مارچ 1931 میں کانگریس کا سالانہ اجلاس کراچی میں ہوا تو گاندھی نے خواہش ظاہر کی کہ پنجاب کے کسی مسلمان کو مجلس عاملہ میں رکھا جائے۔ انھوں نے ابوالکلام آزاد نے مولوی عبدالقادر قصوری سے ذکر کیا اورانھوں نے اپنے دوست ڈاکٹر محمد عالم کا نام تجویز کر دیا۔ یوں وہ کانگریس کی مجلس عاملہ میں آئے۔
جواہر لال نہرو نے اپنی خود نوشت میری کہانی میں لکھا ہے کہ ڈاکٹر عالم کی نامزدگی سے پنجاب میں کانگریس کو بہت نقصان پہنچا، بہرحال ڈاکٹر عالم کو یہ عزت بھی راس نہ آئی۔ کچھ ہی دنوں بعدوہ مجلس احرار میں نہ صرف شامل ہوگئے بلکہ مجلس عاملہ کے رکن بھی بن گئے۔ 1936 میں لاہور میں مسجد شہید گنج کا غلغلہ بلند ہوا تو ڈاکٹر عالم کو ایک مرتبہ پھر منظر عام پر آنے کا موقع مل گیا۔ شام کو موچی دروازے کے باغ میں جلسہ تھا۔
ڈاکٹر عالم بھی پہنچے اور اس زناٹے کی تقریر کی کہ ڈاکٹر عالم زندہ باد کے نعروں سے سارا موچی دروازہ گونج اٹھا۔ شہید گنج کی تحریک میں ڈاکٹر صاحب کا نام مولانا ظفر علی خان کے نام کے ساتھ لیا جاتا تھا۔ ادھر عدالت میں شہید گنج کے مقدمہ کی سماعت شروع ہوئی، ڈاکٹر عالم کے دعوے تو بڑے بڑے تھے لیکن عدالت میں مقدمہ ہار گئے۔ دوپہر کو فیصلہ سنایا گیا، سہ پہر کو مولانا ظفر علی خان کے ہاں مختصر سا اجتماع ہوا جس میں چوہدری افضل بھی موجود تھے۔ مسئلہ زیر بحث یہ تھا کہ اب مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے۔
لوگوں نے ڈاکٹر عالم کی رائے دریافت کی تو وہ کہنے لگے کہ ہائی کورٹ میں اپیل ہونی چاہیے۔ کسی نے پوچھا اور اگر ہم اپیل میں ہار گئے پھر کیا کریں گے۔ ڈاکٹر عالم صاحب کہنے لگے اسمبلی میں پہنچ کر مسجد کی واگزاری کا قانون بنوائیں گے۔ ایک صاحب نے پوچھا کیوں ڈاکٹر صاحب آپ میں اتنی ہمت ہے کہ اسمبلی میں جا کر قانون بنوائیں، ڈاکٹر صاحب کے منہ میں سگریٹ تھا۔ دیا سلائی تلاش کر رہے تھے میں نے بڑھ کر دیا سلائی پیش کی۔ ڈاکٹر صاحب نے سگریٹ سلگایا اور کہنے لگے جب تک میں کانگریس کے ساتھ تھا آپ مجھے کافر کہتے تھے اب میں مسلمان ہو گیا ہوں جب بھی آپ کو میری باتوں کا یقین نہیں آتا۔
ڈاکٹر عالم پہلے بھی دو مرتبہ راولپنڈی کے شہری حلقے سے امیدوار کھڑے ہوئے تھے۔ اس دفعہ کے انتخابات میں بھی انھوں نے یہی حلقہ پسند فرمایا۔ سید حبیب ان کے مدمقابل تھے۔ انتخابی جدوجہد شروع ہوئی تو ساری مجلس اتحاد ملت ڈاکٹر عالم کی پشت پر تھی اور سید حبیب یوسفِ بے کارواں بنے ہوئے تھے۔ ڈاکٹر صاحب اسمبلی میں پہنچے تو ان کے حامیوں کو یہ فکر ہوئی کہ کسی طرح انھیں وزارت مل جائے۔
غالبا سر سکندر حیات خان سے اشاروں کنایوں میں یہ ذکر بھی کیا گیا مگر انھوں نے بات ہنسی میں ٹال دی۔ اتحاد ملت والے تو اس خیال میں مگن تھے کہ اسمبلی میں کم از کم ہمارا ایک ممبر تو موجود ہے۔ اتنے میں خبر آئی کہ ڈاکٹر عالم کانگریس میں شامل ہو گئے اور یہ لوگ گھبرا کر ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے۔
ڈاکٹر صاحب سے جواب طلبی ہوئی۔ وہ الفاظ کی موجوں کو اچھالتے ہوئے بولے کانگریس میں ضرور شامل ہوا ہوں لیکن میرا انتخاب شہید گنج کے ٹکٹ پر ہوا ہے، اب کانگریس مجھے اپنا ممبر بناتی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ کانگریس اس ٹکٹ کو تسلیم کرتی ہے جس ٹکٹ پر میں نے نشست حاصل کی ہے گویا کانگریس نے اصولاً شہید گنج کی بازیابی کا اصول مان لیا ہے۔ ڈاکٹر عالم ابھی تک مسلم لیگ میں شامل نہیں ہوئے تھے۔
قائد اعظم نے ان سے کہا عالم! اسمبلی میں لیگ کی باقاعدہ پارلیمانی پارٹی بن چکی ہے، اس میں شامل ہو جا اب تو تم قراردادِ پاکستان کی حمایت بھی کر چکے ہو۔ ڈاکٹر صاحب نے جوابا عرض کی، سوچ کر جواب دیا جا سکتا ہے۔ قائد اعظم نے چمک کر فرمایا عالم!کسی پارٹی میں آنے جانے کے لیے کیا تمہیں بھی سوچنے کی ضرورت ہے۔ شورش کاشمیری لکھتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب اس شدید طنز سے گھبرا گئے اور اپنا سا منہ لے کر لوٹ آئے اور اس کے بعد ان کی مسلم لیگ میں شمولیت کی ہمت نہ پڑی۔
1945 کے انتخابات میں انھوں نے ایک مرتبہ پھر خاکسار پارٹی کے ٹکٹ پر راولپنڈی کے حلقے سے انتخاب لڑنے کی ٹھانی مگر اب حالات یکسر بدل چکے تھے، ڈاکٹر صاحب کو یہ روز روز پارٹیاں بدلنا راس نہ آئیں اور ان کا نام ہی ڈاکٹر لوٹا پڑ گیا۔ شورش کاشمیری لکھتے ہیں کہ اس پھبتی کے خالق عطا حسین میر کاشمیری تھے۔ وہ زمیندار میں ملازم تھے۔ عطا حسین میر کاشمیری نے زمیندار میں فورا ڈاکٹر صاحب کے خلاف مضمون لکھا جس کا نام تھا ڈاکٹر لوٹا اور یوں ڈاکٹر لوٹا آناً فاناً زبان زد عام ہو گیا۔
ڈاکٹر عالم جہاں جاتے ان کا استقبال لوٹوں سے کیا جاتا حتی کہ پولنگ اسٹیشنوں پر بھی لوگوں نے لوٹے سجا دیے۔ لاہور میں مزنگ روڈ پر ڈاکٹر صاحب نے نئی کوٹھی بنائی، یار لوگوں نے اس پر بھی لوٹوں کو جھنڈیوں کی طرح سجا دیا۔ 1945 کے انتخابات میں ڈاکٹر صاحب کو مسلم لیگی امیدوار سر فیروز خاں نے شکست سے ہم کنار کیا۔ ڈاکٹر عالم کی رسوائی بھی ہوئی اور شکست بھی، وہ اس ذلت کو برداشت نہ کرسکے اور تھوڑے ہی دنوں بعد 9 مئی 1947 کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔
ڈاکٹر شیخ محمد عالم عرف ڈاکٹر لوٹا کو ہم سے جدا ہوئے 74 سال ہو چکے ہیں لیکن ان کے چیلے اور پیروکاروں کی بڑی تعداد ابھی تک پاکستان کے سیاسی نظام میں اپنے جوہر دکھا رہی ہے۔ ان جوہریوں کے کمال فن سے اب تک ملک کی تمام حکمران سیاسی جماعتیں اور فوجی حکمران استفادہ کر چکے ہیں۔ آجکل "تبدیلی سرکار" بھی ان سے فیضیاب ہو رہی ہے۔ پاکستان میں جب بھی انتخابات کا موسم آتا ہے یا کسی حکومت کے خلاف کوئی تحریک پیش ہوتی ہے تو پاکستان کے سیاستدان وفاداریاں تبدیل کرنے کا ریکارڈ قائم کرنا شروع کر دیتے ہیں۔