتبار سے موجودہ حکومت کی مدت 12 اگست 2023ءکی رات بارہ بجے ختم ہوجائے گی۔ اس کے بعد عبوری حکومت کا قیام لازمی ہے۔ جو حکومتیں قائم ہوں گی ان کے اختیارات محدود ہوتے ہیں۔ ان کا واحد مقصد نئے انتخابات کے انعقاد کی نگرانی ہے۔
نیب قوانین میں متعارف کروائی ترامیم کے ذریعے اس ادارے کا چیئرمین بھرپور شاہی اختیارات کا حامل رہے گا۔ 1999ءکے بعد قائم ہوئی حکومتوں میں شامل کسی بھی اہم ترین فرد کو "تحائف" کے نام پر بھاری بھر کم رشوت وصول کرنے کامرتکب تصور کرتے ہوئے 30دنوں تک اپنی حراست میں رکھ سکتا ہے۔
وعدہ معاف گواہ کو "سات خون معاف" والی سہولت کے ساتھ وہ فقط عمران خان اور ان کی جماعت ہی کے نہیں آج کی حکومت میں شامل مختلف سیاسی جماعتوں کے کئی سرکردہ رہنماؤں کو بھی نئی ترامیم کی بنیاد پر گرفتار کرتے ہوئے انہیں آئندہ انتخاب میں چلائی مہم سے باہر رکھ سکتاہے۔ عمران خان کو ہر صورت گھیرنے کے جنون میں مبتلا موجودہ حکومت میں شامل کائیاں اور تجربہ کار تصور ہوتے سیاستدان کاش اس پہلو پر توجہ دینے کے قابل ہوتے۔