گزشتہ چند دنوں سے اخبارات کی شہ سرخیاں اور ٹی وی چینلوں پر مسلسل چلائے ٹکر یہ اطلاع دے رہے ہیں کہ پاکستان کا سٹاک ایکس چینج ریکارڈ توڑ برق رفتاری کے ساتھ ملک میں سرمایہ کاری کے امکانات اجاگرکررہا ہے۔ میڈیا میں گھسے بدخواہ اور مایوسی پھیلانے کے عادی صحافی مگر اس "مثبت" خبر کو نظرانداز کررہے ہیں۔ میرا شماربھی شاید اس قنوطی گروہ میں ہونا چاہیے۔ یہ سوچنے کے بعد جسم میں خوف کی لہر دوڑ گئی۔
پیر کے دن ایک ٹاسک فورس بنانے کا اعلان ہوا ہے۔ ریاست کی قوت نافذہ کے مظہر چند اداروں اور خفیہ ایجنسیوں کے عہدے داروں پر مشتمل اس کمیٹی کو یہ فریضہ سونپا گیا ہے کہ ریگولر اور سوشل میڈیا پر چھائے ان "ذہن سازوں" کی نشاندہی کرے جنہوں نے 24اور 27نومبر2024ء کے دوران تحریک انصاف کے احتجاجی ہجوم کی اسلام آباد آمد کے دوران "منظم انداز" میں ایسی خبریں پھیلائیں جو ملک کی بدنامی کا باعث ہوئیں۔ ہمارے بارے میں یہ تاثر ابھرا کہ ہم جمہوری ملک نہیں۔ آمرانہ نظام میں جکڑے ہوئے ہیں اور ہمارے عوام بنیادی انسانی حقوق سے یکسر محروم کردئے گئے ہیں۔
ربّ کا صد شکر کہ میں ذاتی طورپر ملکی سیاست کا دیرینہ شاہد ہوتے ہوئے تحریک انصاف کی اس سوچ سے متفق نہیں تھا کہ اسلام آباد پر یلغار کی صورت دھاوا بولنے کے بعد عمران خان کو اڈیالہ جیل سے رہا کروایا جاسکتا ہے۔ 1970ء کی دہائی کے وسط میں ایک پرخلوص محقق جناب حمزہ علوی کی تحریروں سے آشنا ہوا تھا۔ انہوں نے قیام پاکستان کے چند سال بعد اوکاڑہ میں کئی برس گزارنے کے بعد ہمارے زرعی نظام کو سمجھنے کی کوشش کی تھی۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان کے بانی زاہد حسین ان کی علم معیشت پر گرفت سے فائدہ اٹھانا چاہ رہے تھے۔ حمزہ علوی نے مگر خود کو سماجی تحقیق کے لئے وقف کردیا۔ سرمایہ دارانہ نظام کے شدید مخالف تھے۔ اسے انسان دشمن نظام سمجھتے تھے۔ اس نظام سے شدید نفرت کے باوجود مگر اس سوچ پر مرتے دم تک قائم رہے کہ عدم مساوات پر مبنی نظام کی قوت کو سمجھے بنا اس سے محض نعروں کی بدولت نجات حاصل نہیں کی جاسکتی۔
اس کے علاوہ حمزہ علوی اس سوچ پر بھی مصر رہے کہ پاکستان جیسے ممالک کی ریاست "اپنی ترکیب میں خاص ہے"۔ اس کا بنیادی ڈھانچہ انگریزی استعمار نے ہمارے خطے میں غلامانہ سوچ کی آبیاری کے لئے تشکیل دیا تھا۔ نام نہاد "آزادی" کے بعد سامراج کا تشکیل کردہ ڈھانچہ سامراج کی جگہ لینے والے حکمرانوں نے مضبوط تر بنایا۔ اس ضمن میں ریاست کے بنیادی اداروں نے کلیدی کردار ادا کیا۔
سول سروس کے بیورو کریٹ جب ریاستی تسلط کو توانا تر بنانے میں مشکلات کا سامنا کرنا شروع ہوگئے تو پاکستان میں ایوب خان جیسے دیدہ ورپیدا ہوگئے۔ ان کے لگائے مارشل لاء کے بعد سے ریاست کا طاقتور ترین ادارہ جسے "مقتدرہ" پکارا جاتا ہے ریاستی طاقت و اختیار کا حتمی سرچشمہ بن گیا۔ مرتے دم تک حمزہ علوی اپنی تحریروں کے ذریعے یہ سمجھاتے رہے کہ پاکستان کے سیاستدان اور نام نہاد سول سوسائٹی 1947ء کے بعد سے توانا تر ہورہے ریاستی ڈھانچے کی قوت اور وجوہات کو سمجھ ہی نہیں پائے۔ اسے کمزور کرتے ہوئے "سلطانء جمہور" کی جانب بڑھنا تو بہت دور کی بات ہے۔
حمزہ علوی کے حوالے سے خود کو دانشورثابت کرنے میں وقت ضائع کرنے کے بجائے اعتراف محض یہ کرنا ہے کہ فی الوقت مجھے امید ہے کہ پیر کے دن تشکیل دی ٹاسک فورس مجھے اس مبینہ گروہ کا حصہ شمار نہیں کرے گی جو 24اور27نومبر کے درمیان ملک کو "فیک نیوز" پھیلاتے ہوئے بدنام کرتا رہا۔ اس امید کے اظہار کے بعد جان کی امان پاتے ہوئے یہ بیان کرنا چاہتا ہوں کہ آج سے چند برس قبل بھارت کے ایک بنگالی ماہر معیشت کو اس کی فرانسیسی دوست کے ساتھ نوبل انعام ملا تھا۔ ان دونوں نے طویل تحقیق کے بعد معیشت کے کئی نئے پہلو دریافت کئے تھے۔ علم معیشت کی مبادیات سے نابلد ہونے کے باوجود میں نے ان کی لکھی کتاب کو ایک سے زیادہ بار نہایت توجہ سے سمجھنے کی کوشش کی۔ ان کی لکھی کتاب کے ایک باب نے کئی ٹھوس مثالوں کے ذریعے یہ ثابت کیا کہ سٹاک ایکس چینج کا اتار چڑھائو کسی معاشرے کی خوش حالی کا کلیدی مظہر نہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ "فیل گڈ فیکٹر Feel Good Factor"نامی اصطلاح بھی سن رکھی ہے۔
مثال کے طورپر ٹھوس اعدادوشمار یہ بتاتے ہیں کہ جوبائیڈن کے چار سالہ دور اقتدار میں افراطِ زر میں نمایاں کمی آئی۔ کرونا سے متاثر معیشت کی بحالی کے لئے اس نے ٹھوس اقدامات لئے۔ طالب علموں کو اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے نسبتاََ آسان شرائط پر قرض فراہم کرنے کے راستے بنائے۔ اس کے علاوہ اس نے ایسے کاروبار فروغ دینے کے لئے حکومتی سرپرستی کا بندوبست بھی کیا جو ماحول دوست ہوں گے۔
ٹھوس اعدادوشمار کی بدولت ثابت ہوئے "مثبت" اقدامات کے باوجود بائیڈن کو صدارتی انتخاب سے تین ماہ قبل شرمناک انداز میں دست بردار ہونا پڑا۔ اپنی جگہ انہوں نے کملاہیرس کو نامزد کردیا اور ڈیموکریٹ جماعت کو ٹرمپ اور اس کے حامیوں کے ہاتھوں تاریخی شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ بنیادی وجہ اس کی یہ تھی کہ وہ امریکی عوام کی اکثریت کے دلوں میں "فیل گڈ موڈ" نہ پیدا کرپائے۔ مذکورہ اصطلاح کا سادہ اردو ترجمہ میرے ناقص ذہن کے بس سے باہر ہے۔ کسی حکومت کا عوام کے دلوں میں اچھایا برا لگنا شاید اس کا قریب تر ترجمہ یا وضاحت ہوسکتے ہیں۔
اس تصور کو بنیاد بنائوں تو موجودہ حکومت اپریل 2022ء ہی سے خلق خدا کے دلوں میں "فیل گڈ موڈ" پیدا کرنے میں مسلسل ناکام ہورہی ہے۔ ایسے حالات میں سٹاک ایکس چینج کی برق رفتار اور ریکارڈ توڑ بڑھوتی بھی کسی کام نہیں آرہی۔ ایک اور حوالے سے سوچیں تو یہ کام آبھی نہیں سکتی۔ مثال کے طورپر جب سینہ پھلاکر سٹاک ایکس چینج کی برق رفتار ترقی کے ڈھول بجائے جارہے تھے تو پٹرول کے ایک لیٹر قیمت میں 3روپے کے قریب اضافے کا اعلان ہوگیا۔
میرے اور آپ جیسے لاکھوں گھرانوں کی محدود آمدنی مگر اسی مقام پر کھڑی ہے جہاں 2022ء کے اپریل میں تھی۔ اس محدود آمدنی کے سقوط کے بعد سٹاک ایکس چینج کی برق رفتار بڑھوتی مجھے اور آپ کو خوش کرنے کے بجائے مزید ناشاد بنادے گی۔