تو حقیقت ہے میں صرف احساس ہوں
تو سمندر ہے میں بھٹکی ہوئی پیاس ہوں
میرا گھر خاک پر اور تیری رہ گزر
سدرۃ المنتہیٰ تو کجا من کجا
مظفر وارثی صاحب کا یہ لازوال نعتیہ کلام دانیال اونچی اونچی بڑے لے کے ساتھ دہرا رہا تھا۔ نعت پڑھنے کی طرز مگر مقبول نعت گو شاعر کے مخصوص دھیمے پرسوز انداز سے مختلف تھی۔ مظفر وارثی صاحب پر اللہ کی خاص عنایت رہی کہ ان کے قلم سے حمدو نعت کے لازوال اشعار نکلے جو ضرب المثل کی سی مقبولیت حاصل کر گئے، ان مصرعوں کی بازگشت یقیناً آپ کی یادداشتوں میں بھی گونجتی ہو گی۔ کوئی تو ہے جو نظام ہستی چلا رہا ہے، وہی خدا ہے۔ دکھائی بھی جو نہ دے نظر بھی جو آ رہا ہے وہی خدا ہے۔
میرا پیغمبر ؐ عظیم تر ہےاور پھر یہ نعت جو دانیال کافی دیر اپنے انداز میں دہرا رہا تھا، تو کجا من کجا۔ کیونکہ ربیع الاول کی مناسبت سے سکول میں میلاد مصطفیؐ کی تیاری ہو رہی تھی۔ بیٹا آپ کو معلوم ہے، یہ نعت کس نے لکھی ہے؟ میں نے پوچھا، یہ نعت کوک سٹوڈیو کی ہے ماما۔ کوک سٹوڈیو کی۔؟ مجھے حیرت کا دھچکا لگا، بیٹا اس نعت کے خالق کا نام مظفر وارثی ہے۔ آپ کو سکول میں کسی نے نہیں بتایا۔ آپ کو نہیں پتہ یہ کوک سٹوڈیو کی ہے۔ سر نے یہی بتایا وہ مصر رہا، اب میں نے یو ٹیوب پر فوراً مظفر وارثی صاحب کی نعت پڑھتے ہوئے ویڈیو نکالی اور صاحبزادے کو دکھائی، مگر اس نے اسے قابل توجہ نہ سمجھا اور کہا کہ یہ کیسے پڑھتے ہیں، ماما یہ تو بالکل اولڈ سکول ہے۔ ہم ایسے نہیں پڑھتے۔ میلاد پر سکول نے مائوں کو مدعو کر رکھا تھا۔ میں نے سکول ہیڈ سے خاص طور پر یہ شکایت کی کہ ایک ہفتے سے بچے یہ نعت پریکٹس کر رہے ہیں، مگر ٹیچر نے ان کو یہ تک نہیں بتایا کہ نعت کا اصل خالق کون ہے۔ انہیں کوک سٹوڈیو کا معلوم ہے مگر اردو کے عظیم نعت گو شاعر مظفر وارثی کا نام نہیں جانتے۔ جن کا کلام وہ پڑھ رہے ہیں، سکول ٹیچرز کو یہ نعت سکھاتے ہوئے نہ صرف مظفر وارثی صاحب کا نام بتانا چاہیے تھا بلکہ ان کا مختصر تعارف بھی کرواتے۔ تعلیم اور کس کو کہتے ہیں۔ بچے سکول صرف نصاب میں لکھی ہوئی چیزیں ہی تو سیکھنے نہیں جاتے۔
دوسری بات کہ نعت پڑھنے کی روایت میں تقدس اور احترام لازمی عنص ہیں مگر اب ہر نعت کو اونچی موسیقی کے ساتھ گانوں کی طرز پر پڑھنا نعت کا تقدس مجروح کرنا ہے۔ پھر بچے گانے اور نعت میں فرق کیسے جان سکیں گے۔ نعت پڑھنے کی جو اصل روایت ہے جس میں انتہائی احترام اور تقدس ملحوظ رکھا جاتا ہے، اس سے بے گانہ رہیں گے۔ یہ ہمارے سماج کا مجموعی رویہ ہے کہ ہم اپنی روایات سے دامن چھڑا کر نام نہاد ماڈرن بننے کے چکر میں رہتے ہیں۔ اپنے اصل کو مانتے ہوئے اپنی روایات کا شعور رکھتے ہوئے جدیدیت کو اپنانا ہی وہ راستہ ہے، جس سے بچوں کی ذہن سازی ایسی ہو سکتی ہے کہ وہ ایک روشن خیال مضبوط شخصیت بن سکیں اور ہر قسم کی احساس کمتری سے بالاتر ہو کر اپنی تاریخ پر فخر کریں اور اپنی روایات کو ڈس اون نہ کریں۔ ہمارے ہاں اس کے برعکس ہوا، سکولوں سے ہم نے اقبال کے کلام کو نصاب سے نکال دیا۔ اب تو بہت سے سکولوں میں قومی ترانہ بھی روز نہیں پڑھا جاتا۔ انگریزی میڈیم سکولوں کے بچوں کو پورا قومی ترانہ بھی یاد نہیں، ہاں انگلش نظمیں نرسری میں تو رٹوا دی جاتی ہیں۔ ہم اپنی روایت کا شعور نہ رکھنے والی قوم ہی ایسا کر سکتی ہے کہ ہم نے اس چیز کو نقصان پہنچایا جو ہماری شناخت کا حوالہ بن سکتی تھی۔
ایک چھوٹی سی مثال ٹی وی ڈرامہ کی دیتی ہوں، اسی اور نوے کی دہائی کے ٹی وی ڈرامے دنیا بھر میں پاکستان کی پہچان بنے۔ بھارت کی بہت بڑی فلم اور ڈرامہ انڈسٹری میں پاکستان کے بنے ہوئے ڈراموں نے ہلچل پیدا کر دی۔ وہاں کی ڈرامہ ایکیڈمیوں میں روحی بانو طلعت حسین اور فردوس جمال کے ڈرامے دکھا کر نئے آنے والوں کو اداکاری کا ہنر سکھایا جاتا۔ اشفاق احمد، منو بھائی، بانو قدسیہ، حسینہ معین کے ڈرامے ڈائیلاگ دنیا بھر میں اردو سمجھنے والوں میں مقبول رہے۔ پھر ہم نے ڈرامے کا بھی وہ حشر کیا جو احساس کمتری میں مبتلا ایک نقال قوم کرتی ہے۔ انڈیا سے آنے والے تھرڈ کلاس ڈراموں کی نقالی کرنا شروع کر دی، خاندانی سیاست، ساس بہو کے جھگڑے رشتوں کے تقوس کی پامالی کے گھٹیا موضوعات پر ڈرامے بنا کر ڈرامے کو عروج سے زوال آشنا کیا۔
ہم اپنی شناخت پر شرمندہ ہونے والی بدترین احساس کمتری میں مبتلا قوم ہیں۔ ہم نے اپنے لباس کے ساتھ بھی یہی حشر کیا۔ دوپٹے کے بغیر خواتین کے لباس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ کبھی دوپٹہ ہماری شناخت کا حصہ تھا مگر غلامی اور نقالی کی خواہش نے ہمیں کہیں کا نہ چھوڑا، چادر کی بکل سے تو برسوں پہلے نکل گئے تھے۔ اب دوپٹے سے بھی جان چھڑانے کے درپے ہیں۔ پنسا کولڈ فلوریڈا میں پاکستانی صحافی خواتین کا گروپ وہاں کے مقامی میڈیا ہائوس کے ایک دورے پر تھا۔ اس ادارے کی ڈائریکٹر اور اینکر خاتون نے فرنگی لباس پہنے صحافی خواتین سے بے ساختہ سوال کیا کیا آپ اپنے گھروں اور دفتروں میں بھی یہی لباس پہنتی ہیں آپ کے سکارف کہاں ہیں۔؟
ایک امریکی خاتون کے ذہن میں اسلامی ملک سے آئی ہوئی خواتین کے لباس کی پہلی شناخت دوپٹہ اور سکارف ہی تھی۔ سو اس کا سوال بجا تھا۔ اسے کیا خبر کہ ہم اپنے روایت اور تہذیب پہ شرمندہ وہ نقال ہیں جو دوسروں کا رنگ سرخ دیکھ کر اپنے منہ کو خود چپیڑیں مار کر سرخ کر لیتی ہے۔ ہم اپنی شناخت کو اپنے ہاتھوں تباہ کرنے والے وہ ذہنی غلام ہیں جو رفتہ رفتہ اپنی شناخت کے سارے معلوم حوالوں کو کھرچ کھرچ کر مٹا رہے ہیں۔ ہم جیسے معکوس کا سفر کرنے والوں کے لئے ہی شاعر نے یہ نوحہ لکھا:
ایک ہم کہ لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ
ایک وہ ہیں جنیں تصویر بنا آتی ہے