شہباز شریف بے پناہ صلاحیتوں کے حامل ہوں گے۔ قابل اعتبار عذر تراشنا مگر ان کے بس کی بات نہیں۔ اسی باعث لندن پہنچنے کے بعد صحافیوں کو سمجھا نہیں پائے کہ وہ ہنگامی، دِکھتے انداز میں اپنے بڑے بھائی سے ایک اور ملاقات کے لیے لاہور میں محض دو دن گزارنے کے بعد واپس کیوں لوٹ آئے ہیں۔ صلاح مشورے، والا جواز قابل اعتبار سنائی نہیں دیتا کیونکہ اپنی حکومت کے اختتام کے بعد سابق وزیر اعظم تقریباً تین ہفتوں تک لندن میں مقیم رہے تھے۔ قیام لندن کے دوران ان کی نواز شریف سے تقریباً روزانہ کی بنیاد پر تفصیلی ملاقاتیں ہوئیں۔ ان ملاقاتوں میں اکثر خواجہ آصف اور اسحاق ڈار جیسے قدآور رہ نما بھی موجود ہوتے تھے۔
لندن میں جو ملاقاتیں ہوئیں ان ہی کی بدولت بالآخر یہ فیصلہ ہوا کہ نواز شریف 21اکتوبر کو وطن واپس لوٹ آئیں گے۔ چار برس تک پھیلی خود ساختہ جلاوطنی کے اختتام پر ان کی وطن واپسی بدلے ہوئے حالات کا تقاضا بھی ہے۔ عمران حکومت اپریل 2022ءمیں اقتدار سے فارغ ہوگئی تھی۔ 2022ءکے نومبر میں جنرل باجوہ بھی آرمی چیف کے عہدے سے فارغ ہوگئے۔ ان دونوں واقعات کے بعد عمر عطا بندیال کا چیف جسٹس کے منصب پر براجمان رہنا ہی نواز شریف کے لیے برا شگون تصور ہورہا تھا۔ رواں ماہ کی 16تاریخ کو وہ بھی ریٹائر ہوگئے۔ ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد نواز شریف یہ دعویٰ نہیں کرسکتے کہ پاکستان کی ریاست اور عدالت کو ان کی وطن واپسی پسند نہیں۔ سیاسی اعتبار سے ان کے لیے بلکہ اب لازمی ہوچکا ہے کہ وہ اگر سیاست میں متحرک ہونا چاہ رہے ہیں تو وطن لوٹیں اور اپنے خلاف قائم مقدمات کا بدلے ہوئے، ماحول میں سامنا کریں۔
ان کی وطن آمد مسلم لیگ (ن) کو بھی شدت سے درکار ہے۔ الیکشن کمیشن نے اعلان کردیا ہے کہ آئندہ برس کا آغاز ہوتے ہی جنوری کے آخری ہفتے میں کسی بھی دن قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخاب کا انعقاد ہوگا۔ متوقع انتخاب میں حصہ لینے کے لیے مسلم لیگ (ن)کے نامزد کردہ امیدواروں کو ایک طاقت ور بیانیے کی ضرورت ہوگی۔ مارکیٹنگ کی زبان میں جسے ری برانڈنگ(Rebranding)، کہا جاتا ہے اس کا تقاضا ہے کہ کسی پراڈکٹ کی تشہیر کے لیے جو نیا اشتہار بنایا جائے اس کے لیے بنائی کہانی کے کردار بھی نئے، ہوں۔
شہباز شریف اور ان کے ساتھی برملا اعتراف کرتے ہیں کہ 16مہینوں تک اقتدار میں رہتے ہوئے ان کی توجہ پاکستان کو دیوالیہ سے بچانے پر مرکوز رہی ہے۔ مطلوبہ ہدف کے حصول کے لیے وہ ایسے فیصلے لینے کو مجبور ہوئے جنھوں نے ہمارے عوام کی اکثریت کا دیوالیہ نکال دیا ہے۔ مہنگائی کے بھنور میں گھرے عوام اپنی مشکلات کا واحد ذمہ دار مسلم لیگ (ن) کو ٹھہرارہے ہیں۔ بطور صحافی جب بھی راہ چلتے لوگوں سے سرسری گفتگو کا موقع ملا تو وہ متوقع انتخابات کے دوران مسلم لیگ (ن) کے نامزد کردہ امیدواروں کے خلاف ووٹ دیتے ہوئے حساب چکانے، کو بے تاب سنائی دئے۔ ایسے حالات میں صرف نواز شریف ہی وطن لوٹ کر مسلم لیگ کے مفلوج ہوئے ڈھانچے کو نئی صورت عطا کرسکتے ہیں۔
1985ءسے نہایت استقامت اور لگن سے نواز شریف نے جو ووٹ بینک، بنایا تھا۔ اپریل 2022ءمیں عمران حکومت کے بعد قائم ہوئی شہباز حکومت کے ہاتھوں غارت ہوچکا ہے۔ اب مسلم لیگ (ن) کو انتخابی میدان میں توانا رکھنے کے لیے ایک نیامعجون، اور رستم، نظر آتا لیڈر درکار ہے۔ نواز شریف مطلوبہ تقاضے پورے کرسکتے ہیں۔ اسی باعث گزشتہ ہفتے کا آغاز ہوتے ہی پیر کے دن انھوں نے لاہور میں جمع ہوئے مسلم لیگ (ن) کے سرکردہ رہ نماؤں اور کارکنوں سے جو خطاب کیا وہ کافی جارحانہ" تھا۔ انتہائی تجزیہ کار سیاستدان ہوتے ہوئے وہ جبلی طورپر جانتے ہیں کہ شہباز حکومت کے دوران عذاب کی طرح نمودار ہوئی مہنگائی کا دفاع ناممکن ہے۔ اس مہنگائی کی ذمہ داری، کسی اور کے کاندھوں پر ڈالنا لازمی ہے۔
اسی باعث نواز شریف ماضی میں لوٹنے کو مجبور ہوئے۔ 2013ءکے انتخاب کی بدولت قائم ہوئی اپنی حکومت کا ذکر کیا۔ اس کے کارنامے، یاد دلانے کے بعد ان سازشوں، کا ذکر ضروری تھا جنھوں نے ان کی تیسری حکومت کو ایک پل بھی چین سے رہنے نہیں دیا۔ سازشوں کا ذکر ہوتو ان کے ذمہ داروں کا تعین بھی لازمی ہوجاتا ہے۔ نواز شریف نے اس منطقی تقاضے کو ذہن میں رکھتے ہوئے جنرل باجوہ اور فیض حمید کے نام لیے۔ اس کے علاوہ سپریم کورٹ کے ثاقب نثار کانام بھی لیا۔ نام لینا ہی مگر عوام کے دکھوں کا مداوا نہیں۔ بطور سیاستدان وہ یہ عہد اٹھانے کو بھی مجبور ہیں کہ عوام نے اگر ایک بار پھر ان کی جماعت کو اقتدار میں بٹھایا تو پاکستان کے حالیہ بحرانوں کے مبینہ طورپر حقیقی ذمہ داروں کو معاف نہیں کیا جائے گا۔ ان کا احتساب، ہوگا۔
سازشی کرداروں، کے کڑے احتساب، کا وعدہ ہی نواز شریف کی قیادت میں مسلم لیگ (ن) کو نیا بیانیہ اور توانائی فراہم کرسکتا ہے۔ یہ وعدہ مگر استحکام، کے خواہاں ریاستی اداروں کو پریشان کردیتا ہے۔ ان کی خواہش ہے کہ ماضی کو بھلاکر آگے بڑھا جائے۔ مذکورہ خواہش ہر حوالے سے نیک نیتی پر مبنی سنائی دیتی ہے۔ سیاست مگر نیک یا بدخواہشات کی غلام نہیں ہوتی۔ یہ تخت یا تختہ والی جنگوں کا نام بھی ہے۔ نواز شریف ان دنوں سیاست کے کلیدی اصول استعمال کرتے ہوئے انتخابی مہم کو بھی ذہن میں رکھے ہوئے ہیں۔ جارحانہ، روش اختیار کرنا ان کی سیاسی مجبوری ہے۔ کڑے احتساب کا عہد ہی انتخابی مہم میں ان کا قابل فروخت چورن ہوسکتا ہے۔
استحکام، کو وطن عزیز کے لیے لازمی اور اس کے حصول کو یقینی بنانے کی ذمہ دار طاقت ور قوتیں مگر اس چورن، کو ضرورت سے زیادہ کرنٹ دار، محسوس کررہی ہیں۔ اس کے حوالے سے ان، کے ذہن میں جو تحفظات تھے ان کی بابت شہباز شریف کو آگاہ کردیا گیا ہے۔ لندن پہنچتے ہی اگرچہ وہ گوجرانوالہ، سے منسوب ملاقاتوں کی تردید کرنے میں مصروف ہوگئے۔
مان لیتے ہیں کہ گوجرانوالہ، تو کیا ان کی لاہور سمیت پاکستان کے کسی بھی شہر اور قصبے میں مقتدر کہلاتے حلقوں کے کسی پیغامبر سے کوئی ملاقات نہیں ہوئی۔ اگر یہ ملاقات ہرگز نہیں ہوئی اور اس کے دوران نواز شریف کے جارحانہ انداز کی بابت تحفظات کا اظہار نہیں ہوا تو شہباز شریف لندن سے وطن لوٹنے کے دو ہی دن بعد واپس اسی شہر اپنے بھائی سے کیا مشورہ کرنے گئے ہیں۔ اس سوال کا تسلی بخش جواب شہبازشریف ابھی تک فراہم نہیں کر پائے ہیں۔