1996-97ء میں بھارت سیاسی عدم استحکام کا شکار تھا۔ بی جے پی باوجود اس کے تیزی سے واحد اکثریتی پارٹی بن کر ابھر رہی تھی یونائٹیڈ فرنٹ کے متفقہ امیدوار جس کو کانگریس کی ضمانت حاصل تھی۔ محض 11ماہ حکومت قائم رکھ سکے۔ اس کے بعد اگلے وزیر اعظم آئی کے گجرال کی حکومت بھی اکثریت نہ ہونے کی وجہ سے دسمبر 1998ء میں ختم ہو گئی۔ بی جے پی کانگریس اتحاد پر کرپشن کے الزامات لگا کر مسلسل مسائل کھڑے کر رہی تھی۔ بی جے پی کانگریس کو کمزور کرنے کے لئے بھارت ورشاکا نعرہ لگا رہی تھی۔ رائے عامہ سے اندازے لگائے جا رہے تھے کہ 1998ء کے انتخابات میں بی جے پی بھارت میں واضح اکثریت سے انتخابات جیتنے میں کامیاب ہو جائے گی۔ بی جے پی نے اپنی الیکشن مہم جنونی وطن پرستی اور پاکستان مخالف پراپیگنڈہ پراستوار کر رکھی تھی جس سے پاکستان میں بھارت کی جوہری مقاصد کے حوالے سے تحفظات جنم لے رہے تھے۔ پاکستان کے پاس واحد آپشن یہی تھا کہ حالات کا بغور جائزہ لیا جائے۔ پاکستان کے سکیورٹی پالیسی سازوں کے لئے سب سے اہم مسئلہ یہ جاننا تھا کہ آیا بی جے پی اقتدار میں آنے کے بعد جوہری دھماکوں کے بیانیہ پر عملدرآمد کرے گی؟ یہ ذمہ داری راقم کو سونپی گئی۔ نومبر 1998ء میں اس وقت کے آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت نے یہ پتہ لگانے کا کام مجھے سونپا کہ کیا بھارت جوہری ٹیسٹ کرے گا۔ اس سٹڈی کو مارچ 1998ء میں مکمل کرنا تھا۔ یہ اسائنمنٹ اس لحاظ سے بھی چیلنجنگ تھی کیونکہ اس سٹڈی کو مارچ 1998ء میں بی جے پی کے اقتدار میں آنے تک مکمل کرنا تھا۔ ابتدائی طور پر تو تحقیقات کا آغاز مفروضوں سے ہی کیا گیا۔ بی جے پی کی الیکشن مہم کے دوران کچھ اشارے مل رہے تھے مگر ان کو محض الیکشن جیتنے کے جتن کہہ کر مسترد کیا جا سکتا تھا کیونکہ بظاہر اس طرح کی عملی صورت دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ اس لئے ہم نے اپنے مفروضے کی بنیاد سنگ پریوار کی ذہنیت پر رکھی۔ ہمارے پاس بھارت کی تکنیکی مہارت اور 1974ء کے بعد جوہری تجربات کے حوالے سے معلومات موجود تھیں۔ 1974ء کے بعد ایک نسل گزر چکی تھی جس کا مطلب تھا کہ بھارت کے پاس 1974ء میں دھماکے کرنے والی ٹیم کے بہت سے افراد اب نہ ہوں گے، تکنیکی صلاحیت کے اس فقدان کو بنیاد بنا کر ہم نے بھارت کے جوہری صلاحیت کے خلا کو بنیاد بنا کر ہم نے کام شروع کیا کہ اگر بھارت جوہری تجربہ کرنے کا فیصلہ کرتا ہے تو اس کو کس قسم کی مشکلات کا سامنا ہو گا اور ان پرقابو پانے کے لئے بھارتی پالیسی ساز کیا کیا طریقہ استعمال کر سکتے ہیں ابتدائی طور پر ہماری تحقیق ان بنیادی تکنیکی ایشوز پر تھی۔
ان ابتدائی تکنیکی معلومات کی بنا پر ہم اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ 1974ء میں بھارت نے جو جوہری تجربات کئے تھے ان کا ڈیزائن 1950ء کے روایتی قسم کا تھا جس سے بھارت جوہری ہتھیار نہیں بنا سکتا تھا۔ بھارت کے لئے وار ہیڈ ڈیزائن تک پہنچنے کے لئے مزید تجربات ضروری تھے۔ ہم اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ عشروں پہلے کے اعداد و شمار اور جوہری ڈیزائن سے جوہری ہتھیاروں تک پہنچنے کے لئے بھارت کو مزید کام کرنا پڑے گااور اپنے ڈیزائن کو موثراور جدید بنانا ہو گا۔ یہ بات ہمارے علم میں تھی کہ بھارت پلوٹینیم روٹ پر عمل پیرا تھا جس کا تجربہ ماضی میں نہ ہوا تھا پلوٹینیم سے وار ہیڈ کے لئے نہایت چھوٹے اور موثر تجربات کی ایک سیریز ضروری تھی۔
ہم اس بات سے بھی باخبر تھے کہ بھارت ڈلیوری سسٹم کی بھی ایڈوانس سٹیج تک پہنچ چکا تھا اور بھارت کو اپنے وار ہیڈز کو اس ڈلیوری سسٹم کے مطابق ڈھالنا تھا تاکہ ڈلیوری سسٹم اور فضائی ڈیزائن سے وار ہیڈز مطابقت رکھتے ہوں جس کے لئے تجربات ناگزیر ہیں۔ سنگ پریوار اور بی جے پی کا بیانیہ اور بھارت ورشا کی سوچ بھارت کی جوہری صلاحیت کو بڑھائے بغیر نامکمل تھی۔ اس لئے بھارت کی طرف سے جوہری تجربات کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا تھا۔
ہماری تحقیق کی بنیادیں اس بات پر تھی کہ اگر بی جے پی اقتدار میں آتی ہے تو بھارت جوہری تجربات میں عجلت کا مظاہرہ کرے گا۔ اس لئے پاکستان کو بھی ردعمل کے لئے تیار رہنا ہو گا۔ ہماری اصل توجہ ٹیکنیکل اہمیت کے معاملات پر تھی۔
ہمارے پاس بھارتی جوہری پروگرام کے متعلق زیادہ تر معلومات جرائد اور مطالعاتی سٹڈیز سے حاصل کردہ تھیں۔ بھارتی حکومت اور سائنسدانوں نے تو اس حوالے سے ہونٹ سی رکھے تھے۔ ہمارے پاس پلوٹینیم ریکٹر کی معلومات کے علاوہ کولڈ سٹنگ کے حوالے سے کوئی معلومات نہ تھیں اس لئے ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم اسرائیل کے جوہری پروگرام کے متعلق انفارمیشن اکھٹی کریں اور سمجھنے کی کوشش کی جائے کہ بھارت بغیر ٹیسٹ کئے کس طرح جوہری ہتھیار بنا سکتا ہے۔ ہمیں شبہ تھا کہ اسرائیل اور بھارت ٹیکنیکل جوہری ڈیٹا کا تبادلہ کرتے ہیں۔ اس حوالے سے راولپنڈی اور اسلام آباد کی لائبریریوں سے حاصل معلومات کافی نہ تھیں اس لئے جدید کتب اور معلومات کی تلاش مجھے آکسفورڈ یونیورسٹی کے پریس کی امینہ سید تک لے گئی۔ جہاں میں نے ڈاکٹر ظفر اقبال چیمہ کی مدد سے چند کتب کی فہرست مرتب کی مگرامینہ نے مجھے اس وقت حیران کر دیا جب وہ مجھے تہہ خانے میں لے گئی جہاں الماریاں جوہری حکمت عمل کی کتابوں سے بھری پڑی تھیں۔ یہی وہ خزانہ تھا جس کی ڈاکٹر ظفر چیمہ کو تلاش تھی۔ دسمبر 1997ء تک ہم نے اتنی کتابوں کا مطالعہ کر لیا تھا کہ یہ اندازہ لگایا جا سکے کہ اگر بھارت جوہری تجربات کا فیصلہ کرتا ہے تو وہ کیا کرے گا۔ (جاری ہے)