ذہن میں آیا کوئی خیال چند ہی لمحوں بعد حقیقت کا روپ دھارلے تو میں گھبرا جاتا ہوں۔ ہفتے کے روز بھی ایسے ہی ہوا۔ اس سے ایک روز قبل مجھے دانتوں کے علاج کے لئے تقریباََ ڈیڑھ گھنٹہ پوری قوت سے منہ کھول کر اپنے جبڑوں کی "چھدرائی" کروانا پڑی تھی۔ زخموں کو مندمل ہونے کے لئے وقت درکار تھا۔ درد کی ٹیسوں سے بچاؤ کے لئے ایک گولی بھی ہر چوتھے گھنٹے کھانا تھی۔ ایسے عالم میں صحافیانہ تجسس مفقود رہا۔ محض عادت کی بدولت البتہ ہفتے کی صبح گھر آئے اخبارات پر سرسری نگاہ ڈالی۔ ان سے فراغت کے بعد سوشل میڈیا کا پھیرا بھی لگانا چاہا۔
لیپ ٹاپ کھولتے ہی اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ پر گیا تو فی الفور ایک تصویر نمودار ہوئی۔ صدر عارف علوی اس تصویر میں حال ہی میں پارلیمان کے دونوں ایوانوں سے منظور ہوئے ایک قانون پر حکم اجرائی والے دستخط کرتے نظر آئے۔ جو قانون منظور ہوا ہے اس نے برطانوی دور میں متعارف کروائے آفیشل سیکریٹ ایکٹ کو چند ترامیم کے ذریعے مزید جارحانہ بنادیا ہے۔ بہرحال وہ تصویر دیکھی تو اچانک ذہن میں خیال آیا کہ اب شاہ محمود قریشی کی خیر نہیں۔
عارف علوی کی تصویر دیکھ کر شاہ محمود قریشی کا خیال آنا میرے لئے حیران کن تھا۔ موصوف سے میری رسمی شناسائی ہے۔ رپورٹر کی کسی سیاستدان سے جان پہچان والی۔ مجھے ان کا اندازِ سیاست ہرگز نہیں بھاتا۔ وہ رعونت سے ہر لفظ کو دانت پیستے ہوئے ادا کرتے ہیں تو مزید چڑجاتا ہوں۔ انہیں مگر کبھی اس قابل نہیں سمجھا کہ تنہائی میں بیٹھے ان کے بارے میں برایا بھلا چاہوں۔ اس حقیقت کو نگاہ میں رکھتے ہوئے حیران ہوتا رہا کہ عارف علوی کی تصویر دیکھتے ہی مجھے شاہ محمود قریشی کا خیال کیوں آیا ہے۔ یہ سوچتے ہوئے درد کو مٹانے والی گولی کے "نشے" میں گہری نیندسوگیا۔
تقریباََ ایک گھنٹے بعد بیدار ہوا تو میرے فون پر متعدد مسڈکالز آئی ہوئی تھیں۔ کالز مختلف ٹی وی چینلوں سے تھیں۔ جلدی سے "تازہ ترین" کو لہٰذا "چیک" کرنا پڑا۔ اس عمل سے گزرا تو علم ہوا کہ شاہ محمود قریشی گرفتار کرلئے گئے ہیں۔ نظر بظاہر ان کی گرفتاری کا مقصد اس "سائفر" کا سراغ لگانا ہے جس کی ایک کاپی دفتری ریکارڈ سے مبینہ طورپر "گم" ہوچکی ہے۔
گزرے برس کے مارچ میں ان دنوں کی اپوزیشن جماعتوں نے مشترکہ طورپر عمران خان کو وزارت عظمیٰ کے منصب سے ہٹانے کے لئے قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد باقاعدہ طورپر جمع کروائی تھی۔ اس تحریک پر گنتی کا سامنا کرنے کے بجائے عمران خان نے "مزید خطرے ناک" ہونے کا عہدباندھا اور چند ہی دنوں بعد اسلام آباد میں اپنے حامیوں کے بھاری بھر کم اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے ہوا میں ایک بند لفافہ لہرایا۔ اسے لہراتے ہوئے سابق وزیر اعظم نے دعویٰ کیا کہ مذکورہ لفافے میں ایک "دھمکی آمیز" پیغام ہے جو امریکی وزارت خارجہ کے ایک افسر ڈونلڈ لو نے ان دنوں امریکہ میں پاکستان کے سفیر اسد مجید صاحب کو نہایت رعونت سے پہنچایا تھا۔ اس پیغام کے ذریعے عمران خان کے فروری 2022میں ہوئے دورئہ ماسکو پر خفگی کا اظہار ہوا اور یہ تاثر بھی دیا کہ اب پاکستان کے ساتھ معاملات مبینہ طورپر "اسی وزیراعظم" کے ذریعے بنائے جائیں گے جو عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوجانے کے بعد منتخب ہوگا۔
جلسہ عام میں بند لفافہ لہرانے کے بعد عمران خان تواتر سے یہ کہانی پھیلانا شروع ہوگئے کہ امریکہ ان کی وطن دوستی سے اُکتاگیا ہے۔ ان کی آزادانہ روش نے اسے "رجیم چینج" کواُکسایا ہے۔ ماضی میں ایران کے ڈاکٹر مصدق اور چلی کے آلندے کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک ہوا تھا۔ عمران خان نے مگر ڈٹ جانے کا فیصلہ کیا۔ ان کے ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے "سائفر" کو بنیاد بناتے ہوئے ان کے خلاف پیش ہوئی تحریک عدم اعتماد کو "قومی سلامتی کے منافی" ٹھہراکرردی کی ٹوکری میں پھینک دیا۔ موصوف کے اس عمل نے سپریم کورٹ کو ازخود نوٹس لینے کو مجبور کیا۔ تحریک عدم اعتماد پر بالآخر گنتی کروانا پڑی۔
گنتی ہوئی تو عمران خان وزارت عظمیٰ سے فراغت کے بعد پاکستان کے تقریباََ ہر بڑے شہرجاکرروزانہ کی بنیاد پر عوام کومتحرک کرنا شروع ہوگئے۔ امریکہ سے آیا "سائفر" ان کا کلیدی موضوع رہا۔ اس کی وجہ سے انہوں نے عمران حکومت کی جگہ آئی شہباز حکومت کو "امپورٹڈ حکومت" پکارنا شروع کردیا۔ "امپورٹڈ حکومت" کے ریاستی اداروں میں بیٹھے مبینہ سرپرست بھی "میر جعفروصادق" ٹھہرائے گئے۔
جنہیں مگر "میرجعفر" پکارا جارہا تھا صدر علوی کی وساطت ایوان صدر میں عمران خان سے ملاقاتیں کرتے ہوئے ان کا دل رام کرنے کی کاوشوں میں مصروف رہے۔ "میر جعفر" کا لقب انہوں نے محض اپنے عہدے کی معیاد میں مزید طوالت کے لالچ میں برداشت کرلیا۔ ملکی سیاست اور خارجہ امور کا دیرینہ شاہد ہوتے ہوئے میں بدنصیب اگرچہ اس کالم میں تواتر سے فریاد کرتا رہاکہ "سائفر کہانی" کو "پاکی داماں کی حکایت"کی طرح بڑھانا ہماری ریاست کے لئے بہت خطرناک ہوسکتا ہے۔ بارہا اپنی معلومات کی بنیاد پر یہ سمجھانے کی کوشش بھی کی کہ "سائفر" درحقیقت کیا ہوتا ہے۔
اندھی نفرت وعقیدت کے ہیجان میں"حقائق" مگر اپنی وقعت کھودیتے ہیں۔ "رجیم چینج" اور "امپورٹڈ حکومت"کی اصطلاحات ہماری روزمرہّ زبان کا حصہ بن گئے۔ "حقیقی آزادی" کی جدوجہد شروع ہوگئی اور "ہم کوئی غلام ہیں؟" کا سوال گونجنا شروع ہوگیا۔ مذکورہ گونج کے ہوتے ہوئے بھی عمران خان کے امریکہ میں کئی برسوں سے مقیم سیانے حامی "مٹی پاؤ" والاماحول تشکیل دینے کو متحرک ہوگئے۔ رابن رافیل اور زلمے خلیل زاد جیسے "بااثر"امریکی عمران خان کی "امریکہ دشمنی" کی "اصل وجوہات" سمجھاتے ہوئے واشنگٹن کو اسے نظرانداز کرنے کے مشورے دینے لگے۔
امریکہ میں فیصلہ سازی کے عمل اور بااثر حلقوں کے معاملات سے تھوڑی آشنائی کی بدولت میں یہ اصرار کرنے کو مجبور ہوں کہ وہاں مقیم عمران خان کے دیرینہ حامی اپنی کاوشوں سے تحریک انصاف کے لئے دوستانہ ماحول پیدا کرنے میں کافی حد تک کامیاب ہورہے تھے۔ آج سے چند روز قبل مگر وہاں Interceptنامی ویب سائٹ پر ایک "خط" چھاپاگیا۔ دعویٰ ہوا کہ مذکورہ "خط" درحقیقت اس "سائفر" کی مصدقہ نقل ہے جو اسد مجید صاحب نے اسلام آباد کو ڈونلڈ لوکا دھمکی آمیز پیغام ہوبہو پہنچانے کے لئے لکھا تھا۔
یاد رہے کہ مبینہ "خط" کی جو "نقل" چھپی امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نے اس کے متن کی واضح الفاظ میں تردید نہیں کی تھی۔ ترجمان کے گومگو رویے نے ریاست پاکستان کو ٹھوس جواز فراہم کردیا کہ وہ سائفر کی اس نقل کا سراغ لگائے جو پاکستان کے دفتری ریکارڈ سے غائب ہوچکی ہے۔ عمران خان کے دورِ اقتدار میں بہت ہی بااختیار رہے اعظم خان شاہ محمود قریشی کی گرفتاری سے قبل ہی طویل عرصہ کی "گمشدگی" کے بعد منظر عام پر آئے تھے اور سائفر کہانی کے بارے میں"اعترافی بیان"دیتے سنائی دئے۔ مجھے خدشہ ہے کہ شاہ محمود قریشی سے بھی انہیں گرفتار کرنے والوں نے ایسی ہی توقع باندھی ہے۔ دیکھنا ہوگا کہ ملتان کے ایک طاقتور گدی نشین ان کی توقع پوری کرپائیں گے یا نہیں۔
پسِ تحریر: یہ کالم لکھ چکا تو صدر مملکت نے ایک ٹویٹ کے ذریعے دعویٰ کیا کہ انہوں نے اس قانون پردستخط نہیں کئے جس میں حالیہ ترامیم کی بدولت عمران خان اور شاہ محمود قریشی "سائفر کہانی" کا "عذاب" بھگت رہے ہیں۔