بہارو بیگم، بازار حسن لاہور میں رہنے والی ایک مغینہ اور رقاصہ تھی۔ وہ جب محو رقص ہوتی، تو دیکھنے والے مبہوت ہو جاتے تھے۔ یہ برصغیر کی تقسیم سے پہلے کی بات ہے۔ بہاروبیگم کا لائف اسٹائل مغل شہزادیوں جیسا تھا۔ وہ بے پناہ دولت، سونا اور ہیرے، جواہرات کی مالک تھی، وہ جسم فروش نہیں بلکہ فنکارہ تھی، گائیکی اور رقص کرنا، اس کا پروفیشن تھا۔ لیکن یہ اس کا ظاہری پہلوتھا، جب کہ باطنی طور پر وہ انتہائی ہمدرد، نیک سیرت اور اعلیٰ کردار والی خاتون تھی۔ بہارو بیگم لاہور میں نیاز بیگ گاؤں کی رہنے والی تھی۔ جسے اب ٹھوکر نیاز بیگ کہا جاتا ہے۔
اب تو یہ علاقہ لاہور شہر کا حصہ بن چکا ہے لیکن قیام پاکستان سے قبل یہ اندرون شہر سے دور ایک گاؤں ہوا کرتا تھا۔ بہارو بیگم دو ہفتے بعد اپنے گاؤں جاتی تھی، یہ اس کی روٹین تھی۔ گاؤں والے اس کی آمد کے منتظر رہتے، وہ گاؤں پہنچتی تو دیہاتی اس کے لیے رنگین چارپائیاں بچھاتے تھے، ایسی چارپائیاں خاص اور قابل احترام مہمانوں کے لیے بچھائی جاتی تھیں، اس عزت و احترام کی وجہ بہارو بیگم کی اپنے گاؤں اور گاؤں کے لوگوں سے محبت اور فیاضی تھی۔ بہارو بیگم گاؤں میں غریب لوگوں کی کھلے دل سے امداد کیاکرتی تھی۔ کھانے پینے کا سامان، علاج، دوائیاں، کپڑے، شادی بیاہ کے اخراجات وغیرہ، اپنی گرہ خاص سے خرچ کرتی تھی۔
بہارو بیگم کے آگے پیچھے کوئی بھی نہیں تھا۔ اس نے زندگی بھر شادی نہیں کی۔ خدا نے اس مغنیہ کے دل میں لوگوں کے لیے ہمدردی اور محبت کا جذبہ پیدا کردیا تھا۔ ایک دن حسب معمول، گاؤں میں بیٹھی تھی اور غور سے اپنے اردگرد بچوں کو دیکھ رہی تھی۔ معصوم بچے دنیا کی مشکلات سے بے نیاز ہو کر کھیلنے اور ہنسنے میں مصروف تھے۔ بہارو بیگم نے دیکھا کہ ایک بچہ لمبا سا کرتا پہنے سب سے زیادہ قلابازیاں لگانے میں مصروف ہے۔ اس نے بچے کو پاس بلایا اور استفسار کیا کہ بیٹا تم کون ہو؟ بچہ رونے لگا کیونکہ وہ یتیم تھا۔
پتہ نہیں بہارو بیگم کے دل میں کیا بات آئی کہ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اس بچے کو اپنے ساتھ شہر لے کر جائے گی، اس کی تعلیم و تربیت کے تمام اخراجات خود ادا کرے گی۔ بچے کی والدہ نے اجازت دے دی۔ شرط صرف یہ کہ اس کے گھر آنے جانے پر کوئی پابندی نہیں ہوگی۔ بہاروبیگم نے یہ شرط منظور کر لی اوروہ بچہ بازار حسن میں منتقل ہوگیا، اس کا نام رحیم خان تھا۔
مغینہ نے بچے کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دی۔ بچے میں ایک خدادادصلاحیت تھی کہ وہ بہترین کہانیاں انتہائی آسانی سے لکھ لیتا تھا۔ وقت گزرتا گیا، رحیم جوان ہوگیا، اس دوران بہارو بیگم دنیا سے رخصت ہوگئی۔ مرنے سے پہلے اس نے اپنی ساری دولت غریب لوگوں کے لیے وقف کر دی۔ بہارو بیگم کو لاہور کے مقامی قبرستان میں دفن کیاگیا۔
ایک دن ایک شخص قبر کے نزدیک سے گزرا تو اسے بہترین خوشبوؤں کی لٹیں محسوس ہوئیں۔ خوشبو اس قدر مسحور کن تھی کہ اس شخص کے پاؤں وہیں تھم گئے۔ گورکن کے پاس گیا اور پوچھا کہ یہ کس کی قبر ہے۔ صرف یہ پتا چلا کہ یہ بازار حسن میں رہنے والی ایک رقاصہ کی آخری قیام گاہ ہے۔ وہ شخص، چند دن کے بعد بازار حسن پہنچا اور اس خاتون کے بارے میں معلومات حاصل کیں۔ اسے پتہ چلا کہ یہ بہارو بیگم کی قبر ہے۔
لوگوں نے اس اجنبی شخص کو بہارو بیگم کی سخاوت اور غریب پروری کے متعلق بتایا۔ یہاں تک معلوم ہوا کہ اس سے پہلے اور بعد میں، کسی بھی انسان نے غریبوں کے لیے اتنی آسانیاں پیدا نہیں کیں۔ بہارو بیگم کو بہارو مشین بھی کہا جاتا تھا۔ کیونکہ اس وقت گراموفون نئے نئے آئے تھے۔ ریکارڈ سننے کے لیے ہر بار سوئی تبدیل کرنی پڑتی تھی۔ لاہور شہر میں، بہاروبیگم نے سب سے پہلے یہ گرامو فون خریدا تھا۔ اور اس پر لگائے گیتوں پر رقص کیاکرتی تھی۔ لوگوں میں اس کا نام بہارو مشین مشہور ہوگیا۔ اصل نکتے کی طرف واپس آتا ہوں۔
اجنبی شخص بازار حسن سے لوگوں کو لے کر جب قبرستان پہنچا اور خوشبو کے متعلق بتایا تو لوگوں کو یقین نہ آیا۔ مگر جب وہ قبر پر پہنچے تو بہترین خوشبو ان کی منتظر تھی۔ خدا کے ایک نیک بندے نے کھل کر بتایا کہ خوشبو کی اصل وجہ، مغنیہ کی وہ غریب پروری ہے جس کی بدولت اس نے غربت میں پسے ہوئے لوگوں کی قسمت کو بدل دیا۔ بزرگ نے یہ بھی فرمایا کہ یہ بندی، حقوق العباد پورے کرتے ہوئے، خدا کے اتنے قریب ہوگئی کہ اللہ نے اس وصف کی بدولت مرنے کے بعد اس کی قبر کو خوشبوؤں سے لبریز کر دیا۔
رحیم خان لکھنے پڑھنے کا ماہر ہو چکا تھا اور فاتحہ کے لیے بہارومشین کی قبر پر جاتا رہتا تھا۔ ایک دن اس نے فلمیں لکھنے کا فیصلہ کیا۔ رحیم خان کو کسی نے ملنگی نام کے ایک ڈاکو کے متعلق بتایا جو پنجاب میں ساہوکاروں اور ظالم جاگیرداروں کو لوٹتا تھا اور پیسہ غریبوں میں تقسیم کر دیتا تھا۔ رحیم خان کو بتایا گیا کہ اس کا ایک عینی شاہد مکھن کوچوان ہے جو ساہیوال میں ٹانگہ چلاتا ہے۔
رحیم خان بڑی سرعت سے ساہیوال پہنچا۔ مکھن کوچوان کو تلاش کیا اور ملنگی کے متعلق معلومات حاصل کی۔ مکھن کوچوان، ملنگی کا دست راست تھا اور اس نے پنجابی رابن ہڈ ملنگی کے بارے میں تمام حقائق رحیم خان کو بتائے۔ اس کے بعد رحیم خان نے شہرہ آفاق پنجابی فلم ملنگی تحریر کی۔ فلم مکمل ہونے کے بعد رحیم خان کچھ عرصے کے لیے کسی اور شہر میں چلا گیا، تو فلم ساز و ہدایت کار کو مصنف کا پورا نام معلوم نہیں تھا۔ البتہ انھیں یہ معلوم تھا کہ "کام سکہ بند ہونا چاہیے" اس کا تکیہ کلام تھا، یوں فلمساز نے کہانی نویس کا نام سکیدار لکھوا دیا۔
رحیم خان اب سکیدار بن کر فلمیں لکھتا تھا، اس نے فلموں میں اداکاری بھی کی۔ فلم ملنگی میں سکیدار نے، ہندو بنیے کا لازوال کردار ادا کیا۔ ملنگی وہ پہلی پنجابی فلم تھی جس نے شہرت کے جھنڈے گاڑ دیے۔ اس میں کام کرنے والے اداکارؤں کی قسمت بدل گئی۔ فلم کی باز گشت آج بھی سنائی دیتی ہے، اس کے لکھے ہوئے گانے اور موسیقی عوام کی زبان پر اس طرح چڑھے کہ آج تک اس کا کوئی ثانی نہیں۔ سکیدار اب ایک امیر آدمی تھا۔ وہ مرتے دم تک بہارو بیگم کے احسانات کو یاد کرتا رہا۔ یہ سچا واقعہ آج بھی پنجاب کی تاریخ میں موجود ہے۔
بہارو بیگم کی قبر کی خوشبو اور اس کی حقوق العباد سے محبت انسانی فکر کو ایک عجیب دنیا میں لے جاتی ہے۔ خدائے بزرگ و برتر نے اپنے لیے مختص عبادات پر بھرپور زور دیا ہے۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کی طرف بھی حد درجہ احکامات صادر فرمائے۔ دین پر گہری نظر رکھنے والے لوگ حقوق اللہ اور حقوق العباد کے توازن پر بھرپور توجہ فرماتے ہیں۔
مجھے ایسا لگتا ہے کہ خداوند کریم اپنے بندوں کے لیے آسانیاں پیدا کرنے والے کو ہمیشہ پسند کرتا ہے۔ لوگوں کی مدد کرنا، ان کا خیال رکھنا اور ان کے چہروں پر سکون اور مسکراہٹ بکھیرنا، اسلامی تعلیمات کے عین مطابق ہے۔
اکثر اوقات ہم عبادات میں مصروف ہو کر، خدا کے بندوں کو بھول جاتے ہیں۔ پارسائی کے احساس برتری میں مبتلا لوگ صرف ناصح بن کر رہ جاتے ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ پارسائی کا پہلا زینہ حقوق العباد کا خیال رکھنا ہے۔ دوسروں کے کام آنے والے انسان ہمیشہ سکھی اور شاداب دکھائی دیتے ہیں اور یہی بخشش کا سادہ ترین راستہ بھی ہے۔ ہمار معاشرہ، غریب لوگوں کے لیے مشکلات پیدا کرنے کی بنیاد پر کھڑا ہوا ہے۔ آسانیاں پیدا کرنے کا رجحان خال خال ہی نظر آتا ہے۔ اس مثبت رجحان کو محنت سے اپنانا انسانی زندگی کا جوہر ہے۔ جس سے بہر حال ہم لوگ ہزاروں نوری سال دور ہیں!