بلھے شاہ کو "بہنیں اور بھرجائیاں" سمجھایاکرتی تھیں کہ اپنے مرشد کی سنگت چھوڑ دو۔ گزشتہ کئی ہفتوں سے ایسے مشورے تحریک انصاف کی جانب سے 2018ءکے انتخابات کے بعد ایوان صدر میں بٹھائے عارف علوی کو بھی دئیے جارہے ہیں۔ فرق مگر اتنا ہے کہ علوی کو سمجھانے والے "بہنیں اور بھرجائیاں" نہیں ہیں۔ ایک مرتبہ تو ہماری ریاست کے طاقت ور ترین اداروں کے دوسربراہان کو ان سے ملاقات بھی کرنا پڑی تھی۔ جو ملاقات ہوئی اس کاعلم ہمیں ریگولر میڈیا کے توسط سے نہیں ہوا تھا۔ چند یوٹیوبرز ہی نے یہ خبر پھوڑنے کی ہمت دکھائی۔
مذکورہ "خبر" کی چونکہ تردید نہیں ہوئی اس لئے مجھ جیسا سادہ لوح چند یوٹیوبرز کی دی اس اطلاع کو بھی درست تسلیم کرنے کو مجبور محسوس کررہا ہے کہ جس ملاقات کا ذکر ہورہا ہے اس کے دوران عارف علوی کو "بس بھئی بس" والا پیغام دیا گیا تھا۔ آئینی اعتبار سے ان کی معیادِ ملازمت ویسے بھی اب 9ستمبر کو ختم ہوچکی ہے۔ اب وہ "ڈنگ ٹپاؤ" صدر ہیں۔ ویسے بھی ہمارے تحریری آئین کی وجہ سے وہ بنیادی طورپر "علامتی" اختیارات کے حامل ہیں۔ وزیر عظم اور ان کی کابینہ نہ چاہے تو وہ اپنے دفتر کے کسی چپڑاسی یا مالی کی تنخواہ میں ایک روپے کا اضافہ بھی نہیں کرسکتے۔ انہیں مختلف وزارتوں سے ایوان صدر میں تعیناتی کے لئے سٹاف"ادھار" پر دیا جاتا ہے۔ جو افسران کے دفتر میں تعینات ہوتے ہیں اپنی ترقی کے لئے انہیں"مادر وزارتوں" کی شفقت درکار ہوتی ہے۔
عارف علوی جیسے صدر کی فدویانہ چاکری اب ان کی ضرورت نہیں رہی۔ اپریل 2022ءسے صدر مملکت کے "مرشد" کی حکومت قائم نہیں رہی۔ اب نگہبانوں کے لگائے نگران برسراقتدار ہیں۔ 9ستمبر کے بعد علوی صاحب کو اگر مطالعے کا شوق نہیں تو بیرون ملک نہ سہی اندرون ملک سیرسپاٹوں سے جی بہلایا کریں۔ عارف علوی مگر دیوانوں کی طرح یہ ثابت کرنے کو ڈٹ گئے ہیں وہ ہمارے تحریری آئین کو اپنی ترجیح والی عینک سے پڑھتے ہوئے ملک میں بدستور تھرتھلی مچاسکتے ہیں۔
بدھ کے دن بالآخر انہوں نے چیف الیکشن کمشنر کو ایک اور خط لکھ دیا ہے۔ اس خط کو سرسری طورپر دیکھتے ہوئے بینڈباجہ بارات کے ساتھ "تازہ ترین" پھوڑنے کے عادی میڈیا نے بالآخر "بریکنگ نیوز" کی صورت ہم حامیوں کو اطلاع یہ دی کہ صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان نے "نئے انتخابات کی تاریخ"طے کردی ہے۔ 6نومبر 2023ءکی صبح ہم پولنگ اسٹیشنوں کے باہر لگی قطاروں میں کھڑے ہوکراپنا ووٹ ڈالنے کے منتظر ہوں گے۔
"بریکنگ نیوز" جب پھوڑ دی جائے تو اس کے مضمرات اور جزئیات بیان کرنے کے لئے ماہرین قانون اور "سینئر تبصرہ نگاروں اور صحافیوں" کا ایک مخصوص گروہ سکرینوں پر نمودار ہوجاتا ہے۔ وہ نہایت سنجیدگی سے ہمیں آئین اور قانون کی باریکیاں فیاض دلی سے سمجھانا شروع ہوجاتے ہیں۔ اپنی ذہانت اور وقت کا معاوضہ بھی طلب نہیں کرتے۔ میری خوش بختی کہ جب سے عمران حکومت کا خاتمہ ہوا ہے مجھے بھی "سینئر صحافی اور تبصرہ نگار" تسلیم کرلیا گیا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اقتدار سنبھالتے ہی سابقہ حکومت نے مجھے ٹی وی اداروں پر مالی بوجھ ٹھہراکر فارغ کروادیا تھا۔ آزادی اظہار کے اس تاریخی موسم میں پیمرا قوانین کے تحت چلایا کوئی ٹیلی وژن میری صورت اپنی سکرین پر دکھانے کا متحمل ہی نہیں ہوسکتا تھا۔
بہرحال مجھ "سینئر صحافی" سے رجوع ہوا تو آئین اور قانون کی مبادیات سے نابلد ہوتے ہوئے بھی عارف علوی کے لکھے خط کا متن نہایت غور سے پڑھنے کو مجبور ہوا۔ اردو میری مادری زبان نہیں۔ یہ کالم لکھتے ہوئے اِملا، گرائمر اوربسااوقات تذکیروتانیث کے حوالے سے بھی فاش غلطیوں کا مرتکب ہوتا ہوں۔ علوی صاحب میری دانست میں الیکشن کمیشن کو اردو زبان میں ایک نہایت فصیح خط لکھ سکتے تھے۔ انہوں نے مگر انگریزی میں لکھنے کو ترجیح دی۔ ان کی لکھی یا لکھوائی انگریزی پڑھی تو مجھ جیسا پھوہڑ بھی گرائمر کی بے شمار غلطیاں فی الفور بھانپ گیا۔
عارف علوی کے لکھے یا لکھوائے خط کی فصاحت وبلاغت مگر فی الوقت اہم نہیں۔ کلیدی امریہ حقیقت ہے کہ مذکورہ خط کے ذریعے علوی صاحب نے 6نومبر2023ءکے روز انتخاب کے انعقاد کا اعلان ہرگز نہیں کیا ہے۔ موصوف کا لکھا خط انٹرنیٹ پر میسر ہے۔ اسے ڈاؤن لوڈ کرکے غور سے پڑھتے ہوئے خط کے اختتامی دوپیروں پر آئیں تو آپ کو بآسانی علم ہوجائے گا کہ ایوان صدر کا مکین اپنے "اختیار" کی محدودات جان چکا ہے۔ انہیں جان لینے کے بعد اب الیکشن کمیشن کو حکم نہیں بلکہ "تجویز" دے رہا ہے کہ سیاسی مشاورت سے 6نومبر کے دن انتخاب کروانے کے ضمن میں مشاورت کرلی جائے۔ وہ اگر آمادہ ہوجائیں تو سپریم کورٹ سے استدعا ہوکہ وہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے "ایک ہی دن" انتخاب کی تاریخ طے کردیں۔
علوی نے اپنے "اختیار" کی اوقات جان لینے کے بعد نہایت مکاری سے ڈنگ ٹپاؤ صدر کی حیثیت میں الیکشن کمیشن کو جو خط لکھا ہے اس کا بنیادی مقصد اپنے "مرشد" اور ان کے سادہ لوح اور ثابت قدم حامیوں کو یقین دلانا ہے کہ ایوان صدر میں بیٹھ کر بھی وہ اپنی مادر جماعت یعنی تحریک انصاف کو نہیں بھولے ہیں۔ وہ اس جماعت کو ایک بار پھر اقتدار میں لانے کی خاطر جلد از جلد انتخاب کروانے کے لئے اپنے "اختیارات" استعمال کئے چلے جارہے ہیں۔
تحریک انصاف کو "جھانسہ" دینے کے بعد عارف علوی نے لومڑی کا رویہ اختیار کرتے ہوئے یہ گیم لگانے کی کوشش کی ہے کہ نئے انتخاب کی تاریخ طے کرنے والا قضیہ بالآخر عزت مآب جسٹس فائز عیسی صاحب کی عدالت تک پہنچایا جائے۔ ان سے معلوم کیا جائے کہ اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد "نوے دنوں کے اندر" نئے انتخاب کا انعقاد ضروری ہے یا نہیں۔ نئے چیف جسٹس کی حلف برداری سے قبل انہیں"متنازعہ" بنانے کی گیم لگادی ہے۔