ڈاکٹر اجمل نیازی مرحوم کے گھر تعزیت کرنے گئی تھی۔ ان کے گھر کی روایت میں گندھی سادگی میرے احساس پر نقش ہوچکی ہے۔ وحدت کالونی کے سرکاری گھر میں کم وبیش اس درویش دانشور نے چالیس برس گزار دیئے۔ جس گھر کے دروازے کے باہر ان کے نام کی تختی جگمگا رہی ہے، ڈاکٹر اجمل نیازی ستارہ امتیاز۔ گھر کے اندر قدم دھریں تو تہزیب سادگی اور روایت میں گندھی فضا آنے والے کا استقبال کرتی ہے۔ ایسا ہی احساس خود اجمل نیازی صاحب سے ملنے کے بعد بھی ہوتا۔ شہر لاہور میں آکر بھی میانوالی کے پٹھان نیازی نے سر پر نیازی قبیلے کی خاص پگڑی باندھے رکھی، یوں روایت سے اپنا رشتہ برقرار رکھا۔ گھر کی خواتین کھجوروں کی گھٹلیوں پر کلمے کا ورد کر رہی تھیں۔ بہنوں کو بھائی اجمل کے جانے کادکھ تھا کہ وہ اپنی چھ بہنوں کے لیے نہایت محبت کرنے والے بھائی تھے جو منیر نیازی کی بیگم ناہید نیازی کو اپنی ساتویں بہن قرار دیتے۔
بیگم منیر نیازی بھی ایک بہن کی طرح ان کی کئی خوبیوں کو یاد کرتے ہوئے افسردہ تھیں کہ دونوں گھرانے محبت اور دوستی کے اس سفر میں کئی دہائیوں سے ساتھ تھے۔ بیگم اجمل نیازی نے اپنا شریک سفر کھویا تھا اور شریک سفر بھی وہ جن سے وہ عشق کرتی تھیں، زندگی کے آخری دوسال بیماری میں وہ انہیں اپنے ہاتھ سے نوالے کھلاتی رہیں۔ بہو حمدیہ کی آنکھیں آنسوؤں سے بھری تھیں کہ ابو سے انہیں ہمیشہ بیٹوں والا پیار ملا۔ کمرے میں جاتی تو بیماری میں بھی کھڑے ہونے کی کوشش کرتے اور کہتے کہ نبی اکرم ﷺ بیٹی کی آمد پر کھڑے ہو جایا کرتے۔ میں وحدت کالونی کے اس گھر میں ایک شاعر اور دانشور کی وفات پر تعزیت کرنے آئی تھی، مگر یہاں ان سے جڑے رشتوں کی خوشبو پھیلی تھی۔ ہر رشتہ ان کے کردار کی گواہی دے رہا تھا۔
مشاہدہ اس کے برعکس ہے کہ وہ شہرت یافتہ لوگ عام طور پر اپنے رشتے نبھانے میں عام طور پر پیچھے رہ جاتے ہیں۔ باہر کی مصروفیات تقریبات کی چکاچوند انہیں گھر اور رشتوں سے دور لے جاتی۔ ان کے قریبی افراد کو ان سے شکوے شکایتیں زیادہ ہوتی ہیں لیکن یہاں معاملہ دوسرا تھا۔ ڈاکٹر اجمل نیازی ناموری اور دانشوری سے جڑی تمام تر مصروفیات کے باجود اپنے سے جڑے ہر رشتے کے ساتھ اجلے اور محبت سے لبریز تھے۔ ایک انسان کی اس سے بڑی کامیابی اور کیا ہے۔ اخلاقیات اور اقدار کے پیمانوں پر بھی وہ اپنی درویشی اور دیانت سے بھری آنا کے ساتھ یکتا نظر آتے ہیں۔ ڈاکٹر اجمل نیازی لاہور کے ادبی اور صحافتی منظر نامے کا حصہ تھے ہمہ وقت متحرک رہتے تھے۔
اردو ادب کے استاد شاعر اور اخبار کی کالم نگاری ان کے لیے اظہارِ ذات کے مختلف راستے تھے، ان میں کالم نگاری کو انہوں نے اپنی زندگی کا اوڑھنا بچھونا بنا رکھا تھا۔ میں نے ایک دن ایسے ہی پوچھا کہ آپ ہر روز کالم لکھ کر اکتاتے نہیں تو شگفتہ مزاجی سے کہنے لگے میں خود کو کالم نگار نہیں بلکہ سالم نگار کہتا ہوں۔ ہفتے میں ایک دن بھی چھٹی نہیں کرتا یہاں تک کہ میرے گھر میں مہمان بیٹھے ہوں تو میں ان سے کچھ وقت کی رخصت لے کر کمرے میں آ کے کالم لکھ لیتا ہوں۔ ان کا پہلا تعارف تو ان کی شاعری ہی تھی لیکن بعد ازاں وہ کالم نگاری کی دلدل میں ایسے پھنسے کہ شعر پر توجہ نہیں دے سکے۔ بس کالم نگاری کا ایک نقصان یہی ہے کہ فکشن اور تخلیق کے دوسرے کاموں سے دور کر دیتی ہے۔
صحافت اور صحافت میں کالم نگاری ایک ایسی جادونگری ہے جو آپ کو کسی اور تخلیق کا نہیں ہونے دیتی۔ نیازی صاحب ایک دیانتدار درویش منش مادی خواہشات سے بے نیاز انسان تھے۔ آخری وقت تک وحدت کالونی کے سرکاری گھر میں مقیم رہے۔ کالم نگاری کے سفر میں جہاں مجھے کچھ تنگ دلوں سے واسطہ پڑا وہاں کچھ ایسے اعلی ظرف کشادہ دل ایسے بھی اس راستے میں آئے جن کی حوصلہ افزائی اس سفر میں میرے لیے زاد راہ ثابت ہوئی۔ مرحوم اجمل نیازی بھی ایک ایسے ہی کشادہ دل اور عالی ظرفی انسان تھے۔ انہیں میرا کوئی کالم پسند آتا تو وہ باقاعدہ فون کرکے مجھے تحریر کی داد دیتے اور سچی بات ہے میں اس پہ شرمندہ سی ہو جاتی۔
ایک روز مجھے کسی نے ان کے کالم کا کچھ حصہ وٹس اپ کیا جس میں میرے گزشتہ کالم کا ذکر تعریف اور توصیف سے کیا گیا تھا، ستائش باہمی کے اس دور میں ایسی بے غرضی سے کسی جونیئر کو سراہنا کمال درجے کی اعلی ظرفی ہے۔ جانے والے کی خوبیوں کو ضرور یاد رکھنا چاہیے اور اس کا تذکرہ بھی کرنا چاہیے اور اللہ تعالی کے حضور یہ ہماری گواہی کے طور پر ان کے حق میں ان کے مزید اجر و ثواب میں برکت کے لیے قبول ہو جائے۔ کچھ عرصہ پہلے جب وہ بیمار ہوئے تو میں اور معروف شاعرہ خالدہ انور ان کی عیادت کے لیے سروسز ہاسپٹل گئے۔ اس روز ہسپتال میں بیڈ پر لیٹے ہوئے ان کے سر پر نیازی قبیلے کی پگڑی نہیں سندھی ٹوپی تھی۔ پھپھڑوں کی بیماری کی وجہ سے انہیں بات کرنے میں دشواری ہوتی۔
سرگوشی کے سے انداز میں بولتے جو انکی اہلیہ محترمہ کو سمجھ آتا تو وہ ہمیں بتا دیتیں ان کے بولنے کا مخصوص آھنگ خاموش تھا۔ خوبصورت جملے تراش کر اپنے مخصوص لہجے میں گفتگو کرنا بھی ان ایک فن تھا، اس روز یہ مخصوص آہنگ خاموش تھا مگر ان کی آنکھوں میں پہچان کی نمی تھی اور آج دوسال کے بعد وہ آنکھیں موندے منوں مٹی تلے سو چکے ہیں۔ یہی زندگی ہے۔۔ زندگی جو چلتی رہتی ہے اور چلتی رہے گی۔ روایت سے جڑے اس سادہ سے گھر سے باہر نکلے تو بس یہی احساس ساتھ تھا کہ دنیا کی چکا چوند سے بے نیاز دیانت داری میں گندھا ہوا قناعت پسند سچا دانشور اس شہر سے اٹھ گیا شہر والوں کا بڑا نقصان ہوا۔ اللہ انہیں ابدی رحمتوں میں آسودہ رکھے۔