پاکستان میں جب بھی انتخابات کا موسم آتا ہے یا کوئی حکومت کمزور ہوتی ہے تو ہمارے سیاستدان وفاداریاں بدلنے کا ریکارڈ قائم کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ فنکشنل مسلم لیگ، ق لیگ، ہم خیال گروپ پیپلزپارٹی پیٹریاٹایم کیو ایم حقیقی، ترین گروپ سب ہی اسی تسلسل کی کڑی شمار کی جاتی ہیں۔
سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے اور قلابازیاں کھانے والوں کے لیے یہ اصطلاح اب عام ہو چکی ہے۔ پاک و ہند میں ان سیاسی لوٹوں کی تاریخ کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ اعزاز سب سے پہلے جس سیاست دان کو ملا اس کا نام ڈاکٹر شیخ محمد عالم تھا۔ ڈاکٹر عالم لوٹا کون تھے، انھیں یہ خطاب کب اور کن اداں کی وجہ سے دیا گیا اس کے لیے تاریخ کے اوراق کو کھنگالنا ضروری ہے۔
سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے اور قلابازیاں کھانے والوں کے لیے یہ اصطلاح لوٹا عام ہوچکی ہے۔ ان سیاسی لوٹوں کی تاریخ کھنگالنی شروع کی تو اس نتیجے پر پہنچے کہ ہندوستان کی سیاسی تاریخ میں اس اعزاز کے پہلے سزاوار کا نام ڈاکٹر شیخ محمد عالم تھا۔ جن کی عرفیت لوٹا اتنی مشہور ہوئی کہ آج بھی تاریخ میں انھیں ڈاکٹر عالم لوٹا کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
ڈاکٹر عالم لوٹا کون تھے؟ انھیں لوٹا کا خطاب کب، کس نے اور ان کی کن اداں کی وجہ سے دیا، یہ معلوم کرنے کے لیے ہم نے تاریخ کے اوراق کھنگالنے شروع کیے تو ان حوالوں کے جوابات کے علاوہ ان کے بارے میں اور بھی بہت سی مفید معلومات حاصل ہوئیں۔ ڈاکٹر شیخ محمد عالم کا تعلق سرگودھا سے تھا۔ وہ 1887 میں پیدا ہوئے۔ ان کے بارے میں سب سے تفصیلی معلومات چراغ حسن حسرت کی نادر و نایاب کتاب؛ دو ڈاکٹر؛ میں ملتی ہے۔ حسرت ان کے بارے میں لکھتے ہیں:
ڈاکٹرڈاکٹر عالم نے گورنمنٹ کالج لاہور میں بھی تعلیم پائی لیکن بی اے اوکسفرڈ سے پاس کیا، بیرسٹری کی ڈگری لندن سے لی۔ ڈبلن سے ایل ایل ڈی ڈپلومہ بھی لے آئے اور لاہور آ سے بیرسٹری کی پریکٹس شروع کر دی۔ جنگ سے پہلے کا زمانہ تھا اور ڈاکٹر صاحب کی اٹھتی جوانی تھی، ان کی پریکٹس دنوں میں ہی چمک گئی لیکن لاہور کی آب و ہوا راس نہ آئی اور اپنے شہر سرگودھا جلے گئے۔ سرگودھا میں وکالت ہی کرنا تھا تو بیرسٹری کیوں پاس کی، اوکسفرڈ سے بی اے کی ڈگری کیوں لی؟ ایل ایل ڈی کا ڈپلومہ آخر کس کام آئے؟
حسرت مزید لکھتے ہیں کہ ڈاکٹر عالم کے ذہن میں خلافت، کانگریس، چرخہ، ستیہ گرہ اور اس قسم کے دوسرے مسائل تیزی سے گردش کر رہے تھے۔ مذہب سے انھیں چنداں شغف نہ تھا، مسلمانوں کی اجتماعی سرگرمیوں سے بھی وہ الگ تھلگ رہتے تھے۔
حسرت لکھتے ہیں ایک دن ڈاکٹر عالم بیٹھے اخبار پڑھ رہے تھے، دفعتا انھیں خیال آیا کہ لوگ بڑے بڑے عہدے چھوڑ کے کانگریس اور خلافت کی تحریکوں میں شامل ہو رہے ہیں، میں بھی کیوں نہ پریکٹس ترک کر دوں۔ انھوں نے اسی وقت مولانا محمد علی کو خط لکھا، چند دن کے بعد جواب آیا کہ سیدھے علی گڑھ چلے آ۔ سرگودھا کے اسٹیشن پر دوست احباب کے علاوہ بہت سے کانگریسی اور خلافتی کارکن انھیں چھوڑنے آئے۔ ڈاکٹر صاحب کھدر کا لباس پہنے ہوئے تھے، گلے میں پھولوں کے ہار تھے جن کے بوجھ سے ان کی گردن خم ہوئی جارہی تھی۔
انجن نے سیٹی دی اور وہ گاڑی میں جا بیٹھے۔ اسٹیشن بندے ماترم، اللہ اکبر اور زندہ باد کی صداسے گونج اٹھا۔ علی گڑھ میں مولانا محمد علی اور دوسرے لیڈر جامعہ ملیہ کے نام سے ایک یونیورسٹی قائم کر رہے تھے۔ اس نئی یونیورسٹی کے پاس نہ روپیہ تھا نہ اپنی عمارت، صرف اللہ کا نام تھا۔ پہلے خیموں میں تعلیم دی جاتی رہی، پھر گھاس پھوس کے چند جھونپڑے تعمیر کر لیے گئے۔
مسلم یونیورسٹی کے بہت سے طلبہ جو ترک موالات کی تحریک سے متاثر تھے، ادھر سے ٹوٹ کے جامعہ ملیہ میں شامل ہوگئے تھے باہر کے طلبہ بھی برابر چلے آرہے تھے۔ جب وہ علی گڑھ پہنچے تو انھیں نائب شیخ الجامعہ مقرر کر دیا گیا۔۔۔ جامعہ پہنچتے ہی ان کی وضع قطع بدل گئی۔ کھدر کا پاجامہ اور اس پر کھدر کی ایک عبا، سر پر کھدر کی ایک سرخ ٹوپی جس پر چاند تارا کڑھا ہوا۔
جامعہ کی پرنسپلی کے لیے جس قسم کی قابلیت اور استعداد کی ضرورت تھی وہ ان میں سرے ہی سے نہیں تھی۔ ڈاکٹر صاحب کو اس بات کا احساس ہو گیا کہ ان سے یہ کھکیڑیں نہیں اٹھ سکیں گی، چنانچہ وہ جامعہ سے مستعفی ہو کر لاہور چلے آئے اور پریکٹس شروع کر دی۔ اب اتنا ہی ہے، باقی احوال آیندہ بتاؤں گا۔