ایک اور المناک حادثہ۔ کتنے اور ستم میرے دیس میری اِس نیم بسمل جسم و جان پر۔ وہ بھی کِس کمال کا تخلیق کار تھا۔ وہی عمر قریشی، جس نے اسے Great people to fly with کا سلوگن دیا۔ اوروہ بھی کیا عظیم مسافر تھی اپنے وقت کی ورلڈ کورٹ سوسائٹی کی جان، سپر پاور کی خاتون اول جیکولین کینڈی جس نے اس میں سفر کیا اور اختتام سفر پر پائلٹ اور عملے کو گلے لگا کر اِس سلوگن پر اپنی مہر ثبت کی۔ یہ کتنا بڑا اعزاز تھا۔
ابھی ہفتہ بھی نہیں ہوا تھا۔ نوے کی دہائی کی نامور انگریزی کی جرنلسٹ زرقا بشیر نے مایہ ناز کینسر سپیشلسٹ پاکستانی ڈاکٹر طارق شفیع کی لندن میں کرونا سے موت کی اطلاع دی تھی۔ ڈاکٹر طارق بہت خوبصورت لکھاری اور ہماری دوست بیگم ممتاز شفیع کے صاحب زادے تھے۔
آج مسینجر پر زرقا کا نوحہ پھر میرے آنسووں کا امتحان لے رہا تھا۔
سلمیٰ آپا خالد شیر دل میرے میاں احمد کے بیچ میٹ ہی نہیں بہت اچھے دوستوں میں سے تھے۔ بہترین انسان اوربہترین افسر۔ اِس جہاز میں میرے بیٹے کا نوجوان دوست بھی عید منانے گھر جارہا تھا۔ اِس میں ہمارے بہت قریبی دوست گھرانے کے بچے بھی تھے جو لندن میں قرنطینہ گزارتے ہوئے تنگ آئے پڑے تھے۔ باپ پاکستان میں تھا۔ اس کے بلاوے پر عزیزوں کے ساتھ عید منانے آگئے۔ کراچی کی ڈائریکٹ فلائٹ نہ ملنے پر پہلے لاہور اُترے اور اب اِس فلائٹ سے کراچی جارہے تھے۔
دل کیسا اجڑا اجڑا سا تھا۔ ان باکس کو بھی ایسے ہی کھول لیا۔ پتہ ہوتا تو نہ کھولتی۔
نیپلز سے آیا ہوا خط منتظر تھا۔ مسٹر ایڈمنڈوکا۔ آپ کے طیارے کے حادثے کی خبر دیکھ کر میں بہت دکھی ہوا ہوں۔ کیا بات ہے؟ آپ کی اس ایر لائن میں بہت حادثے نہیں ہونے لگے ہیں؟ کیا اِس کا اب وہ معیار نہیں رہا؟ دراصل میں نے پاکستان میں بہت اچھا وقت گزارا ہے۔ شاید اسی لیے اِس ملک سے متعلق ہر چھوٹی بڑی خبر ہمیشہ میری نظر میں رہتی ہے۔ یوں بھی اسلام آباد سے کراچی تو مہینے دو مہینے میں جانا آنا لگا رہتا تھا۔ یہ سفر پی آئی اے سے ہی ہوتا تھا۔ مجھے یہ ایر لائن بہت پسند تھی۔ اس کی میزبان لڑکیاں بہت دل کش اور مسکراہٹوں سے لبالب بھری ہوتی تھیں۔ کھانے بھی بڑے مزے کے اور عملہ بھی بڑا مستعد ہوتا تھا۔ دھیرے دھیرے مجھے اس کی ایسی عادت ہوگئی کہ میں کرسمس پر گھر جانے کے لیے بھی کبھی کبھی اسی میں سفر کرنے لگا۔
ٹپ ٹپ آنسو ہاتھوں پر گرنے لگے تھے۔ پھر جیسے فوارہ سا پھوٹ نکلا۔ مسٹر ایڈمنڈو کون ہیں؟ تھوڑا سا تعارف تو ضروری ہے نا۔
میں روم میں تھی اور ابھی تھوڑی دیر قبل پنتھین Pantheen چرچ میں اٹلی کے مایہ ناز مصور رافیل کی قبر پر اُس کے لیے فاتحہ پڑھ کر باہر نکلی تھی۔ قریبی میکڈونلڈ سے فش برگر لاکر اُسے کھاتے ہوئے رنگ رنگیلے لوگوں کو دیکھتے ہوئے عجیب سی خوشی محسوس کررہی تھی۔
جب ایک عجیب سی بات ہوئی۔ ایک اونچے لمبے کوئی ساٹھ 60باسٹھ 62کے پیٹے میں ایک شخص نے قریب آکر پوچھا کہ میں کہاں سے ہوں؟ حیرت کے چھلکاؤ سے لبریز آنکھوں سے میں نے مخاطب کو دیکھا۔
"پاکستان"۔ ہائے میرے لہجے میں پور پور شرمندگی اور خوف رچا ہوا تھا۔ دہشت گردی کے حوالے سے نا۔
"ارے"مرد کی باچھیں کِھلیں۔
"آپ کے تربیلا ڈیم کی تعمیر میں میرے ہنر مند ہاتھوں کا بھی خاصا دخل ہے۔"
اب میری باچھیں کھلنے کی باری تھی۔
مسٹر ایڈمنڈوکوئی چار سال پاکستان میں رہا۔ چار سالہ یادوں کی لو اُس کی نیلی مائل بھوری آنکھوں میں جیسے فانوس کی طرح جگمگاتی تھیں۔
"ہم کبھی ویک اینڈاور کبھی پندرہ دن بعد اسلام آباد جایا کرتے تھے۔"اسلام آباد کے چند ایلیٹ کلاس گھرانوں سے اُس کے مراسم تھے جن کا ذکر اس نے اِس وقت محبتوں بھرے رچاؤ سے کیا تھا۔ بیگم سرفراز اقبال کا نام بھی اس نے لیا تھا۔
وہ نیپلز سے تھا۔ روم کِسی کام سے آیا تھا۔
اس نے مجھ سے پوچھا تھا کہ مےرا نےپلز آنے کا کوئی پروگرام ہے۔
مےںنے اپنی اکےلے ہونے کی مجبوری اُسے بتائی۔ بڑی بے ساختہ سی دعوت تھی جو اس نے فی الفور دے ڈالی۔
"مےرا گھر ہے وہاں۔ مےرے پاس ٹھہرئےے۔ پاکستانےوں کی محبتوں کا مےں مقروض ہوں۔"
اتنی خوبصورت بات۔ مےری آنکھےں پل بھر مےں گےلی ہوگئےں۔
"ارے نےپلز بہت خوبصورت جگہ ہے۔ دو باتےں تو اس کی بڑی مشہور ہےں۔ پےزا اور صوفےہ لورےن۔ ےقےنا دونوں کی آپ بھی مدّاح ہوں گی۔ دونوں کی جائے پےدائش نےپلز ہی تو ہے۔ اس کے رنگےن پرانے شہر کا تو بس دےکھنے سے تعلق ہے۔"
اُ س نے اپنی نگاہیں دائیں بائیں پھینکیں اور پھر میری طرف جھکتے ہوئے بولا۔
"بھئی بڑی پرانی تارےخ ہے اس کی بھی۔ آپ لکھاری ہےں۔ اُس شہر کو تو ضرور دےکھنا چاہےے۔" نیپولین کو جب شکست ہوئی تو یہ ایک خود مختار سلطنت بن گئی تھی مگر اِن رومنوں کی اجارہ داری 1861میں کھل کر سامنے آئی۔ اٹلی کو متحد کیاجائے۔ اس کے بادشاہ سے لے کر دانش وروں تک سب کی ایک ہی رٹ تھی۔
اس اتحاد کے شوروغوغا میں کِسی نے ہمارا تو سوچا ہی نہیں کہ یہ بیچارے بھی کسی گنتی شمار میں ہیں۔ اِن سے بھی کچھ پوچھ لو کہ منہ میں زبان رکھتے ہیں۔ اِن کی بھی سن لو کہ یہ کیا کہتے اور کیا چاہتے ہیں؟ نتیجہ کیا ہوا ہماری تہذیب و ثقافت اور سیاسی لحاظ سے مضبوط آزاد و خودمختار سلطنت محض ایک صوبہ بن کر رہ گئی۔ اس کے سارے وسائل اور پیسہ کہیں شمال کی صنعتوں کے فروغ کے لئے اور کہیں مرکز کے لئے استعمال ہونے لگا۔
کوئی گھنٹہ بھر ہم لوگوں نے باتیں کیں۔ اپنا نام پتہ، موبائل نمبر، ای میل سب اُس نے میری ڈائری میں لکھے اور موبائل میں بھی فیڈ کردئیے۔ ہمارے درمیان ای میل پر ہیلو ہائے کا یہ سلسلہ کبھی کبھار ضرور رہتا تھا۔ میں اُسے کرسمس اور ایسٹر پر وش کرنا کبھی نہ بھولتی۔ کرونا کو اٹلی جس طرح بھگت رہا ہے اس پر بھی ہمارے درمیان بات چیت ہوئی تھی۔
اور آج اُسکی ای میل نے مجھے زار زار رُلا دیا تھا۔
اس کو بنانے والے اسے میرٹ پر اٹھانے اور اسے باکمال لوگ لاجواب پرواز کا ٹائیٹل دینے والے تو کہیں قبروں میں جا سوئے۔ جی چاہتا ہے سہیل وڑائچ کی طرح ایر مارشل نور خان کو خط لکھوں۔ اِسے مزید سنوانے والے اصغر خان کو آواز دوں کہ وہ آکر دیکھیں تو سہی۔ لالچی گدھ اس کے وجود کی ایک ایک بوٹی نوچ کھانا چاہتے ہیں۔ اس کے جسم میں کِسی بھی بیماری اور خرابی کی صورت میں اس کا علاج کرنے کی بجائے بھاری رقوم کے جعلی بل بنوا کر سستی چیزوں سے اس کا ماڑا موٹا علاج کروا کر اپنی جیبیں بھر رہے ہیں۔ دنیا بھر میں اس کے دفتروں کی قیمتی جگہیں اور اشیا پر ان کی بھوکی اور للچائی نظریں ہیں۔ اس کے بہترین منجھے ہوئے تجربہ کار پائلٹ باہر والے لے اڑے۔ اس کے ہاں میرٹ تو کہیں رہا ہی نہیں۔
CEOاور وزیر ہوا بازی پریس کانفرنسیں کر رہے ہیں۔ وضاحتیں دے رہے ہیں۔ شفاف تفتیش کی یقین دہانی کروا رہے ہیں۔ کوئی پوچھے اِس سے قبل جو طیارے کریش ہوئے ان کے بارے کوئی رپورٹ آئی۔ چترال کا حادثہ تو ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن کی بات ہے۔ وہ حکومت دوسری تھی۔ ہمارے وزیر ہوا بازی کا کیسا بھونڈا دفاع تھا۔ کوئی پوچھے کیا ادارہ بھی کوئی دوسرا تھا؟
باتوں اور قیاس آرائیوں کے نئے دروازے کھل گئے ہیں۔ کچھ ذمہ دار اور تجربہ کاروں کا کہنا ہے کہ پائلٹ کی غلطی تھی۔ رفتار تیز تھی۔ کنٹرول ٹاور سے کہا گیا تھا کہ رفتار کم کریں۔ جہاز کا انجن زمین سے ٹچ کرگیا تھا کیونکہ پہیے کھلے نہیں تھے۔ پھر اوپر اٹھا۔ اس وقت تک آگ لگ چکی تھی۔ یہ سب اندازے ہیں۔ صحیح کیا ہے۔ یہ کبھی معلوم نہیں ہوگا۔
بورڈ میٹنگز، بڑے لوگوں کی آنیاں جانیاں سب کھیل تماشے ہوں گے مگر نتیجہ صفر ہی رہے گا۔ یہ یقین ہے۔