ریاستوں کے مابین تخت یا تختہ والی جنگوں کا تجزیہ کرتے ہوئے ماہرین حرب اکثر ایٹم بم کو آخری آپشن کی صورت پیش کرتے ہیں۔ میری دانست میں انتخابی معرکوں کے حوالے سے ن لیگ کے قائد نواز شریف صاحب کی بھی وہی حیثیت رہی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ مگر یہ "ہتھیار" کند ہونا شروع ہوگیا۔ اس کو پہلا اور بھاری نقصان قمر جاوید باجوہ کی ملازمت میں تین سال کی توسیع فراہم کرنے والے قانون کی حمایت کی وجہ سے پہنچا۔ ابھی مطلوبہ قانون کا مسودہ بھی منظر عام پر نہیں آیا تھا تو شہباز شریف نے لندن بیٹھے اس کی "غیر مشروط حمایت" کا ا علان کردیا۔
یہ اعلان ہوجانے کے بعد ان دنوں اپوزیشن میں بیٹھی دوسری بڑی جماعت یعنی پیپلز پارٹی مجوزہ قانون کی مزاحمت کے قابل نہ رہی۔ اپنا بھرم رکھنے کو البتہ اس نے مجوزہ قانون میں ہومیوپیتھک نوعیت کی ترامیم متعارف کروانے کی کوشش کی۔ معیادِ ملازمت کی توسیع یقینی بنانے والوں نے مگر آصف علی زرداری سے آخری لمحوں میں براہ راست رابطہ کیا اور پیپلز پارٹی بھی سرجھکا کر بارہ منٹ کی تاریخی عجلت میں پہلے سے تیار ہوئے قانون پر منظوری کے انگوٹھے لگانے کو مجبور ہوگئی۔
باجوہ صاحب اپنی ملازمت میں تین سال کی توسیع یقینی بنانے کے بعد مسلم لیگ (نون) اور پیپلز پارٹی میں بیٹھے "چوروں اور لٹیروں" کے لئے ایک بار پھر اجنبی ہوگئے۔ نواز شریف اور شہبازشریف کے برسوں سے چہیتے اور بے تکلیف دوست خواجہ آصف نے اپنی جماعت کے رہ نماؤں کو قمر جاوید باجوہ کی ملازمت میں توسیع دلوانے کو نہایت لگن سے مائل کیا تھا۔ سابق وزیر اعظم مگر سیالکوٹ سے ابھرے اس منہ پھٹ سیاستدان کو حقارت سے "درباری"پکارتے تھے۔ ان کی شدید خواہش تھی کہ خواجہ صاحب کو ہر صورت احتساب کے شکنجے میں کساجائے۔ جاوید اقبال بطور نیب چیئرمین اس خواہش کی تعمیل کو مجبور ہوئے۔
خواجہ آصف کی ذلت واذیت کے دوران قمر جاوید باجوہ نے سردمہر لاتعلقی اختیار کئے رکھی۔ خواجہ صاحب کے بعد شہبازشریف کو بھی منی لانڈرنگ کے الزامات کے تحت رگڑا لگانے کا آغاز ہوا۔ اپنی جماعت کے رہ نماؤں کے ساتھ جی حضوری کا رویہ اختیار کرنے کے باوجود ہوئے سلوک سے اکتاکر نوازشریف بالآخر زبان کھولنے کو مجبور ہوئے۔ اپوزیشن جماعتوں پر مبنی پی ڈی ایم نامی اتحاد کو توانا تر بنانے کا فیصلہ کیا۔ گوجرانوالہ میں ہوئے اس کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے باجوہ اور فیض حمید کے نام لیتے ہوئے ان کے ساتھ پنجابی محاورے کے مطابق "سیدھے ہوگئے"۔ گوجرانوالہ کے "دلیرانہ خطاب" کی بدولت نواز شریف کا ووٹ بینک دوبارہ تگڑا ہوگیا۔ عمران حکومت کے دوران ہوئے ضمنی انتخابات میں اس کی بدولت نوازشریف کے نامزد کردہ امیدوار تمام تر ریاستی جبر اور سرکاری سرپرستی میں ہوئی دھاندلی کے با وجود حیران کن انداز میں جیتتے رہے۔
ضمنی انتخابات کے نتائج نے مسلم لیگ نون کے ٹکٹ کو آئندہ انتخابات کے دوران جیت کی کلیدبنادیا۔ اس کی اہمیت کو نگاہ میں رکھتے ہوئے مارچ 2021ءمیں قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کی نشستوں پر بیٹھے کئی اراکین نے خفیہ رائے شماری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے یوسف رضا گیلانی کو عمران خان کے نامزد کردہ ڈاکٹر حفیظ شیخ کے مقابلے میں سینٹ کے لئے منتخب کرلیا۔ عمران خان گیلانی کے انتخاب سے تلملاگئے۔ "سیم پیج" والوں کو مجبور کیا وہ انہیں قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ دلوانے کے لئے ہر حربہ استعمال کریں۔ بات وہیں ختم نہ ہوئی۔ سینٹ کے لئے دوسرے صوبوں میں ہوئے چناؤ کے دوران مقتدر حلقوں نے تحریک انصاف کا کھل کر ساتھ دیا۔ ان کی بدولت صادق سنجرانی بھی چیئرمین سینٹ کے منصب پر براجمان رہے۔ ان کے خلاف ڈالے چند ووٹ"متنازعہ" قرار پائے۔ گیلانی صاحب اس کے خلاف عدالت میں چلے گئے۔ آج تک یہ طے نہیں ہوپایا کہ متنازعہ قرار پائے ووٹ سنجرانی صاحب کی حمایت کررہے تھے یا مخالفت۔
دریں اثناءاکتوبر2021ءآگیا۔ اس مہینے آئی ایس آئی کے سربراہ کی تعیناتی ہونا تھی۔ عمران خان فیض حمید کو اس منصب پر مزید کچھ عرصہ رکھنا چاہ رہے تھے۔ ان کی خواہش بتدریج ضد کی صورت اختیار کرگئی۔ "سیم پیج" اس کی وجہ سے بالآخر پھٹ گیا۔ اس کی طاقت باقی نہ رہی تو اپوزیشن جماعتوں نے باہم مل کر عمران خان کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے وزارت عظمی سے ہٹانے کا فیصلہ کرلیا۔
عمران خان کو اپریل 2022ءتک "سادہ" اور سیاسی حربوں سے نا آشنا شخص تصور کیا جاتا تھا۔ قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد جمع ہوتے ہی مگر انہوں نے کمال مہارت سے سائفر کہانی ایجاد کی۔ روزانہ کی بنیاد پر عوامی جلسوں سے خطاب کرنا شروع ہوگئے اور پاکستانیوں کی خاطر خواہ تعداد کو اس امر پر قائل کردیا کہ امریکہ ان کی روسی صدر کے ساتھ ملاقات سے ناراض ہوکر پاکستان میں"رجیم چینج" کو تل گیا ہے۔ اس ماحول میں انہوں نے "ہم کوئی غلام ہیں؟" کا نعرہ بلند کیا۔ اس نعرے نے جو جذباتی فضا بنائی مسلم لیگ (نون) اور پیپلز پارٹی میں شامل "کائیاں اور تجربہ کار" سیاستدان اس کے اثر کا ادراک ہی نہ کر پائے۔ "رجیم چینج"والی کہانی کا توڑ ڈھونڈنا تو بہت دور کی بات تھی۔ عمران خان نے دھمکی دی تھی کہ اگر انہیں وزارت عظمیٰ کے منصب سے ہٹانے کی سازش کامیاب ہوگئی تو وہ "مزید "خطرے ناک" ہوجائیں گے۔ وزارت عظمیٰ سے فراغت کے بعد وہ اس عہد پر قائم رہے۔ عوام سے مسلسل رابطے میں رہے۔ ریگولر اور سوشل میڈیا کو نہایت لگن سے اپنے بیانیے کے فروغ کے لئے استعمال کیا۔
مسلم لیگ (نون) کے پاس "گیم" کو یکسر تبدیل کرنے کا ایک ہی ہتھیار باقی رہ گیا تھا اور وہ یہ کہ تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوجانے کے بعد فی الفور نئے انتخابات کی جانب بڑھ جائے۔ انتخابی مہم انہیں عمران حکومت کی ان غیر ذمہ دارانہ پالیسیوں کو بے نقاب کرنے کا بھرپور موقعہ فراہم کرتی جن کی وجہ سے عالمی معیشت کے نگہبان ادارے پاکستان سے ناراض ہوئے۔ اس کے علاوہ بے تحاشہ ایسے اقدام بھی جو امریکہ، چین اور سعودی عرب جیسے اہم ترین ممالک کی ہم سے دوری کا باعث ہوئے۔ "گیارہ جماعتوں" کی حمایت کے ساتھ شہباز شریف نے مگر حکومت میں رہنے کا فیصلہ کیا۔ پاکستان کو دیوالیہ سے بچانا اپنی اولیں ترجیح ٹھہرائی اور اس کی خاطر پاکستان کے غریب اور متوسط طبقات کی زندگی ناقابل برداشت مہنگائی کے گرداب میں پھنس گئی۔
مسلم لیگ (نون) کے بے تحاشہ ثابت قدم حامی بھی آج تک "دیوالیہ" کی حقیقت نہیں جان پائے ہیں۔ جو جانتے ہیں انہیں یہ گلہ ہے کہ وطن عزیز کو دیوالیہ سے بچانے کے لئے شہباز حکومت نے ہماری اشرافیہ پر خاطرخواہ بوجھ نہیں ڈالا۔ خوش حال طبقات سے ٹیکسو ں کے ذریعے مزید رقم حاصل کرنے کے بجائے غریب اور متوسط طبقے ہی سے بجلی اورگیس کے بلوں او رپٹرول کی قیمتوں کے ذریعے "غندہ"ٹیکس دکھتی رقوم وصول کی گئیں۔
گزشتہ چار مہینوں سے اوسطاََ کم از کم دس افراد سے بازاروں میں گفتگو کررہا ہوں۔ سینکڑوں اجنبیوں سے سرسری بات چیت کے بعد میرے اندر کا رپورٹر یہ جان چکا ہے کہ ان کی اکثریت عمران خان کی دلدادہ نہیں ہے۔ سابق وزیر اعظم مگر ان کا درد سر بھی نہیں۔ ان کے دلوں میں البتہ مسلم لیگ (نون) کے خلاف شدید غصہ ابل رہا ہے اور ان کی کماحقہ تعداد "اس دن کا انتظار "کررہی ہے جب وہ اپنے حلقے میں مسلم لیگ (نون) کے نامزد کرد ہ امیدوار کے خلاف" ووٹ دے کر اس جماعت کو سبق سکھائیں گے"۔
مجھے کامل اعتماد ہے کہ نواز شریف کو ایسے جذبات سے غافل رکھا گیا ہے۔ وہ اس ضمن میں باخبر ہوتے تو اگلے ماہ وطن لوٹ کر اپنی جماعت کی انتخابی مہم چلانے کو آمادہ نہ ہوتے۔ میں ان کا مشیر نہیں محض ایک صحافی ہوں۔ یہ کہنے سے مگر باز نہیں آؤں گا کہ ان کا ووٹ بینک 16مہینوں کی حکومت کی وجہ سے تباہ کرنے والے اب اپنی ساکھ اور سیاست بچانے کیلئے انہیں انتخابی مہم میں جھونک رہے ہیں۔ ان کی پاکستان آمد علم حرب کا "نیوکلیئرآپشن" ہے۔ فرض کیا یہ بھی "ٹھس" ہوگیا تو پھر کیا ہوگا؟