انوار الحق کاکڑ کی بطور نگران وزیر اعظم حیران کن تعیناتی نے مجھ سادہ لوح کو یہ باور کرنے کو اْکسایا کہ وطن عزیز میں سیاسی منظر نامے تشکیل دینے والی "ڈیپ سٹیٹ" یا "دریں دولت" نہایت خاموشی سے ایک حکمت عملی تیار کرچکی ہے۔ ممکنہ حکمت عملی کا اولیں ہدف نگران حکومت کو ایسی ٹیم فراہم کرنا ہے جو اقتدار سنبھالتے ہی برسوں سے جمع ہوئے مسائل سے نبردآزما ہونے کے لئے برق رفتاری سے ایسے اقدامات لینا شروع کردے جو ووٹوں کی محتاج حکومتوں کے بس سے باہر ہوتے ہیں۔ بدھ کی صبح اْٹھ کر یہ کالم لکھنے تک مگر نگران حکومت کے کلیدی وزراء کا چنائو بھی نہیں ہوا تھا۔ اس ضمن میں پریشان کن تاخیر وزیر خزانہ کی تعیناتی کے ضمن میں اختیار ہوئی نظر آرہی ہے۔
گزشتہ کئی ہفتوں سے ہمیں تواتر سے بتایا جارہا تھا کہ نگران حکومت کی اولین ترجیح آئی ایم ایف کے ساتھ ہوئے معاہدے پر کامل عملدرآمد یقینی بناناہے۔ اس تناظر میں تغافل عالمی معیشت کے نگہبان ادارے کو ہمارے لئے ایک ارب ڈالر کی ایک اور قسط کے اجراء سے روک سکتا ہے۔ مطلوبہ رقم کے حصول کے لئے لازمی ہے کہ آئندہ ماہ کے آخر میں آئی ایم ایف کی ٹیم کو اعتبار دلایا جائے کہ ستمبر2023ء کے اختتام تک وہ فیصلے لاگو کردئے گئے ہیں جن کے اطلاق کا وعدہ پہلی قسط کے حصول کے لئے ہوا تھا۔ جن اہداف کا حصول مقصود ہے ان پر عملدرآمد یقینی بنانے کے لئے ہمیں ایک بااختیار وزیر خزانہ درکار ہے۔ ایسا "نابغہ" وزیر مگر یہ کالم لکھنے تک "دریافت" نہیں ہوا تھا۔
ہم صحافیوں کی اکثریت یہ فرض کرچکی تھی کہ آئی ایم ایف کے دیرینہ چہیتے ڈاکٹر حفیظ شیخ نگران وزیر اعظم تعینات کردئیے جائیں گے۔ وزارت خزانہ کا منصب وہ کسی اور کے سپرد نہیں کریں گے اور حلف اٹھانے کے پہلے روز ہی آئی ایم ایف سے طے ہوئی شرائط پرعملدرآمد شروع ہوجائے گا۔ حفیظ شیخ کی تعیناتی کے امکان کو مگر شہباز حکومت میں شامل تمام سیاسی جماعتوں نے یکسو ہوکر ناممکن بنادیا۔ نواز شریف اس امر پر ڈٹے رہے کہ اقتصادی پالیسیوں کا تسلسل (Continuity) یقینی بنانے کے لئے شہباز شریف کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار ہی کو نگران وزیر اعظم تعینات کردیا جائے۔
آپ سے کیا پردہ۔ ملکی سیاست کا دیرینہ شاہد ہوتے ہوئے میں اس "خبر" کو افواہ تصور کرتا رہا جو دعویٰ کررہی تھی کہ نواز شریف اپنے قریبی عزیز اسحاق ڈار صاحب کو نگران وزیر اعظم تعینات کروانے پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ مجھے گماں تھا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ ہوئے معاہدے کی شرائط پر کامل عملددرآمد نگران حکومت کو عوام کی نگاہ میں غیر مقبول بنادے گا۔ اس کی جانب سے لئے فیصلوں کی بدولت مہنگائی کے عذاب میں مزید شدت آئے گی۔ ڈار صاحب اگر نگران وزیر اعظم نامزد ہوگئے تو عوام پر مزید مشکلات نازل کرنے کا فقط ان کی ذات ہی کو نہیں بلکہ مسلم لیگ (نون) کو بھی ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا جو اپریل 2022میں اقتدارسنبھالنے کے بعد سے مسلسل اپنے "ووٹ بینک" کو تباہ وبرباد کرچکی ہے۔
چند باخبر لوگوں نے مگر مجھے یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ ایک دو ماہ کی مشکلات کے بعد سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات جیسے برادر ملک کے تعاون سے کچھ ایسے طویل المدت اور "میگا پراجیکٹ" کا آغاز ہوسکتا ہے جو لوگوں کے لئے "اچھی خبر" یا Feel Goodماحول بنانے کا باعث ہوں گے۔ ڈار صاحب نے مذکورہ منصوبوں کی تیاری میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اپنے کیرئیر کے کئی برس انہوں نے متحدہ عرب امارات میں کامیاب کاروباری گروہوں کے ساتھ شراکت میں بھی گزارے ہیں۔ متحدہ عرب امارات کے علاوہ سعودی عرب میں بھی نواز شریف کے دیرینہ خیرخواہ موجود ہیں۔ غالباََ انہیں پاکستان میں سرمایہ کاری کو ترغیب دینے کے لئے ہی وہ لندن سے ان دو ملکوں میں چند ہفتے گزارنے آئے تھے۔ اسحاق ڈار کی بطور نگران وزیر اعظم تعیناتی کے لئے غالباََ وہ اس لئے مصر تھے کہ شہباز حکومت سے معاشی اعتبار سے جڑی"تلخ"حقیقتوں کے برادر ممالک کے تعاون سے ازالے کی جو کوششیں ہوں ان کا کریڈٹ بھی مسلم لیگ (نون) حاصل کرے۔ "راجہ ریاض"مگر ڈار صاحب کی تعیناتی پر رضا مند نہ ہوئے۔ حفیظ شیخ اور اسحاق ڈار کے مابین معاملہ "اٹک" گیا تو جلیل عباس جیلانی "ڈارک ہارس"کی صورت ابھرنا شروع ہوگئے۔
انتہائی باخبر حضرات سے گفتگو کے بعد میں اعتماد سے یہ لکھ سکتا ہوں کہ مقتدر قوتیں جیلانی صاحب کو نگران وزیر اعظم تعینات کرنے پر آمادہ ہوچکی تھیں۔ نواز شریف کو مگران کی جماعت نے قائل کردیا کہ جیلانی صاحب کی بطور نگران وزیر اعظم تعیناتی یہ پیغام دے گی کہ مذکورہ عہدے پر "پیپلز پارٹی کا بندہ" تعینات ہوگیا ہے۔ وہ ذرائع جن پر میں اعتماد کرسکتا ہوں یہ دعویٰ بھی کررہے ہیں کہ کاکڑ صاحب کی حیران کن تعیناتی سے فقط ایک دن قبل مسلم لیگ (نون) کے اہم رہ نما سردار ایاز صادق نے راولپنڈی میں ایک اہم شخصیت سے علی الصبح ملاقات کی تھی۔ اس کے دوران جیلانی صاحب کی بابت مسلم لیگ (نون) کے تحفظات کا اظہارہوا۔ اس کے بعد قرعہ فال کاکڑ صاحب کے نام نکلا جنہیں درحقیقت بلوچستان کا نگران وزیر اعلیٰ نامزد کرنے کے لئے "تیار" کیا جارہا تھا۔
بہرحال جو ہونا تھا وہ ہوگیا ہے۔ میری اصل فکر مندی وزیر خزانہ کی بدھ کی صبح تک عدم موجودگی ہے۔ نئے وزیر خزانہ کی تعیناتی کے بغیر ہی منگل کی شب پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں ایک اور بھاری بھر کم اضافے کا اعلان ہو چکا ہے۔ مسئلہ فقط اس اضافے تک ہی محدود نہیں رہا۔ منگل کے دن ڈالر کی انٹربینک میں قیمت میں یک دم تین روپے سے زیادہ کا اضافہ بھی ہوگیا ہے۔ بینکوں کے ذریعے ڈالر کی قیمت 291اور 292روپے کے درمیان چلی گئی تو کھلے بازار میں اس کی قیمت 300روپے سے بھی تجاوز کرگئی۔ غیر ملکی کرنسی کی قدر کا پروفیشنل انداز میں جائزہ لینے والے مصر ہیں کہ منگل کے روز ڈالر کی قیمت میں جو اضافہ ہوا ہے وہ "اچانک" نہیں ہوا۔
منگل کے دن ہمارے بینکوں نے تیل اور دیگر بنیادی اشیاء کی درآمد کے لئے 40سے 50ملین ڈالر کی فراہمی یقینی بنائی ہے۔ غالباََ بدھ کے دن بھی ایسی درآمدات کے لئے اتنی ہی رقم کا اجراء لازمی ہوگا۔ لیٹر آف کریڈٹ کی وجہ سے آئے پریشر نے ڈالر کی قیمت کو مہمیز لگادی۔ ڈالر کی قیمت کے بے قابو ہوجانے کا ایک سبب افغانستان بھی ہے۔ ہمارے ہاں افغانستان اور ایران سے آئے "مال" کے "خریدار" اپنی "درآمدات" کی قیمت ڈالروں میں ادا کرتے ہیں۔ جو تجارت ہوتی ہے وہ عموماََ "باقاعدہ" نہیں ہوتی۔ اس "تجارت" کے حجم کو ذہن میں رکھتے ہوئے کابل کے بازار میں پاکستانی روپے کی قدر بھی ہمارے ہاں ڈالر کی قیمت پر اثرانداز ہوتی ہے۔ منگل کے روز افغانستان کے کرنسی بازار میں ایک امریکی ڈالر پاکستان کے 312روپے کے عوض مل رہاتھا۔ ہمارے کرنسی کے بازار اس بھاری بھر کم قیمت کے اثر سے محفوظ نہیں رہ سکتے۔
قصہ مختصر ڈالر کو قابو میں رکھنے کے لئے ایک طاقتور اور "دھندے" کی باریکیاں سمجھنے والے وزیر خزانہ کی ضرورت ہے جو بدھ کی صبح تک دریافت نہیں ہوا تھا۔ اس کی عدم موجودگی مجھے یہ سوچنے کو مجبور کررہی ہے کہ ڈاکٹر صاحب کی قیادت میں بنائی نگران حکومت بھی "ڈنگ ٹپائو" ہی رہے گی اور اس سے "انقلابی" فیصلوں کی توقع خام خیالی ہوگی۔ یہ لکھنے کے بعد اگرچہ گھبرائے دل سے ربّ کریم سے یہ فریاد بھی کررہا ہوں کہ میرے خدشات قطعی غلط اور بے بنیاد ثابت ہوں۔