ایک بارپھر آپ سے التجا کر رہا ہوں کہ انٹرنیٹ کے مختلف پلیٹ فارموں نے ہمیں خود ستائشی یا دوسروں کی ذلت سے لطف اٹھانے کی جس علت میں مبتلا کررکھا ہے کبھی کبھار اسے بھلا کر عالمی سطح پر ابھرتی نئی گیم پر بھی نگاہ ڈال دیا کریں۔ "عالمی سطح" کا ذکر ہو تو ہم جیسا ملک امریکہ میں ہوئی تبدیلیوں پر اپنی بقاء کے لئے توجہ دینے کو مجبور ہوتا ہے۔ ہماری بڑھک بازیوں اور قومی حمیت کے نام پر رچائے ڈراموں کے باوجود یہ حقیقت اپنی جگہ برقرار ہے کہ 1950ء کی دہائی سے ہم نے اپنی معیشت کو امریکہ کا محتاج بنارکھا ہے۔
جس دہائی کا میں ذکر کررہا ہوں اس کے دوران ہمارے اولین "دیدہ ور" جو بغیر کوئی ملک فتح کئے "فیلڈ مارشل" پکارے جاتے تھے پاکستان کو امریکہ کا اتحادی بناچکے تھے۔ جس اتحاد کا ہم حصہ تھے اس کا حتمی ہدف کمیونسٹ انقلاب کی بدولت قائم ہوئے سوویت یونین کو تباہ کرنا تھا۔ جس حتمی جنگ کے لئے فیلڈ مارشل ایوب خان نے ہمیں تیار کیا اس کی قیادت اگرچہ انہیں نصیب نہ ہوئی۔ غازی ضیاء الحق کو 1977ء میں بھٹو حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد اس جنگ کا آغاز کرنا پڑا۔ وہ سوویت افواج کو روس سے نکالنے میں کامیاب ہوگئے تو امریکہ کو ان کی ضرورت نہ رہی۔ تاریخی اور ابھی تک ناقابل سمجھ "اتفاق" یہ بھی ہوا کہ وہ 17اگست 1988میں ایک "فضائی حادثے" میں جاں بحق بھی ہوگئے۔
افغانستان سے روسی افواج کو پاکستان کی معاونت کی بدولت بھاگنے کو مجبور کرنے کے بعد امریکہ نے ہمیں بھلادیا۔ دریں اثناء بے نظیر بھٹو اور نواز شریف حکومتوں میں "باریاں" لیتے رہے۔ ان دونوں کو امریکہ سے معاشی سہارے میسر نہ ہوئے۔ پاکستان کو بلکہ ایٹم بم بنانے کا مرتکب ٹھہراتے ہوئے مختلف النوع پابندیوں میں جکڑ دیا گیا۔ بالآخر نواز شریف کی دوسری حکومت کے دوران پاکستان بھارت کے جواب میں اپنی ایٹمی قوت کے اظہار کو مجبور ہوا اور پاکستان دنیا میں اقتصادی اعتبار سے سب سے زیادہ پابندیوں میں جکڑا ملک بن گیا۔ معاشی اعتبار سے دیوار کے ساتھ لگے ہونے کے باوجود جنرل مشرف نے کارگل کے ذریعے سری نگر میں داخلے کی کوشش کی۔ کامیاب نہ ہوئے تو نواز شریف کا تختہ الٹ دیا۔
نواز شریف کا تختہ الٹنے کے بعد عالمی اعتبار سے تنہا ہوئے جنرل مشرف مگر نائن الیون کی بدولت امریکہ کے دلدار بن گئے۔ طے یہ ہوا کہ وہ افغانستان جسے 1980ء کی دہائی میں کمیونزم سے "آزاد" کروایا گیا تھا اب "دہشت گر دوں" سے بچایا جائے۔ دہشت گردی کے خلاف یہ جنگ 20برس تک جاری رہی۔ پاکستان نے اس کے دوران امریکہ کے کلیدی معاون کا کردار ادا کیا۔ ہماری معاونت نے اگرچہ پاکستان کے عوام کی کماحقہ تعداد کو سرکارمائی باپ سے خفا کردیا۔ افغانستان میں جاری جنگ کا حساب پاکستان کے بے گناہ شہریوں کی دہشت گردی کے ذریعے ہوئی ہلاکتوں کے ذریعے برابر ہوتا رہا۔
بالآخر امریکہ تھک گیا۔ طالبان سے دوحہ میں مذاکرات کے ادوار شروع ہوگئے۔ طالبان کو مذاکرات کی میز پر بٹھانے میں عمران حکومت اور اس کے سرپرست جنرل باجوہ نے اہم ترین کردار ادا کیا۔ طالبان کو مذاکرات کی میز پر بٹھانے کے بعد امریکہ کو ان دونوں کی ضرورت نہ رہی۔ وہ قتدار میں نہ رہے تب بھی پاکستان امریکہ کو کبھی یاد نہیں آیا۔ ہمیں مگر اپنی معیشت کو دیوالیہ سے بچانے کے لئے بارہا امریکہ کو اپنی "قربانیاں" یاد دلانا پڑتی رہیں تانکہ آئی ایم ایف ہمارے لئے "امدادی پیکیج" فراہم کرسکے۔
میں اکثر سوچتا ہوں کہ امریکہ ہمیں بھلائے رکھے تو شاید ہماری کندذہن اور قرضوں کی عادی ہوئی اشرافیہ وطن عزیز کی بقاء کو یقینی بنانے اور اسے خوش حالی کی راہ پر ڈالنے کیلئے کچھ تخلیقی آئیڈیاز سوچنے کو مجبور ہوجائے۔ ہمارے ہمسائے میں لیکن بھارت نام کا ایک ملک بھی ہے۔ جن دنوں امریکہ نے پاکستان کو افغانستان میں "دہشت گردی کے خلاف" جنگ میں الجھایا ہوا تھا تو ان ہی دنوں واشنگٹن میں پالیسی سازوں کے اہم مراکز نے یہ طے کرلیا کہ چین امریکہ کو اقتصادی ہی نہیں بلکہ فوجی اعتبار سے بھی پچھاڑنے کی تیاریاں کررہا ہے۔ چین گویا رواں صدی کا "سوویت یونین" تصور کرلیا گیاہے۔ جسے تھلے لگانے کے لئے اتحادیوں کی ضرورت تھی اور بھارت اپنی آبادی اور چین کے ساتھ کشیدہ تعلقات کی وجہ سے اس تناظر میں اہم کردار کا حامل شمار ہوا۔
بھارت کے ساتھ کلنٹن کے ایام میں شروع ہوئی محبت ٹرمپ کے پہلے دور اقتدار میں جوبن تک پہنچ چکی ہے۔ ٹرمپ اب 20جنوری 2025ء کے دن وائٹ ہائوس لوٹ رہا ہے۔ اقتدار سنبھالنے سے قبل وہ اپنے معاونین کی جو ٹیم تیار کررہا ہے اس کے اراکین کے بارے میں عمران خان کی محبت اور نفرت میں الجھے "ذہن سازوں" نے ہماری رہ نمائی کی کبھی کوشش ہی نہیں کی۔ بھارتی میڈیا کے "ذہن ساز" مگر ان کی اہمیت کا درست اندازہ لگاتے ہوئے ایسی کہانیاں بیان کرنا شروع ہوگئے ہیں جو پاکستان کو "دہشت گردی" کا مرکز ثابت کرنے کی مہم چلانے کے مترادف ہیں۔
بھارت کی ایک مشہور ویب سائٹ ہے۔ "پرنٹ" اس کا نام ہے۔ سفارتی حلقوں میں اسے بہت معتبر گردانا جاتا ہے۔ بدھ کے دن اس میں پراوین سوامی نے ایک "خبر" لکھی ہے۔ پراوین سوامی ایک "پہنچا" ہوا صحافی ہے۔ بھارت کی نام نہاد "ڈیپ سٹیٹ" کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہتا ہے۔ پراوین نے سنسنی پھیلاتی خبر میں یہ دعویٰ کیا کہ ایک کالعدم تنظیم کے بانی مولانا مسعود اظہر تقریباََ دو دہائیوں کی روپوشی کے بعد "اچانک" منظر عام پر آگئے ہیں۔ موصوف نے چند روز قبل اپنے "ہزاروں" پرستاروں سے خطاب کیا۔ یہ خطاب کہاں اور کس دن ہوا اس کے بارے میں پراوین خود بے خبر تھا۔ "انڈین انٹیلی جنس" کے افسر سے رابطے کے بعد بہاولپور کے ایک مدرسے کا ذکر کیا۔ پراوین کی مہربانی کہ اس نے صحافیانہ اخلاقیات کے تقاضوں کے مطابق اپنے "ذریعے" کا ذکر کردیا۔
مسعود اظہر کی دو دہائیوں تک خاموشی کے بعد "اچانک" رونمائی کا جو سنسنی خیزدعویٰ ہوا اس کا اصل مقصد تاہم ٹرمپ کی قیادت میں جنوری 2025ء کے دوران قائم ہونے والی حکومت کو یہ پیغام پہنچایا تھا کہ پاکستان مبینہ طورپر بھارت میں "دہشت گردی" پھیلانے کی تیاری کررہا ہے۔ یاد رہے کہ ٹرمپ نے وزارت خارجہ کے لئے جس شخص کو نامزد کیا ہے نام ہے اس کا مارکوروبیو۔ یہ چین کا کٹر دشمن اور بھارت کا دل وجان سے حامی ہے۔ امریکی پارلیمان کا رکن ہوتے ہوئے اس نے ایک قانون منظور کروانے کی کوشش کی جس کی بدولت امریکہ کو اس امر پر پابند کرنے کی کوشش ہوئی کہ جیسے ہی بھارت میں "دہشت گردی" کا کوئی واقعہ ہو اور اس کا پاکستان سے "تعلق" چاہے بادی النظر ہی سہی محسوس ہو تو پاکستان پر فی الفور کڑی اقتصادی پابندیاں عائد کردی جائیں۔ فقط اس پہلو کو ذہن میں رکھتے ہوئے پراوین کی لکھی کہانی پر غور کرلیں۔