سیاسی جماعتوں کو آزاد منش صحافی نہیں اندھی عقیدت میں مبتلا پیروکار مطلوب ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے میں اس ضمن میں پیدائشی معذور ہوں۔ اسی باعث سوشل میڈیا کی قوت کو حال ہی میں دریافت کرنے والے مسلم لیگ (ن) کے بے شمار معتقد ان دنوں مجھے خبطی اور بدکار بڈھا پکارتے ہوئے اپنے تئیں زچ کرنے کی کاوشوں میں مصروف ہیں۔ میری دلی خواہش ہے کہ نواز شریف، شہباز شریف اور خواجہ آصف صاحب جیسے جواں سال رہ نما ؤں پر مشتمل اس جماعت کے ایسے معتقد مجھے صحافت سے نکال کر کامیابی وکامرانی کی جانب گامزن رہے۔
نواز شریف کی لندن سے واپسی کا اعلان ہوا تو میں نے انتہائی دیانتداری سے فقط یہ عرض گزاری تھی کہ پاکستان اب ایسا نہیں رہا جو مسلم لیگ کے قائد نے تقریباً چار برس قبل چھوڑا تھا۔ ووٹر کو اب انگریزی محاورے کے مطابق Taken for Grantedنہیں لیا جاسکتا۔ مسلم لیگ (ن) ہی نہیں بلکہ وہ ہر سیاسی جماعت سے مایوس ہوچکا ہے۔ پنجاب 1980ءکی دہائی سے مسلم لیگ (ن) کا گڑھ شمار ہوتا رہا ہے۔ شریف خاندان کے اس قلعہ میں لیکن عمران خان کی تحریک انصاف نے 2011ءسے مسلسل شگاف ڈالنا شروع کردیے تھے۔ اس ضمن میں ہمارے ہاں مقتدرہ، کہلاتی قوتوں نے بھی تحریک انصاف کا اس حوالے سے بھرپور ساتھ دیا۔ بالآخر حالات اس حد تک بدل گئے کہ مسلم لیگ (ن) عمران حکومت کے زوال کے بعد پنجاب اسمبلی کی خالی ہوئی چند نشستوں پر ہوئے ضمنی انتخاب کے دوران لاہور سے فقط ایک نشست حاصل کرسکی۔
لاہور کے ووٹر کی مسلم لیگ (ن) سے ناراض ہونے کی وجہ عمران خان سے یکایک ابھری محبت نہیں تھی۔ اصل وجہ مہنگائی کا وہ عذاب ہے جو شہباز حکومت کے دوران پاکستان کو دیوالیہ سے بچانے کے نام پر خلقت معصوم پر نازل ہوا۔ مسلسل بڑھتی مہنگائی سے پریشان ہوئے عوام شہباز حکومت کو اپنی مشکلات کا واحد ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ انھیں آئی ایم ایف سے ہوئے معاہدوں کی اہمیت کا ہرگز احساس نہیں اور 16ماہ کی حکومت کے دوران مسلم لیگ (ن) ریگولر اور سوشل میڈیا کے ماہرانہ استعمال کے ذریعے عوام کی اکثریت کو عالمی حقائق اور اداروں کے روبرو اپنی مجبوریاں سنبھالنے میں قطعاً ناکام رہی۔ عوام کے دلوں میں مہنگائی سے ابھرے غصے کو بھانپتے ہوئے ٹی وی سکرین پر ایک بار میں نے اس خدشے کا اظہار بھی کردیا کہ حالات اگر ایسے ہی رہے تو مسلم لیگ (ن) لاہور کی گوالمنڈی میں ابھی اپنی فطری برتری کھوسکتی ہے۔
گوالمنڈی کے ذکر نے مسلم لیگ (ن) کے چلائے سوشل میڈیا پر چھائے نوخیز دلاوروں کو مشتعل بناڈالا۔ چند ایسے نوجوان جو شاید لاہور کے دلی دروازے سے داخل ہوکر کسی سے پوچھے بغیر میرے آبائی شہر کے کسی مطلوب محلے تک پہنچ بھی نہیں سکتے سوشل میڈیا پر یہ دعویٰ کرناشروع ہوگئے کہ غروب آفتاب کے بعد ہوش وحواس کھوبیٹھنے والا بڈھا نصرت جاوید لاہور اور وہاں کے عوام کی نفسیات سے ہرگز آگاہ نہیں۔ سوشل میڈیا پرچھائے کرائے کے قاتلوں سے گھبراجانا میں نے سیکھا ہی نہیں۔ اپنی بات پر آج بھی ڈٹا ہوا ہوں اور اکتوبر21کے روز نواز شریف صاحب کے لندن سے لوٹ کر مینار پاکستان کے تلے ہواخطاب بھی میری رائے بدلنے میں کامیاب نہیں ہوا۔
ہفتے کے دن لاہور میں جو اجتماع ہوا وہ ہر حوالے سے متاثر کن حد تک پر ہجوم تھا۔ اس کا شمار یقینا مینار پاکستان تلے ہوئے تاریخ ساز جلسوں میں ہوگا۔ جلسے مگر سیاسی جماعتوں کے انتخابی مقدر کا فیصلہ نہیں کرتے۔ اگر جلسے ہی فیصلہ کن ہوتے تو مولانا عطاءاللہ شاہ بخاری کی مجلس احرار اور علامہ مشرقی کی خاکسار تحریک کے ہوتے ہوئے قیام پاکستان سے قبل قائد اعظم کی مسلم لیگ پنجاب میں اپنی جگہ بنانے میں قطعاً ناکام رہتی۔ 1986ءکے اپریل کی دس تاریخ کو محترمہ بے نظیر بھٹو بھی طویل جلاوطنی کے بعد لاہور ایئرپورٹ اتری تھیں۔
صبح دم لاہورایئرپورٹ پر اترنے کے بعد انھوں نے جلوس کی صورت مینار پاکستان تک جو سفر کیا اس میں شامل لوگ تاحد نظر پھیلے محسوس ہوتے تھے۔ وہ عصر کے بعد ہی جلسہ گاہ میں داخل ہوپائیں۔ اس جلسے کے باوجود مگر 1986ءکی 14اگست کو جونیجو حکومت کے ساتھ ہوئے ایک پھڈے کی بدولت پیپلز پارٹی کو شدید نقصان ہوا۔ 1977ءکے بعد سے آج تک یہ جماعت جو 1967ءمیں لاہور ہی میں ڈاکٹر مبشر حسن کے گھر قائم ہوئی تھی اپنے تئیں صوبا ئی حکومت بھی نہیں بناپائی۔ اپنا وجود برقرار رکھنے کے لیے اسے آبادی کے اعتبارسے ہمارے سب سے بڑے صوبے میں مسلم لیگ کے کسی ورژن سے (خواہ وہ چٹھہ لیگ کی صورت ہویا گجرات کے چودھریوں سے منسوب) کسی نہ کسی نوعیت کا اتحاد قائم کرنا پڑتا ہے۔
بہرحال میاں صاحب لاہور پہنچ گئے ہیں۔ ہفتے کی شام انھوں نے مینار پاکستان تلے ہوئے جلسے سے خطاب بھی فرمادیا ہے۔ میری ناقص رائے میں اپنی تقریر کے ذریعے وطن عزیز کے تین بار وزیر اعظم رہے نواز شریف نے کلیدی پیغام یہ دیا ہے کہ پاکستان کی اقتصادی بدحالی کا علاج آئی ایم ایف جیسے اداروں کے پاس ہرگز موجود نہیں۔ اپنے وسائل پر کامل توجہ دیتے ہوئے پاکستان کو ہمسایہ ممالک سے معمول کے تعلقات بحال کرنا ہوں گے۔
اس ضمن میں کشمیر کا تدبیر، کے ساتھ کوئی باوقار، حل تلاش کرتے ہوئے ایسی راہداری، بھی بنانا ہوگی جو آج کے پاکستان کو جو کبھی مغربی پاکستان کہلاتا تھا ماضی کے مشرقی پاکستان اور آج کے بنگلہ دیش سے ملاسکے۔ اپنے بڑے بھائی کو خطاب کے لیے بلانے سے قبل شہباز شریف نے 1998ءمیں ہوئے ایٹمی دھماکوں کا ذکر کیا۔ ان کی بدولت بھارت کے اس دور کا وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی بالآخر بس کے ذریعے لاہور آیا اور مینارِ پاکستان پہنچ کر علامتی انداز میں قیام پاکستان کی حقیقت کو تسلیم کرلیا۔ میری دانست میں نواز شریف کو خطاب کی دعوت دیتے ہوئے چند مختصر کلمات میں شہبازشریف نے نواز شریف کے لیے اپنا کلیدی پیغام دینے کی فضا یا پچ(Pitch)تیار کی تھی۔
نواز شریف نے تاہم جو کلیدی پیغام دیا ہے اس کی جانب ریگولر اور سوشل میڈیا پر چھائے ان کے حامی اور مخالفین نے بھرپور توجہ نہیں دی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی سپاہ ٹرول فقط یہ ثابت کرنے میں اپنی تمام تر توانائی خرچ کررہی ہے کہ ان کے قائد نے پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے نصرت جاوید جیسے بڈھے اور بدکار، خبطی افراد کے منہ بند کردیے ہیں۔ مخالفین اس امر پر زور دے رہے ہیں کہ نواز شریف کا مفاہمتی لہجہ یہ ثابت کررہا ہے کہ موصوف مقتدر قوتوں سے کسی ڈیل، کے بعد وطن لوٹے ہیں۔
نواز شریف کے خطاب سے اپنے تئیں کلیدی، نکتہ دریافت کرنے کے بعد میں دیانتداری سے یہ محسوس کررہا ہوں کہ اپنی سیاست کے آخری مرحلے میں تین بار اس ملک کے وزیر اعظم رہے مسلم لیگ (ن) کے قائد ایک مشکل ترین سفر پر روانہ ہونا چاہ رہے ہیں۔ مجھے اگرچہ یہ خدشہ بھی لاحق ہے کہ ان کے گرد جمع ہوا لشکر، تھک چکا ہے۔ انھیں سوشل میڈیا پر اول فول بکنے والے نوجوانوں کے بجائے اس لشکر میں حقیقی معنوں میں ستاروں پر کمند، ڈالنے کے خوگر نوجوانوں کی ضرورت ہوگی۔