Thursday, 31 October 2024
  1.  Home/
  2. Guest/
  3. Phoonkon Se Jalaye Gaye Chiragh

Phoonkon Se Jalaye Gaye Chiragh

بادشاہ کے محل کے چاروں طرف دریا تھا۔ یوں لگتا تھا کہ سمندر دریا سے آن ملا ہے۔ البتہ شہر کے لوگوں کو تمام اطراف ریت ہی ریت دکھائی دیتی تھی۔ بادشاہ اپنے محل سے خوش نما نظارے دیکھتا اور شہر کے باسی خاک اڑنے پر تشویش کا اظہار کرتے۔ بادشاہ کو شہر کی خوش حالی کے اتنے قصے سنائے گئے تھے کہ وہ اپنے آپ کو دیوتا سمجھنے لگا۔ اسے ہر طرف اپنی مسکراتی تصاویر میں عوام کی جھلک دکھائی دیتی۔

کھانے کی میز پر بیٹھتا تو اسے پورا ہال کمرہ لوگوں سے بھرا نظر آتا جن کے سامنے کھانے کی رنگا رنگ ڈشیں موجود ہوتیں اور وہ اپنے آپ میں مست نظر آتے۔ سردی میں بادشاہ ہیٹر جلاتا تو اس کا تصور اسے ہر طرف ہیٹر اور نرم گرم بستر میں چمکتے چہرے دکھائی دیتے جو ڈرائی فروٹ سے لطف اندوز ہو رہے ہوتے۔

بادشاہ کے وزراء اور مشیران کی محنت کا عکس بادشاہ کے دماغ پر قابض تھا اور زندگی ہنسی خوشی گزر رہی تھی۔ بادشاہ zappirano جادوگر کی لاجواب صلاحیتوں سے اتنا متاثر تھا کہ وہ خود کو اسی روپ میں دیکھنے لگا۔ اسے لگا کہ اسے پوری دنیا میں پوجا جاتا ہے، مصر سے افریقہ، آسٹریلیا سے انگلینڈ، یورپ سے ایشیا تک اور بہت سے ممالک جیسا کہ zappirano جادوگر کی شہرت تھی۔ اسے یہ بھی یقین تھا کہ وہ ہر کام کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے! اسے یہ بھی یقین تھا کہ وہ لوگوں کے آدھے دماغ کو غائب کر سکتا ہے، اور انھیں احساس تک نہ ہوگا اور نہ ہی وہ دوبارہ ظاہر ہو سکیں گے۔

وہ ریت میں مچھلیاں بو سکتا تھا۔ وہ ریگستان کو پانی بھرا تالاب بنا سکتا تھا یہ الگ بات کہ تالاب اور دریاوں میں پانی سوکھتا جا رہا تھا۔ جنگل کے درخت رو رہے تھے انھیں کاٹنے کی ظالم سند مل چکی تھی ہر طرف دھند کا راج تھا۔ کوئی منظر فلٹر کے بغیر نہیں تھا۔ ہر رستہ گڈ مڈ تھا، لیکن راوی چین ہی چین لکھتے تھے۔ راوی تھے کون؟ جن کو روایت و درایت کے معانی بھی معلوم نہ تھے۔

جدید دور میں مکر و فریب سے تراشے گئے جھوٹ کا حاصل وہ بیانیہ تھا جو ہر ماہ کرپشن کی ویکسین لگوا کر ہر بیماری کو شکست فاش دینے کے قابل تھا۔ ہر روز وٹامن کے ڈوز لگوا کر رقص کے نئے داو پیچ آزماتا اور خوب اودھم مچاتا۔ بادشاہ کو پھونکوں کی کرامات پر اعتماد تھا وہ اس ضعیف الاعتقادی کو طاقت سمجھتا بلکہ اب تو پورے ملک پر پھونکوں کا راج تھا۔ شاعر نے ایسی ہی پھونکوں کے متعلق کہا تھا کہ

اٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے

مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے

سو ضعیف روایت چمک دمک کے بل پر چھا رہی تھی۔ بادشاہ ایک ہی تھا۔ راوی ہر دور میں ہاتھ باندھے کھڑے تھے اور ہر لفظ کی سوغات سے کہانی میں ایسے رنگ بھرتے کہ عقل دنگ رہ جاتی۔ یہ کہانی ہر دماغ پر کاری وار کرتی۔ بادشاہ محل میں خوش تھا اسے ایسی ہی کہانیاں درکار تھیں جن کو کسی بھی حادثے یا سانحہ پر ایڈٹ کرکے چپکا دیا جائے۔

عوام نے اپنے سر پر ہاتھ رکھ کر پھونکوں سے وہ پائپ کھولنے کا عندیہ دیا تھا جن کا دل و دماغ کے ساتھ کوئی تعلق نہ تھا۔ یہ تو طے ہے کہ پھونکوں سے یہ چراغ جلنے والے نہیں۔ کاہلی، ضعیف الاعتقادی اور بے ایمانی کے انجکشن سے مدہوش چراغ بغض سے پر اور حرارت سے عاری ہیں۔ نیم اجالے پر شاکر عوام بادشاہ کے محل تک نہیں جا سکتی اور بادشاہ کا اطمینان شہر کی حالت کو فلٹر لگا کر دیکھنے کا عادی ہے۔ کیا یہاں آپ کے ذہنوں میں یہ سوال نہیں گونجتا کہ جنوبی کوریا اور جاپان نے کس جادو گری کے سہارے ٹیکنالوجی کا جن قابو کیا ہے؟

ہمارے ہمسایہ ملک بھارت کی سیاسی اٹھان دیکھ لیں۔ ان کا نہری، سفری اور تجارتی نظام ہمارے ہوش اڑا دینے کے لیے کافی ہے۔ انہوں نے امریکی تعاون سے 1947ء میں ہیوی انڈسٹری کی داغ بیل ڈالی۔ یہاں ہم جہادی اور جہاز بن کر حشر بپا کیے جشن منا رہے ہیں۔ سیاستدان ہیں گلیاں اور سڑکیں اکھاڑ کے نئی بنانے پر قادر رہے۔ ہمیں بتایا ہی نہیں گیا کہ جدید مصنوعات کو بنانے کے سانچے کیا ہیں۔ غیر ملکی پالیسیاں اس سے زیادہ مضحکہ خیز ہیں۔ افغان طالبان اور القاعدہ کے کارکنان کو پناہ دینے اور پھر نیٹو افواج کو ڈرون حملوں کی اجازت دینے کا اگر کوئی جواز کسی کے پاس ہے تو بتائیے۔ چالیس سال سے ہم ہر حکومت کا یہی نوحہ سن رہے ہیں کہ اس بار ملک میں معاشی خوشحالی وہی لے کر آئیں گے۔ یعنی ہر بار جادو کی مالا الیکشن سے قبل ان کے ہاتھ میں ہوتی ہے اور برسر اقتدار آتے ہی مالا ٹوٹ جاتی ہے۔

جادوگر Zippirano کی کہانی میں واپس جانے کی کتنی ہی کوشش کرنے کے باوجود واپسی کا راستہ نہ مل سکا تھا۔ زیپارینو کو کھردری اور ٹہنیوں سے بنی ایک ایسی جھونپڑی ملی تھی جو اس سے پہلے بھی کسی جادوگر کی تھی۔ چنانچہ انہوں نے جادوئی جنگل میں رہنے کا فیصلہ کیا تھا اور اپنے دنوں کے اختتام تک خوشی سے ایک ساتھ جادوئی چالیں چلاتے رہے۔ تو عرض بس اتنی ہے کہ بادشاہت جادوگر کہ چھڑی نہیں جسے گھما کر من چاہا کرتب دکھایا جائے۔ بلکہ جادوجب ٹوٹتا ہے تو سامنے صرف تنکے اور ٹہنیاں نظر آتی ہیں۔ دلوں پر راج کرنے کے لیے فقیری بھی کافی ہے۔