برصغیر میں اقتدار کے طور طریقے ہمیشہ سے حد درجہ مشکل رہے ہیں۔ کسی قسم کا ٹھوس طریقہ وجود میں نہیں آسکا، جس کے ذریعے کسی بھی شخص کو حق حکمرانی سونپ دیا جائے۔ ہندوستان نے اس روش کو تبدیل کرنے کی کوشش کی ہے۔ وہاں ادارے تو فعال ہیں۔ مگرالیکشن کی تمام علتیں بدرجہ اتم موجود ہیں۔
بہر حال انڈیا نے، اس نازک معاملہ کو ووٹ کے ذریعے حل کرنے کی کامیاب کوشش ضرور کی ہے۔ ہمارے ملک، بنگلہ دیش، افغانستان اور دیگر علاقائی ریاستوں میں آج بھی صدارت یا وزارت عظمیٰ کا تاج ان لوگوں کو پہنایا جاتا ہے، جو دنیاوی لحاظ سے حد درجہ مضبوط اور اکثر حالات میں اپنے سماج کے رئیس ترین لوگ ہوتے ہیں۔ طالب علم کی حیثیت سے جذباتیت سے بہت متضاد سمت میں نکل چکا ہوں۔
اب میں صرف اور صرف دلیل پر اپنی گزارشات پیش کرتا ہوں۔ ہمارے خطے کے مسائل بلکہ ذہنی مسائل دنیا سے حد درجہ مختلف ہیں۔ اگر آپ مغربی دنیا سے موازنہ کریں تو جو امور وہاں حد درجہ اہمیت کے حامل ہیں۔ ان سے ہمارا دوردور کا تعلق نہیں۔ مذہبی اور فکری آزادی، انسانی حقوق کی بالادستی، قانون کی حکمرانی، عدل اور انصاف سے بھرپور معاشرہ، یہ سب کچھ معاملات ہماری کتابوں میں تو بلاشبہ درج ہیں۔
زبانی جمع خرچ بھی ان معاملات پر ہوتی رہتی ہے۔ مگر عملی طور پر ہم ان جملوں اور فکری اپچ سے مکمل طور پر باہر ہیں۔ دراصل مغرب نے یہ سب کچھ لازوال قربانیوں کے بعد حاصل کیا ہے۔ کمال سچ یہ ہے کہ ان کے مفکروں نے، عوامی سوچ کو جدید ترین اصولوں سے مزین کر دیا۔
اس کے برعکس ہمارے خطے میں ایسے بلند پایہ مفکر پیدا ہی نہیں ہو پائے۔ جنھیں عوامی پذیرائی حاصل ہوئی ہو۔ مذہبی تفریق نے ایک شخصیت کو ہیرو قرار دیا۔ تو اسی سے جدا عقائد رکھنے والوں کے لیے وہ معتوب قرار دیا گیا۔ ہمارے خطے میں مذہب اور سیاست کی جو تاویل پیش کی جاتی ہے۔ وہ مغربی دنیا سے بالکل میل نہیں کھاتی۔
تاریخی تناظر میں جب بھی اقتدار کی بساط کو دیکھتا ہوں۔ تو صرف ایک نکتہ سامنے آتا ہے۔ خطے اور بالخصوص ہمارے ملک میں کمزور حکمران کو کبھی بھی پذیرائی نصیب نہیں ہوئی۔ تاریخ کی کوئی کتاب اٹھا لیجیے۔ جیسے ہی کوئی سلطان، بادشاہ یا راجہ، ضعف میں گیا تو بہت تھوڑے عرصے میں اسے اقتدار سے الگ کر دیاگیا۔
اس میں مسلمان، ہندو یا بدھ مت کے حکمرانوں میں رتی برابر بھی فرق نہیں۔ اگر مغل شہنشاہ اورنگ زیب پچاس برس جنگوں میں مصروف رہنے کی بدولت ریاست کو کمزور کر گیا۔ تو اس کے بعد کوئی بھی مغل بادشاہ، اپنے تخت کو محفوظ نہیں رکھ سکا۔ پنجاب میں قائم ریاستوں کو دیکھیے۔ رنجیت سنگھ سب سے طاقتور حکمران نظر آتا ہے۔
اس کی حکومت نہ صرف پنجاب میں تھی۔ بلکہ موجودہ کے پی اس کی طاقت کے سامنے سرنگوں ہو چکا تھا۔ رنجیت سنگھ کی وفات کے بعد، اس کی سطح کے مضبوط حکمران نہ آ سکے۔ اس کا منطقی نتیجہ، ایسٹ انڈیا کمپنی کا پنجاب کو فتح کرنا بن گیا۔ ہمارے خطے میں اگر حکمران جاہ و جلال، تمکنت، دولت اور قوت میں کمزور ہو۔ تو لوگ اس کی پرواہ نہیں کرتے۔ بلکہ وہ باعث تمسخر بن جاتا ہے۔ بہت تھوڑے عرصے میں لوگ اسے فارغ کر دیتے ہیں۔
اس حقیقت کو منفی یا مثبت طور سے نہیں پرکھ رہا۔ صرف زمینی حقائق کے حساب سے آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔ پاکستان کی چند مثالیں سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔ تاکہ میرے قاری کسی مغالطے کا شکار نہ ہوں۔ معراج خالد صاحب حد درجہ معقول اور ٹھنڈے مزاج کے انسان تھے۔
سیاسی رواداری، سادگی اور شائستگی سے بھرپور شخص۔ بطور سیاسی کارکن انھیں ہر وہ عہدہ دیا گیا جو ذوالفقار علی بھٹو کے مزاج پر پورا اترا۔ لوگوں کو شاید اب یاد بھی نہ ہو کہ محترم معراج خالد، کیئرٹیکر وزیراعظم بھی رہے۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ بھی رہے مگر جب بھی الیکشن لڑا تو کامیابی کی دیوی اکثر اوقات ان سے مضطرب ہی رہی۔ لوگوں کے ذہنوں میں پنجاب کے حکمران کے طور پر ملک امیر محمد خان کا جابرانہ اور سخت گیر رویہ آج تک محفوظ ہے۔ مگر معراج خالد صاحب کے دور کا کوئی ذکر ہی نہیں کرتا۔ آپ کو ملک امیر محمد خان کی گورنرشپ کا دور کامیاب نظر آئے گا۔
لوگوں کا عمومی رویہ ہی یہی ہے کہ وہ طاقتور کی چوکھٹ پر تو جھکتے ہیں۔ مگر اسی عہدے پر ایک "شریف" حکمران سے متاثر نہیں ہوتے۔ دوسری مثال لیجیے۔ غلام حیدر وائیں کافی عرصے تک وزیراعلیٰ پنجاب رہے۔ یہ اور معاملہ ہے کہ اس وقت بھی اصل حکومت، آل شریف ہی کی تھی۔
اہم ترین تعیناتیوں پر وائیں صاحب کا کوئی اختیار نہیں تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ وائیں صاحب حد درجہ ایماندار اور سادہ طبیعت کے مالک تھے۔ مگر آج ان کے دور کو کوئی یاد نہیں کرتا۔ اس کے بالکل برعکس شہباز شریف بطور وزیراعلیٰ حد درجہ پذیرائی کے حامل رہے۔ آج بھی ان کی وزارت اعلیٰ بہتر طرز حکومت کے طور پر یاد رکھی جاتی ہے۔
قصہ کوتاہ یہ کہ پاکستان، بلکہ پنجاب میں وہی حکمران کامیاب گردانا جاتا ہے جو حسب نسب سے لے کر طاقت کے دھارے پر سوار ہو کر وزیراعلیٰ بنے۔ اگر زیادہ پذیرائی ملے تو وزیراعظم بھی بن سکتا ہے۔
اگر اس حقیقت پسندانہ پیمانہ کے مطابق دیکھا جائے تو محترمہ مریم نواز شریف، پنجاب بلکہ پورے ملک کے دیگر وزراء اعلیٰ سے حد درجہ کامیاب ہوتی نظر آتی ہیں۔ آج تک مریم بی بی سے ملاقات نہیں ہوئی۔ مگر نظر آ رہا ہے کہ سب سے بڑے صوبے پر ان کی گرفت نہ صرف مضبوط سے مضبوط تر ہوگی بلکہ انھیں دیگر وزراء اعلیٰ سے زیادہ پذیرائی بھی ملے گی۔ وجوہات سادہ سی ہیں۔ ان کا تعلق ملک کے امیر ترین اور طاقتور ترین خاندان سے ہے۔
انتقال اقتدار کے بعد مریم بی بی بہر صورت حق حکمرانی کو خوب نباہ رہی ہیں۔ اس کی دیگر وجوہات بھی ہیں۔ محترم نواز شریف کی پنجاب کی بیورو کریسی پر گرفت آج بھی مضبوط ہے۔ مطلب یہ کہ مریم بی بی کو پنجاب کی طاقتور افسر شاہی سے بھرپور تعاون ملے گا۔
بڑے میاں صاحب کی بدولت بڑے سے بڑا افسر بھی مریم بی بی کی حکم عدولی کرنے کا سوچ بھی نہیں سکے گا۔ اس کے علاوہ نواز شریف کے تمام معتمد خاص موجودہ وزیراعلیٰ کی رہنمائی کے لیے موجود ہونگے۔ یعنی انتظامی امور کے علاوہ سیاسی امور پر بھی مریم بی بی کی دسترس بھرپور ہوگی۔
چند دن پہلے طالب علم نے ایک ٹویٹ کیا کہ محترمہ مریم بہتر اور طاقتور وزیراعلیٰ ثابت ہوں گی۔ تو محیر العقول قسم کے ردعمل کا سامنا کرنا پڑا۔ اکثر لوگوں نے مجھ سے برملا اختلاف کیا۔ یہ سب کچھ بالکل معیوب نہیں لگا۔ کیونکہ ہر انسان کی اپنی سوچ ہوتی ہے۔ اور اسے اپنی رائے کو سامنے لانے کی مکمل آزادی ہوتی ہے۔ مگر میری معروضات کی بنیادی وجہ پنجاب کی تاریخ، سیاسی کلچر اور معروضی حالات کے مطابق تھی اور ہے۔
جیسے پہلے عرض کی کہ جذباتیت سے بہت دور جا چکا ہوں۔ دراصل ہم حد درجہ خیالی دنیا میں رہتے ہیں۔ ہم، سیاست میں اخلاقی دیو تلاش کرتے ہیں۔ یہ نہیں سمجھتے کہ یہ دنیا خواہشات کے تابع نہیں ہے یہ ٹھوس اور تلخ بنیادوں پر چلتی ہے۔ سیاست دانوں میں کوئی بھی فرشتہ نہیں ہے۔
مگر اب ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم ہر دنیاوی رہنما کو یا تو دیوتا تسلیم کر لیتے ہیں یا اسے شیطان بنا دیتے ہیں۔ پر بھول جاتے ہیں کہ سیاست کی دنیا میں نہ کوئی اوتار ہے اور نہ کوئی ملعون۔ یہ صرف اور صرف اسباب کی دنیا ہے۔ ہاں تاریخی لوریاں سنانے والے بہت ہیں۔ مگر وہ صرف اور صرف داستان گو کی حیثیت رکھتے ہیں۔
اگر ان کی سنائی ہوئی تاریخی مقدس کہانیوں کو سچ کی کسوٹی پر پرکھا جائے تو ان کی باتوں میں حد درجہ مبالغہ آرائی محسوس ہوتی ہے۔ مگر کیونکہ ہمارا معاشرہ ایک تنگ نظر سماج ہے۔
اس لیے جھوٹی سچی کہانیوں کو برملا غلط کہنے سے ذاتی مسائل شروع ہو جاتے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہمیں تاریخی حقائق بھی توڑ مروڑ کر بتائے گئے ہیں۔ پورے نظام میں آزادیِ فکر کو جان بوجھ کر بنجر کیا گیا ہے۔ بہر حال یہ ایک طویل بحث ہے جس پر کبھی موقع ملا تو ضرور لکھوں گا۔ مگر یہ بات تو دنیاوی سچ ہے، کہ مریم بی بی، پنجاب کی سب سے مضبوط، فعال اور طاقتور وزیراعلیٰ ثابت ہو ںگی۔