پاکستان سٹیل مل کو بلا شبہ ایک مردہ بچے کی پیدائش کہا جا سکتا ہے۔ یہ سانحہ اس کا مقدر نہیں تھا کہ لیکن لالچ، حرص نااہلی اور وطن سے بے وفائی نے اسے ایک ایسی خواہش بنا دیا جو کبھی پوری نہ ہو سکی، ایک سایہ جس کاتعاقب کیا جاتا رہے اور ایک ایسا خواب جو ڈرائونا بن جائے۔ ایک فوری مسئلے کامسئلے کا سامنا جس کا 2020ء میں مجھے بطور پیٹرن آف انصاف جفاکش ورکرز فیڈریشنز اور انصاف لیبر ونگ کرنا پڑا، وہ پاکستان سٹیل مل کا تھا۔ اتفاقی طور پر میں نے 1999ء میں جی ایچ کیو کی مانیٹرنگ اس ٹیم کی سربراہی کی جس نے فخریہ طور پر مل کو ایک منافع بخش ادارہ بنانے کے لئے ایڑھ لگائی۔ 2004ء تک مل کو 12بلین کے بنیادی قرض اور 19ملین کے خسارہ اور 9بلین کے دوسرے نقصانات یعنی پانچ سال کے دوران اسے40 بلین کے خسارہ سے نکال لیا گیا۔ آج سے4 1 سال پہلے یعنی 2006ء تک تو پاکستان سٹیل مل اپنے اوج کمال پر تھی آخر 2015ء میں ایسا کیا ہوا کہ اچانک اس کی موت واقع ہو گئی۔ ملک میں کوویڈ 19 کی موجودہ صورتحال کے تناظر میں میں نے اپنی سی بی اے لیبر یونین کے ذریعے آکسیجن جنریشن پلانٹ کو دوبارہ شروع کرنے کامطالبہ کیا۔ یہ مطالبہ ہمارے چارٹر آف ڈیمانڈ کا حصہ ہی تھا جسے سٹیل مل اور وزارت صنعت نے مسترد کر دیا۔ اس سلسلہ میں نے مشیر رزاق دائود سے بھی طویل ملاقات کی لیکن یہ بھی نتیجہ خیز ثابت نہ ہو سکی۔
ہماری یہ تمام کوششیں برات عاشقاں بر شا خ آہو ثابت ہوئیں کیونکہ حکومت اور بیورو کریسی پہلے سے ہی اپنے دماغ میں اس قومی اثاثے کا سودا کرنے کرنے کا سودا لئے بیٹھی تھیں۔ وہ اس معاملے پر سپریم کورٹ کے دیے گئے فیصلوں سے بھی لاعلم تھیں اور انہوں نے ملک کی اعلیٰ ترین عدلیہ میں کیس کی موجودہ قانونی حیثیت پربھی چپ سادھ رکھی تھی۔ ملک کو اس وقت کووڈ 19کی وجہ سے آکسیجن کی بہت زیادہ ضرورت ہے اور بھارت کی طرح پاکستان کے پاس کووڈ 19کی بگڑ تی ہوئی صورتحال کے باعث آکسیجن کی بڑھتی ہوئی ضرورت سے نمٹنے کی صلاحیت بھی نہیں ہے۔ آکسیجن کے حوالے سے اپنے تمام وسائل جھونک دینے کے باوجود بھارت کے ہسپتالوں کوآ کسیجن کی انتہائی قلت کا سامنا ہے اور اس کے تمام ہسپتال بھی آئی سی یوز کے لئے اپنے انٹگرل آکسیجن کنسینٹریٹر پلانٹس رکھتے ہیں۔ پاکستان میں اکثر ہسپتالوں میں انٹگرل آکسیجن پروڈکشن کی صلاحیت نہیں ہے۔ صرف کرسچن ہسپتال ٹیکسلا میں یہ سہولت موجود ہے۔ اللہ معاف کرے، اگر پاکستان میں بھی آکسیجن کی طلب میں اضافہ ہو گیا تو ایک قومی ایمرجنسی لگانا پڑے گی اور پاکستان کو اس کے لئے درآمدات پر انحصار کرنا پڑے گا۔
اس لئے میں نے یہ ٹویٹ کیا کہ حکومت جلدازجلد پاکستان اسٹیل ملز کے آکسیجن پلانٹ کو جلد فعال کرے اور اس کی ملک کے بڑے ہسپتالوں میں ڈیوٹی فری انڈسٹریل فراہمی م کوممکن بنایاجائے ورنہ بہت دیر ہو جائے گی۔ ملک میں یہ سسٹم استعمال کرنے والا واحد ہسپتال کرسچن ہسپتال ٹیکسلا ہے۔ وہ آکسیجن باہر سے نہیں خریدتے۔ میں چاہتا تھا کہ متعلقہ حکام سے سٹیل مل کے ان غیر فعال پراجیکٹس پر کو فعال کرنیپر بات چیت کی جائے جنہیں چلتے ہوئے بند کیا گیا تھا۔ لیکن پھر میں ڈرتا ہوں کہ شاید بڑے پیمانے پر ہونے والی خورد برد، سافٹ ویئر کی کرپشن اور مثبت سوچ کے فقدان کے باعث یہ ممکن نہ ہو سکے۔ واقعات کا تفصیلی تجزیہ اس ناگزیر نتیجہ پر پہنچاتا ہے کہ 1998ء سے حکومت کے نجکاری کے کیس سپریم کورٹ نے 2006ء میں مسترد کئے اور پھر مئی 2012ء میں اس جانب ا شارہ کرتے ہوئے اسے دوبارہ مسترد کر دیا کہ حکومت اس کیس کی پیروی کرنا نہیں چاہتی۔ حکومت چار و نا چار اسے فروخت ہی کرنا چاہتی ہے۔ 2006ء سے کسی حکومت نے اس مسئلے کو گہرائی سے جانچنے کے لئے اس امر کی تحقیقات کرنے کی کوشش نہیں کی کہ آخر یہ نقصان کیسے ہوا، اس نااہلی کا ذمہ دار کون ہے اور اس کے لئے کس کو جوابدہ ہونا چاہیے۔ وزارت قانون نے اس کے لئے اس کی کوئی تیاری نہیں کی اور ایچ او آئی اینڈ پی نے نقصان کے حوالے سے ای سی سی اور کابینہ کو اس کے بارے میں حقیقی معلومات فراہم نہیں کیں۔ ان حیلے بہانوں کی نشاندہی سپریم کورٹ کی طرف سے کی گئی، لیکن ان کو رفع کرنے کا کوئی اہتمام نہیں کیا گیا ہے۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد 1947ء میں ہی ملک میں سٹیل ملز لگانے کی ضرورت محسوس کی جانے لگی جس کو مختلف وجوہ پر عملی جامہ نہ پہنایا جا سکا آخر 1973ء میں پاکستان سٹیل ملز کا سنگ بنیاد رکھا گیا اور 1985ء میں اس منصوبے کا افتتاح ہوا۔ اس کے بعد سٹیل ملز میں سیاسی مداخلت بدنظمی، لالچ اور اشرافیہ میں موجود بااثر طبقہ کے ملز میں لوٹ مار کا نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہوا اور انجام پاکستان سٹیل ملز کے مسلسل خساروں کی وجہ سے بندش پر ہوا اور 2015ء میں پاکستان سٹیل ملز کا آکسیجن پلانٹ بھی چلتی حالت میں بند کر دیا گیا اور میڈیا کے ذریعے یہ تاثر پختہ کر دیا کہ پاکستان سٹیل ملز مردہ ہو چکی ہے۔
سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر پاکستان پیپلز پارٹی نے کیسے اپنے بانی ذوالفقار علی بھٹو کے اس عظیم الشان منصوبے کو تباہ ہونے دیا بلکہ اس کی تباہی میں اپنا حصہ بھی ڈالا؟ جہاں تک کہ پاکستان سٹیل ملز کے آکسیجن پلانٹ کو بند کرنے کا معاملہ ہے تو یہ بھی ذاتی مفادات کا شاخسانہ اور غیر جانبدار تحقیقات کا متقاضی ہے اس کا تعلق 2006ء میں وزیر صنعت و پیداوار جہانگیر ترین کی طرف سے موریشس کی شور کمپنی پی ایس ایم سی کے ساتھ لیٹر آف انٹرسٹ سائن کرنے سے جڑا ہے جس کو بھارتی سرمایہ کار میتل کنٹرول کرتے تھے کوئی بھی سرکاری دستاویز یہ وضاحت کرنے سے قاصر ہے کہ یہ المیہ کیونکر وقوع پذیر ہوا۔ سچ تو یہی ہے کہ اس کے پیچھے پاکستان کے بدخواہوں کی یہ خواہش کارفرما تھی کہ پاکستان کو پسماندہ رکھا جائے اور یہ عالمی سرمایہ دارانہ نظام کی معاشی سیاست کے ذریعے اقوام کی خود مختاری کو کنٹرول کرنے کا حربہ بھی ہے۔
میرا خیال ہے کہ پاکستان سٹیل ملز کے گرو اب پاکستان سٹیل ملز کے آکسیجن پلانٹ کو چالو کرنے پر آمادہ ہیں اور دانستہ طور پر اس حقیقت کو نظر انداز کر رہے ہیں کہ 2015ء سے بند پڑے اس پلانٹ کے سافٹ ویئر کے کرپٹ ہونے کا اندیشہ بھی ہے پلانٹ کے خودکار انٹریئر اور انو نٹریر سسٹم بھی ختم ہو چکا ہے جس کی وجہ سے سیاسی اشرافیہ اور افسر شاہی کو ایک بار پھر لوٹ مار کا موقع میسر آ سکتا ہے یہ بھی ممکن ہے کہ حکومت وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے افسران پر مشتمل ایک خصوصی کمشن مقرر کرے جس کو آکسیجن پلانٹ کو فعال کرنے کی ذمہ داری سونپی جائے۔
وزیر اعظم کو ایک جے آئی ٹی تشکیل دینی چاہیے جو یہ تحقیقات کرے کہ آخر سپریم کورٹ کے 2006ء کے سٹیل ملز کی تباہی کے ذمہ داران کے تعین کے احکامات کو نظر انداز کیوں کیا گیا بلکہ اس کے بعد کی بے ضابطلیوں، خسارے سٹیل کی درآمد اور معاشی فراڈ کی بھی تحقیقات ہونی چا ہیے۔ وزیر اعظم کی طرف سے تشکیل دی جانے والی جے آئی ٹی کو تمام معاملات کی تحقیقات کا اختیار ہونا چاہیے حکومت سپریم کورٹ کی جانب سے اٹھائے گئے سوالات کے جواب تلاش کئے بغیر قومی اثاثے کو فروخت نہیں کر سکتی اس دوران حکومت آکسیجن پلانٹ کو فعال کرنے اور ملک بھر میں آکسیجن کنسٹریٹر کی ڈیوٹی فری درآمد کی اجازت دے۔