لدخ میں بھارت اور چین کے بڑھتے تنائو کے بعد بھارت کی سٹریٹجک اور سیاسی غلطیاں ایک بار پھر دنیا بھر میں عیاں ہو رہی ہیں۔ جن کا بھارت جان بوجھ کر مرتکب ہو رہا ہے۔ ایسا تو ہونا ہی تھا جب بھارتی پالیسی میکرز اور سٹریٹجک پلانرز اپنی صلاحیتوں اور مہارت کے واہمے کا خود ہی شکار ہوں گے۔ بھارت دنیا کو یہ باور کرواتا رہا ہے کہ وہ ایک سپر پاور بننے جا رہا ہے اور یہ کہ بھارت چین اور اسلامی انتہا پسندی کے خلاف مغرب کا موثر اتحادی ثابت ہو سکتا ہے۔ بھارت نے جوہری چھتری تلے ایک ناقابل عمل جنگی حکمت عملی تیار کی اور بھارت کے متنازعہ علاقوں کو بھارت میں ضم کر کے پاکستان اور چین کو چیلنج کر دیا۔ بھارت کے آرٹیکل 370کے خاتمے نے پاکستان اور چین کے لئے قانونی راستے کھول دیے ہیں۔ سیاست میں انتہا پسندی کے نتائج کا سبق تاریخ حکومتوں اور سلطنتوں کے عروج پر زوال کی صورت میں متعدد بار دھرا چکی ہے۔ بھارت کی سٹریٹجک بے ربطگی کا پہلا مظاہرہ اس وقت سامنے آیا جب بھارت نے جوہری دھماکے کر کے اپنی ایٹمی صلاحیت کا مظاہرہ کیا تھا۔
دو مرتبہ وزیر اعظم بننے والے مودی کے دور میں بھارت اپنی ہی پیدا کی ہوئی سٹریٹجک دلدل میں گھٹنوں گھٹنوں دھنس چکا ہے یہاں تک کہ بھارت میں بھی ایسے ناقدوں کی کمی نہیں جو بھارت میں ابھرتی زعفرانی لہر کو فاشسٹ اور تباہ کن قرار دے رہے ہیں۔ جس کے اثرات ناصرف بھارت کے ہمسایہ ممالک خاص طور پر چین، نیپال، سکم، سری لنکا، بنگلہ دیش اور پاکستان پر مرتب ہو رہے ہیں بلکہ بھارت کے اپنے زیر کنٹرول علاقہ مقبوضہ کشمیر بھی اس سے متاثر ہو رہا ہے۔ بھارت کے مسلمان اکثریت شہریت کے قوانین میں تبدیلی کو اپنے لئے خطرہ محسوس کرتی ہے۔ اس کے علاوہ گائو رکھشا اور گھر واپسی کی مہمات نے اقلیتوں میں خوف و ہراس پیدا کر دیا ہے۔ بھارت پانی کی بندش ایسے ہتھکنڈے ناصرف اپنے ہمسایوں بلکہ اپنے صوبوں کے خلاف بھی استعمال کر رہا ہے۔ مودی سرکار جن نظریات کو فروغ دے رہی ہے ان کے بدترین اثرات قومیت پسندی کی صورت میں نمودار ہو رہے ہیں۔
مودی حکومت کے ہندو توا اور بھارت ورشہ کے تصورات کی فصیل اور چین اور خطہ میں مسلمانوں کے تھانیدار کی سوچ امریکہ اور مغربی ممالک کو خوش کر سکتی ہے۔ اس تباہ کن نظریہ اور بھارت کے جوہری ملٹری سٹریکچر کی مغرب نے بھی پشت پناہی کی۔ مگر وقت کے ساتھ ساتھ بھارت کی یہ پالیسی بکھرتی جا رہی ہے۔ دفاعی معاملات میں ایڈہاک ازم، غیر موثر فوجی ڈھانچہ اور تباہ کن سوچ بھارت کی جنگ گریز پالیسی پر زو لگا رہے ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ بھارت کے لئے روایتی جنگ، سرجیکل سٹریٹجک اور پیش بندی کے لئے حملہ اب بھارتی پالیسی کے برعکس ہو چکاہے۔ بھارت کئی دہائیوں سے جوہری چھتری تلے حتمی فوجی فتح کے خیال کے کھلونے سے کھیل رہا ہے اور خود ہی یہ بھی طے کر چکا ہے کہ امریکہ اس کا اتحادی ہو گا۔ محدود فوجی آپریشن کے ذریعے دو جوہری دشمنوں کے خلاف حتمی فتح کیونکر ممکن ہو سکتی ہے؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کے جواب نے برسوں بھارتی حکمت عملی سازوں کو چکرائے رکھا او ر پھر لداخ اور کشمیر کی صورتحا ل نے بھار ت میں طاقت کی راہداریوں کو ایک بار پھر مات دیدی۔ اس وقت بھار ت کا غصہ اور الجھن واضح طور پر محسوس کی جا سکتی تھی جب بھارت کے قومی سلامتی سیکرٹریٹ نے جرنل آف ڈیفنس سٹڈیز میں بیان جاری کیا کہ " اگر سیاسی مقاصد کے لئے جوہری جنگ سے احتراز برتا جا سکتا ہے تو بھی دو طرفہ تباہی کے امکان کے باوجود فتح کے تصور کے ساتھ آپریشنل پہلو سے اسے برقرار رکھنے کی کوشش کی جائے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ بھارت کے آپریشنل ڈاکٹرائن حقیقی سیاق و سباق میں ترتیب نہیں دیے گئے۔
پاکستان نے بھارت کی جوہری اور فوجی صلاحیتوں کے درمیان موجود اس خلا کو جواز بنایا اور بالا کوٹ پر کئے جانے والے بھارتی حملوں کے بعد اس کے ڈیٹرنس بائی پنشمینٹ، کے ڈاکٹرائن کو بے توقیر کر کے رکھ دیا۔ حال ہی میں چین کے ہاتھوں ہزیمت اٹھانے کے ساتھ ساتھ بالا کوٹ کے جعلی حملوں اور اپنے تین طیارے پاکستان کے ہاتھوں تباہ کرانے، آزاد کشمیر میں آف ٹارگٹ حملوں میں ناکامی نے بھارت کی فوجی حکمت عملی کی ساری مبالغہ آرائیوں کی قلعی کھول کر رکھ دی۔ جب بھارت کو ایک سا ل میں دو فوجی ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑاتو اس نے میڈیا اورپروپیگنڈا کے ذریعے دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کی۔ اس کا یہ پروپیگنڈہ بہت۔ پہلو دار ور کئی جہتوں کا حامل ہے۔ پاکستان کے لئے اس نے دہشت گردی کو بڑھاوا دیا۔ اس نے لداخ کا معاملہ اٹھا یا اور کورونا وائرس سے اپنے ہاں پیدا ہونے والی گھمبیر صورتحال اور اپنے علاقے پر چین کے قبضہ کے الزامات لگانے کے حوالے سے دنیا کی توجہ حاصل کر کی کوشش کی لیکن اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس سب کے باوجود نہ تو وہ خود کو بچا سکا اور نہ ہی اس کا مداوا کر سکا۔
پاکستان کے جس حکمت عملی نے بھارتی حکمت عملی کے سوتے خشک کرکے رکھ دیا وہ پاکستان کا الیکٹرو میگنٹ سپیکٹرم(ای ایم ایس) پر غلبہ ہے جس نے گویا بھارتی جاسوسی نظام کو اندھا بنا کر رکھ دیا۔ جہاں تک چین کا تعلق ہے اسے بھی جغرافیاتی اور سائبرسپیس میں برتری حاصل ہے۔ کیا ہو گااگر پاکستان اور چین مل کے مودی کی غلطیوں کو طشت ازبام کرنے کا فیصلہ کر لیں۔ کیا اب بھی بھارت چین سے ایٹمی جنگ یا 1965کی طرح کھلے محاذ پر پاکستان سے جنگ کرنے کا خطرہ مول لے سکتا ہے۔ اگر وہ یہ غلطی دہراتا ہے اور پاکستان اور چین کے خلاف محاذ کھولتا ہے اور اسے مغرب کی طرف سے ملٹری اور ٹیکنالوجیکل حمایت بھی ملتی ہے تو تب بھی وہ ایک بار پھر خود اپنے جال میں پھنس جائے گا۔
ماضی پر نظر ڈالیں تو قومیت پرستی کے نتیجہ میں دو جنگیں ہوئیں۔ مودی بھی بھارت ورشا کے تصوراتی گھوڑے پر سوار ہے اور وہ نہیں جانتا کہ ایٹمی جنگ بین الاقوامی استحکام و امن کے لئے بہت بڑا خطرہ ہے اس کا یہ یقین کہ ایک بھارتی سلطنت وجود رکھتی ہے اور وہ بھگوت گیتا کے ارجن ہیں اور اپنے ہزاروں رتھوں کے ساتھ ہوا کے دوش اڑ رہے ہیں تو یہ ان کی خام خیالی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اپنے دیوتائوں کے چنیدہ ہیں جسے رہنمائی کے لئے بھیجا گیا۔ لیکن وہ سرزمین جہاں اس کا استقبال آگ سے کیا جائے گا پاکستان ہے، جیسا کہ وہ اس کا تجربہ بالاکوٹ اور لداخ میں کر چکا ہے۔ پاگل پن کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ مودی کی توسیع پسندی کی پا لیسیاں جن کا اطلاق اس نے آرٹیکل 370اور 35اے کی صورت میں کیا ہے، ایسا جال ہے جس میں اس کا اپنا ملک پھنس ک رہ گیا ہے۔ یہ اقدام اب بھارت کو ہمیشہ زچ کرتا رہے گا۔ اگر کشمیرکو تین علاقوں میں تقسیم اور اس کے ساتھ لداخ کو یونین ٹیریٹری ڈکلئر کیا جاتا ہے تو ان سب سمجھوتوں ور اعتماد بحال کے اقدامات کا کیا ہو گا جن پر بھارت نے پاکستان اور چین کے ساتھ دستخط کر رکھے ہیں۔
بھارت نہرو اور راجیو گاندھی کے اس معاہدے سے روگردانی کر رہا ہے جو انہوں نے چین کے ساتھ کئے۔ بھارت نے پاکستان کے ساتھ کیے گئے شملہ معاہدہ اور لائن آف کنٹرول سے متعلق معاہدے کی بھی دھجیاں اڑا دی ہیں۔ اب جبکہ بھارت کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ کہتا ہے تو بین الاقوامی قانون اس امر کی اجازت دیتا ہے تحریک آزادی کو غیر ملکی مدد حاصل ہو۔ چین کے ساتھ لائن آف ایکچوئل کنٹرول اور پاکستان کے ساتھ لائن آف کنٹرول کے بھارت جب اپنے ہی معنی نکال رہا ہے تو اس کے بعد بھارت کے خلاف پاکستان اور چین کے لئے حرکیاتی اور غیر حرکیاتی تمام آپشن کھلے ہیں۔ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ چین نے لداخ میں جو کچھ کیا وہ صحیح ہے اس طرح پاکستان کے پاس بھی بھرپور آپشن ہے کہ وہ بھارت کے زیر قبضہ کشمیر میں داخل ہو جائے اگر اس پر پاکستان نے ایک بار قبضہ کر لیا تو پھر بھارت کو اس کے نتائج بھگتناپڑیں گے۔