Wednesday, 30 October 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Taraqqi Kaise Hogi?

Taraqqi Kaise Hogi?

قرائن حد درجہ مشکل ہیں۔ حکمران طبقے نے ایکا اور تہیہ کرلیا ہے کہ نہ سچ بولنا ہے اورنہ ہی سچ سننا ہے۔ معاشرے کے ایک طبقے نے اپنے آپ کو ریاست سے مکمل طور پر علیحدہ کر لیا ہے۔ انھیں معلوم ہو چکا ہے کہ اس نظام میں عام آدمی کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ یہ بھی یقین ہوگیا ہے کہ ان کی فلاح و بہبود کے لیے کچھ بھی موجود نہیں۔ بالائی طبقہ کی گراؤٹ کا ردعمل اتنا شدید ہے کہ ہر شخص اپنی آگ سلگا کر اپنے آپ کو خود جلا رہا ہے۔

جذباتیت، توہم پرستی، وہم، جبر، لوٹ مار، زندگی گزارنے کا چلن بن چکا ہے۔ ساتھ ساتھ دلیل کے بغیر سوچنا اب ایک وطیرہ بن چکاہے۔ گزشتہ دو چار سالوں میں بڑے بڑے جغادری، فلسفی، منطقی ادارے کھل کر سامنے آ گئے ہیں۔ موجودہ صورت حال کسی بھی معاشرے اور ملک کی گراؤٹ کی وہ انتہا ہے جس کے آگے کچھ بھی موجود نہیں ہے۔

چند دن پہلے بیرون ملک سے واپس آیا ہوں۔ نجی مصروفیت کی وجہ سے دبئی اور لندن جانا پڑا۔ لندن کا ذکر اس لیے نہیں کرنا چاہتا کہ بھلا کافروں سے ہمارا کیا واسطہ؟ ہم تو نیکی اور پارسائی کے وہ بزرجمہر ہیں جنھوں نے پوری دنیا کی امامت کا فرض اداکرنا ہے؟ مگر دبئی کا بتائے بغیر دل آسودہ نہیں ہوتا۔ دو ہفتے پہلے دبئی میں طوفانی بارشیں ہوئی تھیں۔ فقید المثال برسات نے پورے شہر کو تھوڑے عرصے کے لیے غیر فعال کر دیا تھا۔

پاکستان کے سوشل میڈیا پر پانی کی اس تندی کوجس تیکھے انداز میں پیش کیا گیا، اس کی مثال کہیں نہیں ملتی۔ ہمارے ہاں، دبئی میں بارشوں کو قدرت کے انتقام سے براہ راست جوڑ دیا گیا۔ یہاں تک بات کی گئی کہ دبئی میں ایک مندر بننے کی وجہ سے فطرت، اس شہرکے خلاف کام کر رہی ہے۔

یہ بھی کہا گیا کہ مندر کے ایک پروہت نے خواب دیکھا کہ پورا مندر اور دبئی پانی میں ڈوب چکے ہیں اور اس بارش کے بعد، وہ مسلمان ہوگیا۔ مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ یقین فرمائیے کہ صرف تین دن میں دبئی کی انتظامیہ نے حیرت انگیز تیزی سے پورے شہر سے بارش کے پانی کا نام ونشان مٹا ڈالا۔ اس عمل میں ملک نے تقریباً ایک بلین ڈالر خرچ کیے۔ شہریوں کی بھرپور حفاظت کی گئی۔

لوٹ مار تو دورکی بات کسی شہری کے جوتے تک گم نہیں ہوئے۔ صرف چار پانچ دن کی محنت سے پورا شہر دوبارہ چمکناشروع ہوگیا۔ بذات خود ملاحظہ کیا اور پورے شہرمیں کمال صفائی اور ستھرائی دیکھنے کوملی۔ کچرے اور کیچڑ کا ایک ڈھیر تک دیکھنے کو نہیں ملا۔ دو تین دن کی محنت سے انتظامیہ نے پورے دبئی کو ہرطریقے سے صاف ستھرا بنا دیا۔ ان کی حکومت نے کسی بھی غیر ملک کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلائے کہ خدارا ہماری اس عوامی کام میں مدد کیجیے۔

امداد دیجیے یا صفائی کی مشینیں مہیا کریں۔ ایساکچھ بھی نہیں ہوا۔ حکومت بذات خود اس قدر طاقتوراورفعال ہے کہ سارا کام خود سرانجام دیا۔ ویسے موازنہ فرمایئے کہ ہم سیلاب کے بعد گندے پانی کومہینوں تک، سندھ، پنجاب، کے پی اور بلوچستان سے مکمل طور پر باہر نکال نہیں پائے۔ حقیقت میں ہمارے حکمران صرف اور صرف جھوٹ اور مبالغہ آرائی پر انحصار کرتے ہیں۔ نتیجہ بالکل فطری ہے۔ پورا ملک بربادی کی المناک داستان بن چکا ہے۔

واقف حال جانتے ہیں کہ معاشی طور پر پاکستان سرنگوں ہو چکا ہے۔ اسے کسی غیر ملکی طاقت نے نہیں بلکہ اپنوں نے اس حال پر پہنچایا ہے۔ پی ڈی ایمi، عبوری حکومتیں اور پی ڈی ایم ii، ہماری تنزلی کے دکھ بھرے نشان ہیں۔ مگر اب واپسی ناممکن ہے کیونکہ معاملہ ہر ایک کے ہاتھ سے نکل چکا ہے۔

موجودہ حالات میں جو کمیٹی سرمایہ کاری کے فروغ کے لیے بنائی گئی ہے، اس کی وہ استطاعت ہی نہیں کہ بیرونی اور اندرونی سرمایہ دار کو اعتماد بخشے کہ وہ اپنی دولت پاکستان میں لگانا شروع کردیں۔ بلکہ سب کومعلوم ہے کہ ہمارے بالائی طبقے کے تمام پیسے ملک سے باہر محفوظ مقامات پر موجود ہیں۔

اس کمزوری کا حل سعودی عرب اور چند دیگر مشرق وسطی کے ممالک کی مبینہ خطیر سرمایہ کاری کے ریاستی پروپیگنڈے کی صورت میں کیا جا رہا ہے۔ چلیے، بغیر تعصب کے اس تمام منظر نامے پر نظر ڈالیے۔ ایک ملک بتا دیجیے۔ جو ہمارے جیسی معاشی تنزلی پر ہو، اور بیرون ممالک وہاں سرمایہ کاری کرنے کی جرأت کریں۔ سرمایہ کاری تو صرف وہاں ممکن ہے جہاں لوگوں کی دولت، عزت اور کارخانوں کو تحفظ ہو۔ یہاں تو ہر کامیاب کاروباری شخص، نیب کے ریڈار پر ہے۔ افسر شاہی گروہ بندی کا شکار ہے۔ خان صاحب ویسے ہی پیدل تھے۔

لہٰذا، ہمارے بابوؤں نے انھیں خوب بے وقوف بنایا اور خان صاحب بڑی آسانی سے ان کا شکار بنتے رہے۔ ویسے اب خان صاحب اپنی ناپختگی کی بدولت پابند سلاسل ہیں۔ بربادی کی ایک بہت بڑی وجہ بجلی بنانے کے کارخانوں کی سرکاری سرپرستی ہے۔ خود فرمائیے کہ بجلی کے ایک یونٹ کا نرخ ساٹھ روپے کا بنتا ہے۔

یہی یونٹ ہندوستان میں پانچ سے آٹھ روپے کا ہے۔ بنگلہ دیش میں سات ٹکہ کا ہے۔ ہمارے ملک میں اس بجلی کے ہوشربا نرخ کے ساتھ کون بزرجمہر انڈسٹری لگائے گا یا چلائے گا۔ ویسے موجودہ حکمران سالہاسال سے فرما رہے ہیں کہ انھوں نے ملک میں بجلی کے متعدد کارخانے لگائے۔ ان سے جب یہ پوچھا جاتا ہے کہ ان کی اس کاوش کی بدولت پاکستان میں بجلی کے نرخ دنیا میں مہنگے ترین کیوں ہیں تو وہ خاموش ہو جاتے ہیں۔

موجودہ حالات میں ہمیں حد درجہ گہرے تجزیہ کی ضرورت ہے۔ معاملات کو شاید سنبھالا نہ جا سکے۔ مگر پھر بھی آخری ہچکی سے پہلے بھرپور تردد کی حاجت ہے۔ دنیا کا ایک ملک بتا دیجیے جو خود ترقی نہ کرنا چاہے اور بیرونی طاقتیں اسے بیساکھیوں پر کھڑا کرکے معاشی طور پر توانا بنادیں۔ کم ازکم، انسانی تاریخ میں کوئی بھی ایسی مثال نہیں ملتی۔ جہاں کسی بھی خطے کو زبردستی ترقی کروائی گئی ہو۔ زیادہ دور نہیں جاتے۔ دوسری جنگ عظم کے بعد، دو ایسے ممالک تھے جو مکمل طور پر خاک کا ڈھیر بن گئے۔ جرمنی اور جاپان۔ مگر صرف بیس سے پچیس برس کی قلیل مدت میں وہ اقتصادی طور پر دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑے ہو گئے۔

یہ نکتہ بھی سچ ہے کہ امریکا نے ان دونوں ممالک کی بحالی میں حد درجہ معاشی تعاون کیا۔ مگر جوہری طورپر جرمنی اور جاپان، دونوں ملکوں کے اندر ترقی کرنے کا مادہ موجود تھا۔ دونوں اقوام میں تنظیم، نظم وضبط موجود تھا۔ بلکہ ایک بات اور بھی تھی دونوں ممالک کی قیادت اور ادارے ہرگز ہرگز دوعملی کا شکارنہیں تھے۔ ان کے دامن ہرطرح کی کرپشن کے وجود سے پاک تھے۔ جاپان میں تو آج بھی یہ صورت حال ہے کہ اگر کسی بھی اہم شخص پر معمولی سا بھی کسی اخلاقی یا معاشی گراوٹ کا فقط الزام لگتا ہے تو ان میں سے نناوے فیصد لوگ خود کشی کر لیتے ہیں۔

حکمران طبقہ ہر وقت احتساب کے عمل سے گزرتا رہتا ہے۔ رشوت لینا تو دورکی بات، سرکاری گاڑی کے ناجائز استعمال پر، وزراء اعظم تک اپنے عہدے سے استعفیٰ دے ڈالتے ہیں۔ مگر ہمارے نظام میں یہ تمام معاملہ الٹا ہے۔ جس شخص پر، جتنے مہیب الزامات ہیں، وہ اتنا ہی مراعات پانے کا حقدار گردانا جاتا ہے۔ یاد آیا۔ پنجاب میں ایک گورنر نے اپنے رشتہ داروں میں بیس سے پچیس سرکاری گاڑیاں تقسیم کر دیں۔ دراصل ہمارے ملک میں کسی سطح پر بھی کوئی میرٹ نہیں ہے۔ جب سرکاری بابو، جو آپ کے ٹیکس پر پلتے ہیں۔ قانون شکنی سے بڑھ کر، آئین کو غیر فعال بنا ڈالیں تو آگے کیا رہ جاتا ہے۔

ہمارے ملک کے اصل مسائل پر بات کرنے کی کوشش تو کی جاتی ہے مگر عملی اقدامات نظر نہیں آتے۔ قانون کی بے بسی دیکھئے کہ گندم اسکینڈل میں ملوث لوگوں کے خلاف کوئی کارروائی تو دورکی بات۔ تحقیقاتی کمیشن، انھیں بلانے کی جسارت نہیں کرسکا۔ مگر ایک گندم اسکینڈل پر کیا بات کرنا۔ اس ملک کاہر پل ایک نئے اسکینڈل کو جنم دیتا ہے۔

غور فرمائیے۔ جو ملک، ایک خوفناک خانہ جنگی کے بعد، دولخت ہوا ہو۔ وہاں اس المناک حادثہ کی تحقیقاتی رپورٹ یعنی حمود الرحمن کمیشن رپورٹ، سرکاری راز رہے اور ہمسایہ ملک سے شایع ہو جائے۔ اور اس کے بعد بھی کسی قسم کاکوئی احتساب سامنے نہ آئے۔

ہم سارا دن، ہمسایہ ملک کو دہشت گردی اور مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کا منبع گردانتے ہیں۔ مگرکیاان کے وزیراعظم پر مالیاتی کرپشن کا کسی قسم کا کوئی الزام ہے۔ ایک چائے بیچنے والا، اپنے ملک کا اتنا مضبوط رہنما بن چکا ہے کہ دنیا کی نظریں خیرہ کن سحر میں مبتلا ہیں۔ اور ہمارے ہاں، اوپر سے نیچے تک ہر مقتدر شخص ذاتی فائدہ سے آگے سوچنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتا۔ ترقی تودور کی بات، اگر ہم اپنی بربادی کے سفرہی کو روک لیں، تو شاید کامیاب نظر آئیں!