حضرت خواجہ غریب نواز ؒ کے ایام عرس کے دوران اجمیر شریف شہر ایک مہمان خانہ بن جاتا ہے۔ عرس کے دنوں میں تقریباً دس لاکھ سے زائد افراد حاضری دیتے ہیں۔ بھار ت کے مختلف حصوں سے لوگ پیدل بھی آتے ہیں اور منتیں اور مرادیں مانگتے ہیں۔
سات سو سال گزرنے کے باوجود جس تواتر سے ہزاروں لوگ روزانہ حضرت خواجہ غریب نواز ؒ کے حضور حاضری دیتے ہیں یہ ایک زندہ کرامت ہے۔ حضرت خواجہ غریب نواز ؒ کی درگاہ پر نصب دیگ کے بارے میں بہت کچھ سنا تھا۔ مجھے جب حاضری کا موقع ملا تو یہ دیکھا کہ یہاں ایک نہیں دو دیگیں ہیں۔ ایک دیگ اکبر بادشاہ کے نام سے اور دوسری دیگ جہانگیر بادشاہ کے نام سے منسوب ہے۔ اکبر کی دیگ میں ایک سو بیس من (چار ہزار آٹھ سو کلو)اور جہانگیر کی دیگ میں ساٹھ من غذا پکائی جا سکتی ہے۔
دونوں دیگیں درگاہ کے صحن میں ہیں۔ کئی سیڑھیاں چڑھ کر دیگ تک پہنچا جاتا ہے۔ زائر ین ان میں نذرانے ڈالتے ہیں۔ درگاہ کے سجادہ نشین سید واحد حسین نے بتایا کہ صرف عرس کے چھ دنوں میں ان دیگوں سے نذرانے جمع کرنے کا ٹھیکہ کئی کروڑ روپے سے زائد رقم میں دیا جاتا ہے۔ ٹھیکہ دار عرس سے پہلے یہ رقم درگاہ کی انتظامی کمیٹی کو دے دیتا ہے اور ان دیگوں سے آنیوالے نذرانے وہ حاصل کر لیتا ہے۔ لوگوں نے ان دیگوں میں اناج، نقد رقم اور سونے چاندی کے زیورات، منت پوری ہونی کی علامت کے طور پر ڈالے ہوئے تھے۔
درگاہ کی انتظامی کمیٹی کے رکن بتا رہے تھے کہ عام طور پر تو لوگ منت پوری ہونے پر چھوٹی دیگیں چڑھاتے ہیں لیکن بعض مخیر حضرات ان بڑی دیگوں میں بھی اکثر کھانا پکوا کر تقسیم کرتے ہیں۔ عرس کے ایام میں باری باری ان بڑی دیگوں میں کھانا پکتا ہے۔ ان بڑی دیگوں میں کھانا پکانا ہر باورچی کے بس کا کام نہیں۔ اکبر بادشاہ نے ایک خاص باورچی اس کام کے لیے متعین کیا تھا۔ اسی باورچی کا خاندان اب تک نسل در نسل یہ کام کر رہا ہے۔
اکبر بادشاہ کو حضرت خواجہ غریب نواز ؒسے عقیدت تھی۔ وہ جب بھی کسی بڑی مہم کے لیے روانہ ہوتا تو یہاں دعا کرتا اور منت مانگتا۔ تاریخی حوالے بتاتے ہیں کہ گجرات اورچتو ڑ کی فتح کے لیے بھی اکبر نے یہاں خصوصی دعا کی اور فتح کے بعد یہاں منت پوری کی۔ اولاد نرینہ کے لیے بھی اکبر نے جب یہاں دعا کی تو اسے خواب میں بشارت ہوئی کہ وہ فتح پور سکری میں حضرت خواجہ سلیم چشتی ؒ کے حضور حاضر ہو کر دعا کرائے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ اکبر بادشاہ نے اس پر عمل کیا اور اللہ تعالیٰ نے اسے شہزادہ سلیم (جہانگیر بادشاہ) کی شکل میں بیٹا عطا کیا۔
ہندوستان میں اسلام کی تبلیغ اور ترویج کے لیے حضرت خواجہ غریب نواز ؒ اور دوسرے بزرگان دین نے جو خدمات انجام دیں، ان کی بدولت آج اس خطے میں اسلام کا بول بالا ہے۔ بھارت اور پاکستان کے ماضی کے حکمرانوں، بادشاہوں، صدر اور وزرائے اعظموں کے مزاروں پر جائیں تو گنے چنے لوگ پکنک کی غرض سے وہاں جاتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں لیکن اگر ہم بزرگان دین کے مزارات کا موازنہ کریں تو ہر روز ہزاروں افراد کو وہاں پائیں گے۔
دنیاوی حکمران اپنی زندگی میں خود کو عوام سے دور رکھتے ہیں اور ان پر ٹیکس لگا کر خزانے میں دولت جمع کرتے ہیں جب کہ یہ اللہ والے اپنی زندگی میں بھی عوام کے دکھ درد بانٹتے ہیں، انھیں دعائیں دیتے ہیں اور صراط مستقیم کی راہ دکھاتے ہیں، یہ بزرگان دین جب دنیا سے پردہ کر جاتے ہیں تب بھی ان کے مزارات پر غریب اور دکھی لوگوں کو لنگر کی شکل میں مفت کھانا ملتا ہے۔ نذرانے کے طور پر بھاری رقوم بھی حاصل ہوتی ہیں جن سے ان مزارات کی دیکھ بھال اور زائرین کا انتظام و انصرام کیا جاتا ہے۔
بزرگان دین کے مزارات پر ہمہ وقت زائرین کا ہجوم رہتا ہے۔ بابا فرید گنج شکرؒ، بہائو الدین زکریاؒ، حضرت امام بری ؒ، گولڑہ شریف، داتا گنج بخشؒ، خواجہ نظام الدین اولیاؒ، شہباز قلندر ؒ اور خواجہ معین الدین چشتی اجمیری ؒ کے مزارات کو دیکھ کر سلطان باہوؒ کا یہ مصرع یاد آتا ہے۔
اس دنیا وچ انہاں نے کھٹیا
قبر جنہاں دی زندہ ہُو