وزیراعظم عمران خان نے سی این این کو دئیے گئے انٹرویو میں نہایت جذباتی انداز میں کہا کہ امریکہ کا افغانستان پر حملہ اور طالبان حکومت ختم کرنے کا فیصلہ غلط تھا۔ ماضی کی پاکستانی حکومتوں کو اس حوا لے سے امریکہ کا ساتھ نہیں دینا چاہئیے تھا۔ انہوں نے کہا کہ اگر میں اس وقت پاکستان کا حکمرا ن ہوتا تو کبھی بھی اس حملے کی حمایت نہ کرتا۔ وزیراعظم عمران خان امریکہ کی افغان پالیسی کے بارے میں کھل کر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں اور افغانستان میں ناکامی کا ذمہ دار امریکی حکمرانوں کے گھمنڈ اور تکبر پر مبنی پالیسی کو قرار دیتے ہیں۔ لیکن پاکستان میں ہمارے کئی لبرل دانشور اور ماضی میں طالبان کی حمایت میں لکھنے اور بولنے والے اب طالبان کی حمایت کرنے والوں پر تنقید کرتے ہیں۔ محترم سلیم صافی افغان امور پر مکمل عبور رکھتے ہیں۔ بعض اوقات ان کی گفتگو اتنی مدلل ہوتی ہے کہ باوجود کوشش کے اختلاف رائے ممکن نہیں ہوتا۔ میں اکثر ان کی رائے سے اتفاق کرتا ہوں لیکن ان کے ایک حالیہ کالم میں پاکستانی اکابرین کی طالبان کی حمایت میں گفتگو کو درست پالیسی قرار نہیں دیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی، نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر معید یوسف اور وزیراعظم عمران خان جس طرح امریکہ کی شکست پر جشن منا رہے ہیں وہ پاکستان کے لیے کوئی خیر کی خبر نہیں۔ انہوں نے ان بیانات کو امریکہ پر تبراً قرار دیتے ہوئے اسے امریکی قہر کو دعوت دینے کے مترادف قرار دیا۔ وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کو ایسے بیانات سے گریزکرنا چاہئیے کیونکہ یہ امریکہ کے زخموں پر نمک پاشی ہے۔ جس کا پاکستان کو نقصان ہوگا۔ میرا خیال اس سے ذرا مختلف ہے۔ سلیم صافی کی اس بات سے مجھے اتفاق ہے کہ وقت نازک ہے اس وقت انتہائی مہارت سے سفارت کاری کرنے کی ضرورت ہے۔ بے مقصد تنقید سے اجتناب برتا جائے تو بہتر ہے۔ لیکن بے جا تنقید ہوتی کہاں ہے۔ امریکہ کی افغان پالیسی کی ناکامی کی وجوہات بیان کرنا یا امریکہ کی ہٹ دھرمی، اس کے گھمنڈ اور بھارت کی طرف جھکاؤ جس نے بلوچستان اور کے پی کے میں دہشت گردوں کو سپورٹ کیا، کے بارے میں گفتگوتبراً یا نمک پاشی نہیں ہے۔ دنیا کے سامنے سچ اور جھوٹ کو کھل کر بیان کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
محترم سلیم صافی خود تحریر فرماتے ہیں کہ امریکی کانگریس میں امریکی وزیرخارجہ بیان دیتے ہیں کہ پاکستان نے دوغلی پالیسی اپنائی اور مکمل طور پر امریکہ کا ساتھ نہیں دیا۔ بلوم برگ نے اپنے اداریے میں لکھا ہے کہ افغانستان میں امریکی شکست کا ذمہ دار پاکستان ہے اور اسے سزا ملنی چاہئیے اور پابندیاں لگنی چاہئیں۔ امریکی میڈیا اور سیاستدان افغانستان میں ناکامی کا ملبہ پاکستان پر ڈال رہے ہیں کیونکہ سیاسی طور پر یہ انہیں سپورٹ کرتا ہے۔ ان حالات میں تو پاکستانی قائدین کے لیے انتہائی ضرورت ہے کہ وہ کھل کر امریکی منافقت کا پردہ چاک کریں۔ حقائق سے نہ صرف امریکی عوام بلکہ پوری دنیا کو آگاہ کریں کہ اس ناکامی کی اصل وجوہات منافقت، کرپشن اور ناکامی ہیں۔ یہ سب بیان کرنے سے آپ طالبان کے ترجمان نہیں بن رہے بلکہ حقائق سے آگاہ کررہے ہیں اور یہ نہایت ضروری ہے۔ یہ کہنا کہ خاموش سفارت کاری سے طالبان کو امریکی مطالبات پر قائل کرنا، انہیں مجبور کرنا کہ امریکہ کے حمایتی قبائل کو بھی وسیع البنیاد حکومت قائم کرنے کی آڑ میں اقتدار میں حصہ دیں، یہ ہرگز درست پالیسی نہیں ہو سکتی۔ اگر افغانستان کے اندر حکومت قائم کرنا افغان عوام کا بنیادی حق ہے۔ تو پھر انہیں کس طرح مجبور کیا جا سکتا ہے کہ حکومت میں تمام گروپس کو شامل کیا جائے، اس معاملہ کو افغان عوام پر چھوڑ دینا چاہئیے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ فوراً طالبان کی حکومت کو تسلیم کر کے انہیں وہ وسائل فراہم کرنا چاہئیے جس سے حکومتی ڈھانچہ مضبوط ہو۔ لوگوں کو بنیادی سہولتیں فوراً میسر ہوں تاکہ خانہ جنگی نہ ہو اور پاکستان کے لیے مہاجرین کی تعداد میں اضافہ نہ ہو۔ اگر ایسا ہوا تو ہماری معیشت پر اس کا گہرا اثر ہوگا۔
جس طرح عمران خان کہتے ہیں کہ اگر وہ بیس سال قبل وزیراعظم ہوتے تو کبھی افغانستان پر حملے کی پالیسی کی حمایت نہ کرتے اْسی طرح اب بھی وہ بہادری سے فیصلہ کریں اور طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے والے پہلے عالمی حکمران بنیں۔ امریکہ دباؤ ڈال رہا ہے کہ طالبان حکومت کو اس وقت تک تسلیم نہ کیا جائے جب تک طالبان امریکی دباؤ کے آگے جھک نہ جائیں۔ اور ان تمام گروپس کو جو ماضی میں افغانستان میں امریکی کھیل کھیلتے رہے انہیں اقتدار میں شامل کر لیں۔ اگر پاکستان امریکی خواہشات کی تکمیل کرتا ہے تو خطرہ ہے کہ مستقبل میں طالبان پاکستان کی بجائے امریکہ کو ہی اس خطے کا پاور بروکر سمجھیں گے۔ امریکہ ایک خوفناک گیم کھیل رہا ہے۔ اس وقت پاکستان میں سیاسی اور عسکری قیادت ایک پیج پر ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی سفارتی تنہائی ختم ہوتی ہے اور پاکستان اس خطے میں اہمیت کو پوری دنیا تسلیم کر رہی ہے۔ لیکن امریکہ کی جانب سے ہماری سیاسی قیادت کو نظر انداز کرنا ایک بڑی سازش کا حصہ ہو سکتا ہے۔ اس خطے میں انتشار سی پیک منصوبوں میں رکاوٹ کا باعث بن سکتا ہے اور ہم سب جانتے ہیں کہ ایسا کون چاہ رہا ہے۔
یہ سوال بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ شاید طالبان میں اتنی اہلیت نہیں ہے کہ معیشت اور داخلی معاملات کو سنبھال سکیں۔ کہا جا رہا ہے کہ افغانستان میں مرکزی بینک کا سربراہ ایسے شخص کو بنایا جا رہا ہے جنہیں عالمی معاشی امور کی سمجھ بوجھ نہیں ہے۔ میرے خیال میں تو یہ بہتر فیصلہ ہے۔ اگر کسی عالمی ادارے کے سابق ملازم یا مغرب سے پڑھے لکھے شخص کو مرکزی بینک سونپیں گے تو وہ فوراً آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی غلامی کا طوق اپنے گلے میں ڈالے گا۔ اور اسلامی بنیادوں پر ایک مضبوط معاشی ڈھانچہ قائم کرنے کی بات محض ایک خواب رہ جائے گی۔ اسی طرح یہ کہنا کہ طالبان کو احتجاجی مظاہروں کو ہینڈل کرنا نہیں آتا ایک گمراہ کن بات ہے۔ ہم سب نے ٹیلی ویڑن سکرینوں پر یہ دیکھا ہے کہ طالبان کس طرح احترام کے ساتھ خواتین مظاہرین کے ساتھ چل رہے تھے اور کسی طاقت کا استعمال نہیں کیا گیا۔ اس کے برعکس لندن اور امریکہ میں ہونے والے متعدد مظاہروں میں خواتین کو جس طرح گھسیٹا جاتا ہے وہ مغربی معاشرے کی منافقتوں کا مکمل اظہار ہے۔ امریکہ کی پاکستان پر تنقید حقیقی وجوہات پر نہیں ہے۔ یہ ایک پراپیگنڈہ ہے جس کا مقصد پاکستان کو بدنام کرنا ہے، دباؤ ڈالنا ہے کہ ہم خطے میں اپنی ضروریات کے مطابق کسی مقامی بلاک کا حصہ نہ بنیں۔ چائنہ سے دوری اختیار کریں اور بھارت کو اپنا بڑا تسلیم کریں۔ امریکی ترجیحات میں اب بھارت سے بہتر تعلقات شامل ہیں۔ اس صورت میں ایک آزاد خارجہ پالیسی ہی پاکستان کے بقا کی ضمانت ہے۔ آٹھ ملکوں کے انٹیلی جنس سربراہوں کو پاکستان میں اکٹھا کر کے انٹیلی جنس نیٹ ورک کے قائم کرنے کی بات کی گئی ہے۔ جس میں انڈیا اور امریکہ شامل نہیں ہیں، یہ درست سمت میں ایک بڑا قدم ہے۔ طالبان کی حکومت کو فوراً تسلیم کرنا پاکستان کے بہترین مفاد میں ہے۔ امریکی منافقت کا بھرپور جواب وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ امریکہ سپر پاور نہیں ہے، دنیا کی کئی دوسری طاقتوں کی طرح بس ایک طاقت ہے۔ ہماری صفوں میں مغرب کے پجاری اور امریکہ کو خدا سمجھنے والے بھی جتنی جلدی سمجھ جائیں، اتنا ہی ان کے حق میں بہتر ہو گا۔