سوئی گیس اور بجلی کمپنیوں نے گھر یلو صارفین کے بلوں میں سلیپ کے نام سے عوام کی جیب کاٹنے کا ایک ایسا گورکھ دھندا متعارف کرایا ہے کہ اس کی مثال شاید ہی دنیا کے کسی ملک میں ہو۔
پاکستان میں مہنگائی بے روزگاری اور افراط زر نے پہلے ہی عوام کی زندگی د و بھر کر رکھی ہے، دوسری طرف حکومت کے بعض ادارے ایسی ایسی فنکاریاں کرکے عوام کی جیب پر ڈاکا ڈال رہے ہیں کہ کچھ سجھائی نہیں دیتا۔
سوئی، گیس اور بجلی کی کمپنیوں نے عوام کو بیوقوف بنانے کے لیے سلیب کے نام سے جو فارمولا متعارف کرایا ہے، اس کے تحت ایک سلیب سے دوسری سلیب میں جانے پر انھیں ہزارہا روپے اضافی ادا کرنے پڑتے ہیں۔ سوئی گیس بلوں کی سلیب کچھ اس طرح ہے۔
سلیب (1) 272 روپے
سلیب (2) 1257 روپے
سلیب (3)4570 روپے
سلیب (4)9125 روپے
سلیب (5) 18227 روپے
سلیب (6)18290روپے
پہلے سلیب ریٹ اور دوسرے میں فرق 1000روپے کا ہے۔
دوسرے سے تیسرے میں فرق 3300 روپے کا ہے۔
تیسرے سلیب اور چوتھے کا فرق 9000 روپے کا ہے۔
سلیب دھوکا اور ظلم ہے۔ آپ گاڑی میں پٹرول ڈلواتے ہیں تو کبھی ایسے ہوا ایک لیٹر100روپے فی لیٹر۔ اگر دو لیٹر 1100 روپے فی لیٹر۔ تین لیٹر 3300 روپے فی لیٹر۔ صرف ایک دن ریڈنگ لیٹ لینے سے بل 272 سے 1257 ہو سکتا ہے۔
اور اب ملاحظہ کیجیے بجلی کمپنیوں کا کمال فن۔ 300 یونٹ کا بل 3300 بمعہ ٹیکس اور 301 یونٹ کا 4400 بمعہ ٹیکس۔ کیا ایک یونٹ زیادہ صرف کرنے سے 1100 روپے کا فرق؟ کیا آپ نے کبھی 5 لیٹر کوکنگ آئل لیا تو 1000 کا اور 6 لیٹر 2000 کا…
انرجی بلنگ صارفین اور حکومت کے درمیان ایک اہم مالی رابطہ تصور کیا جاتا ہے۔ ان انرجی بل کو ایک تعلیم یافتہ شخص بھی آسانی سے نہیں سمجھتا چہ جائیکہ ان پڑھ اور کم خواندہ لوگ اسے سمجھ سکیں۔ یہ انرجی بل سلیپ اور ٹیکنیکل اصطلاحات کا ایک ایسا امتحان ہے کہ جس کا پرچہ حل کرنا مشکل ہے۔ بات یہاں ہی ختم نہیں ہوتی بلکہ اکثر اوقات بل ادائیگی کی آخری تاریخ سے ایک دو دن پہلے ہی صارفین کو ڈلیور کیے جاتے ہیں، طرہ یہ کہ اس پر درج ہوتا ہے کہ اگر بروقت ادائیگی نہ کی گئی تو سپلائی کاٹ دی جائے گی۔
ایک عام آدمی یا دیہاڑی دار جس کی ماہانہ آمدنی بمشکل بیس ہزار روپے ہوتی ہے، وہ اگر کسی ماہ "سلیبی فارمولے"کی سولی پر چڑھ جائے اور اسے کئی ہزار روپے کا انرجی بل آ جائے تو اس کی نیند حرام ہو جاتی ہے۔ اگر وہ کسی بھی مالی مجبوری کی وجہ سے بروقت بل ادا نہ کر سکے تو اسے جرمانہ بھی دینا پڑتا ہے اور اگر مزید لیٹ ہو جائے تو سپلائی کاٹ دی جاتی ہے۔ اس کی بحالی پر اسے مزید جرمانہ بھی ادا کرنا پڑتا ہے اور کئی ہفتے انتظار کی کوفت سے بھی گزرنا پڑتا ہے۔ مہنگائی کم نہ کریں لیکن زیادتی بھی تو نہ کریں۔
اس صورتحال کا حل کیا ہے؟
اسے تجویز کرنا عام آدمی کے بس میں نہیں، اعلیٰ عدلیہ، خاص طور پر چیف جسٹس آف پاکستان، وزیراعظم پاکستان یا بجلی اور پانی کے وفاقی وزیر اگر اس جانب توجہ دیں تو ممکن ہے کہ سلیپ کے نام پر بجلی اور گیس کمپنیوں کی اس لوٹ مار کا کوئی حل نکل سکے اور غریب عوام کی مشکلات میں آسانی پیدا ہوئے۔ واللہ اعلم بالصواب…