Thursday, 31 October 2024
  1.  Home/
  2. Guest/
  3. Janwaron Ki Catwalk

Janwaron Ki Catwalk

جنگل میں جگہ جگہ فیشن شو کے اشتہارات لگے تھے یہ اشتہارات پینا فلیکس کی طرز پر کیلے کے درخت کی چھال اور پتوں پر بنائے گئے تھے۔ کیٹ واک اس فیشن شو کا حصہ تھی۔ بہت سے جانوروں کی سمجھ میں واک اور کیٹ واک کا مفہوم گڈ مڈ ہو رہا تھا۔ واک تو جانور روز ہی کرتے تھے پھر یہ کیٹ واک! جب واک تھرو ایک ہی تھا۔ جانور بھی وہی اور جنگل میں بھی کوئی تبدیلی نہ آئی تھی سوائے اس بات کے کہ درخت بہت تیزی سے کٹتے جا رہے تھے اور کھائیاں مسلسل ان کاٹے گئے درختوں کی لکڑیوں سے بھری رہنے لگی تھیں۔ ایسے عالم میں فیشن شو کے اشتہارات نے کچھ جانوروں میں ایک گو مگو کی کیفیت پیدا کر دی تھی اور کچھ جانور جوش اور تھرل سے لبالب نئے پن کی تصوریں کاڑھنے لگے تھے۔

روز بیٹھک ہونے لگی جہاں قسم قسم کی چہ میگوئیاں نے عجیب سا ماحول تخلیق کر دیا تھا۔ جب بات واضح نہ ہو سکی تو گیدڑ نے سب جانوروں کو بندر کے پاس جانے کا مشورہ دیا۔ گیدڑ نے دلیل دی کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ بندر شیر کی خالا کی پوری روٹی کھا گیا تھا تاہم اس کی ایمان داری مسلم ہے۔ کیلے کے پتوں پر بنے فلیکس اس بات کا ثبوت ہے کہ بندر صرف کیلے کھاتا ہے۔ پتے اور چھال نہیں۔ شکایتوں کی ملی جلی آوازوں نے لڑائی کا سماں باندھ دیا تھا۔ کتنے ہی جانور بندر کے ستائے ہوئے تھے لیکن نقار خانے میں ان کی بات کو ٹکے برابر اہمیت نہ دی گئی۔

جب ڈالر کی قیمت بدستور بڑھ رہی ہو تو ٹکے کی اوقات ہی کیا ہے۔ آخر تمام جانور مل کر اسی عطار کے لونڈے سے دوا لینے روانہ ہوئے جس کے سبب بیماری پھیلی تھی۔ بندر اس درخت کی کم زور شاخوں پر جھول رہا تھا جس پر پھل کا نام و نشان تک نہ تھا۔ لیکن بندر نے تمام جانوروں کو تسلی دی کہ وہ اس درخت پر چلہ کاٹ رہا ہے۔ امید واثق ہے آئندہ سال اس درخت پر پھلوں کی برسات رہے گی۔ تمام جانوروں نے باجماعت رقص کے ذریعہ بندر کو اپنا نجات دہندہ قرار دیا۔

بات کیٹ واک کی تھی سو بندر سے واک اور کیٹ واک کا فرق سمجھنے کے لیے ایک پھل دار درخت بطور نذرانہ پیش کیا گیا۔ چالاک بندر نے اس ٹاپک پر پہلے ہی سے ایک پریزنٹیشن تیار رکھی تھی۔ اس نے تمام جانوروں کو مخاطب کرتے ہوئے بتایا کہ جانوروں کی یہ کیٹ واک کوئی نئی چیز نہیں۔ دور کیوں جائیں۔ قریبی ملک بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ میں بھی کیٹ شو منعقد ہو چکا ہے جس میں بلیوں نے سج سنور کر حصہ لیا۔ کسی نے سکرٹ پہنی تو کسی نے فٹ بال کٹ۔

بلیوں نے عرصہ گزرا، یہ غم منانا چھوڑ تھا کہ بندر ان کی پوری روٹی کھا گیا تھا۔ اپنے مالکان کے ساتھ بلیوں کی یہ کیٹ واک، دنیا بھر میں وائرل ہو چکی ہے۔ رہا سوال اس بات کا کہ یہ کیٹ واک جنگل میں کیوں منعقد کی جا رہی ہے۔ اس کا جواب انسٹا گرام پر پیرس کے لگژری فیشن ہاؤس بیلنچیاگا کی جانب سے شئیر کی گئی وہ ویڈیو ہے جس میں ماڈلز دلدلی کیچڑ میں مختلف قسم کے لباس پہنے کیٹ واک کررہی ہیں۔ یہ ثبوت ہے کہ کنول دلدل میں ہی کھلتا ہے۔

مذہبی رحجان رکھنے والے جانوروں کو مطمئن کرنے کے لیے بندر نے اترپردیش کے شری رام کالج میں منعقد برقع اور حجاب تھیم پر مبنی ریمپ واک کا حوالہ دیا۔ جانوروں کو اس کیٹ واک کی افادیت پر یقین تو نہیں تھا لیکن وہ ریمپ پر چلنے کے شوق میں وہ زخم بھی کھانے کے لیے تیار تھے جو بغیر جنگ کے ہی پشت پر داغے جاتے ہیں۔ محبت میں جانور بھی قاصد کے انتظار میں خط پہ خط لکھے جانے پر ایمان رکھتے تھے۔ وہ کیٹ واک پر ہونے والے اخراجات کا وہ بوجھ ڈھونے پر تیار تھے جو ان پر واجب بھی نہیں تھا۔

بندر نے تمام جانوروں سے حلف لیا کہ وہ ہر سال کیٹ واک میں حصہ لیا کریں گے۔ نیز یہ بھی واضح کیا کہ کیٹ واک صرف ریمپ پر چلنے کا موقع دیتی ہے اس میں ہار جیت کا عنصر شامل ہی نہیں تھا۔ یہ واک جانوروں کی چال بہتر کرنے کی غرض سے منعقد کی جاتی ہے۔ کمزور اور طاقتور جانوروں کے لیے الگ الگ ریمپ تیار کیے جارہے تھے۔ جس کی تیاری میں جنگل کے کئی مزید قیمتی درختوں کی قربانی دی گئی۔ کتنی ہی خوب صورت شاخیں تاریک راہوں میں کھاد بن گئیں۔ جن کے فوسل فیولز کا کسی تاریخ میں ذکر تک نہ تھا۔

آخر کار کیٹ واک کا دن آ پہنچا۔ تمام جانور نئے پرانے کپڑوں کے ساتھ سج سنور کر ریمپ پر چلنے کے لیے تیار تھے۔ کسی کو گمان تک نہ تھا کہ ریمپ ٹکڑے جوڑ کر مصنوعی طور پر تیار کی گئی ہے۔ کتنے ہی جانور کھائی میں گر گئے۔ ہاتھی دلدل میں پھنسا چنگھاڑتا رہا۔ یہ دلدل بھی بڑی عجیب شے ہے۔ جسے اپنے اندر سمو لے وہ قربت مرگ اختیار کرتا ہے۔ جو کنارے پہ کھڑا ہو کر اس کی گہرائی کا اندازہ لگائے۔ وہ گومگو کی کیفیت میں رہتا ہے۔ بچتا وہی ہے جسے درخت کی بڑی شاخ بچا لے۔ یعنی سب مایا ہے۔

سیہہ کے کانٹے کمزور بکریوں کو زخمی کر گئے۔ ہائنا شیر کے بچے اٹھا کر بھاگ گیا۔ برساتی مینڈکوں کا البتہ ذرہ برابر نقصان نہ ہوا وہ بدستور ٹراتے رہے۔ ایسا لگا جنگل میں ٹرین کی بوگیاں پٹری سے اتر گئی ہوں۔ امید بجھ رہی تھی کہ یہ دندناتی ریل کی سی عمریں یونہی گزرتی رہیں گی اور پٹریوں کے درمیان وہی نہ پاٹنے والے فاصلے موجود رہیں گے۔

جانور خوش تھے کہ انھیں ریمپ پر چلنے کا موقع ملا آشفتہ سروں نے وہ قرض بھی ڈھوئے جو ان کی طاقت و استطاعت سے باہر تھے۔ ریمپ پر ہاتھ ہلانے کا تصور انھیں نہال کیے ہوئے تھا۔ پینا فلیکس پر لکھا نعمان شوق کا شعر بجھا بجھا سا تھا

ریل دیکھی ہے کبھی سینے پہ چلنے والی

یاد تو ہوں گے تجھے ہاتھ ہلاتے ہوئے ہم