جس پر بیتی ہو وہی جانتا ہے۔ اسلام آباد میں انسداد دہشت گردی اہلکاروں کے ہاتھ ہی کسی معصوم کے خون سے رنگ گئے۔ کورونا وائرس کی وجہ سے کچھ تو عادت چھوٹی یا چھوڑنی پڑی، مگر اس سے قبل ویک اینڈ پر مووی کا پروگرام نہ ہو، ممکن نہ تھا۔ اس بار بھی ایسا ہی ہوا۔ کچھ مصروفیت بھی ایسی ہے، وقت میسر ہی تب ہوتا، جب شام بہت گہری ہو جاتی۔
مجھے اچھے سے یاد ہے، بہت لیٹ نائٹ کا شو تھا، ویک اینڈ ضائع نہ ہو، اسی لیے فیصلہ ہوا کہ یہ شو دیکھا جائے گا۔ ایک مشہور شاپنگ مال کی راہ لی اور نکل کھڑے ہوئے۔ کچھ خریداری کا بہانہ بھی مل جاتا ہے اور اس کا بھر پور فائدہ بھی اٹھایا۔
ایک ہی جگہ سے تمام اشیاء کا میسر ہونا، کسی نعمت سے کم نہیں، گو کہ یہ بھی ترقی ہی کی ایک شکل ہے۔ ضروری سامان لیا کچھ پیٹ پوجا بھی کر لی، اسی اثناء میں مووی کا آغاز بھی ہو گیا، یہ آزمودہ ہے اپنی ذات کے لئے کچھ وقت نکالنے پر روح تازہ ہو جاتی اور تھکاوٹ کا احساس کم ہو جاتا ہے۔ قصہ مختصر، اگلے پورے ہفتے کے لئے ایک عدد انرجی ڈوز مل جاتی ہے۔ رسٹ واچ دیکھنے پر اندازہ ہوا، گھڑی رات کاایک بجا رہی ہے، ساتھ میں ہمسفر ہو، تو رات یا تاریکی کا اندھیرا بھلا کیونکر خوفزدہ کرے۔
پارکنگ سے گاڑی نکالی اور گھر واپس پلٹے۔ ہنستے مسکراتے راستہ کٹ رہا تھا، اچانک سے ذہن کو ماوف کر دینے والا واقعہ رونما ہوا۔ دو ہیوی بائیک مسلسل ہماری کار کو فالو کر رہے تھے۔ بعد ازاں ہیوی لائٹ کے deeperبھی دینے لگے۔ پہلے پہل اندازہ نہ ہو سکا، پھر میرے شوہر نے گاڑی کی رفتار کچھ کم کی تاکہ معلوم ہو سکے، آخر معاملہ کیا ہے۔
بائیک پر سوار جوانوں کی وردی کا رنگ گہرا اور اوپر سے صرف ایک وہ لائٹ جو مسلسل پریشان کر رہی تھی۔ گاڑی کی رفتار کو کم کرتے ہی دو عدد ہیوی بائیکس پر سوار چار جوان آگے آئے۔ نہ آئو دیکھا نہ تائو، ہاتھوں میں پکڑی گنیں ونڈ اسکرین پر تان لیں، ایسا شور کہ حواس بھی جواب دے جائیں۔ لڑکی کیسے ہی مضبوط اعصاب کی مالک ہو، ایسی صورتحال سے نمٹنے اور سنبھالنے کے لئے کچھ وقت لیتی ہے۔ جومجھے ملا، نہ میرے شوہر کو! نوجوانوں نے شور مچا دیا 'نیچے اترو، نیچے اترو!
میرے شوہر نے گاڑی ایک طرف لگائی اور نیچے اتر گئے۔ میرے لئے پورا منظر ایسا تھا، جو کچھ وقت کے لئے آپ کے حواس منجمد کر دے۔ ایک کے بعد ایک سوال ذہن میں گردش کر رہا تھا، آخر ہمارا پیچھا کرنے کی وجہ کیا ہے؟
پھر ہم میاں بیوی پر گنیں تان لینے کا جواز کیا ہے؟ ایک جوان میرے شوہر کو ایک سائیڈ پر لے جا کر کچھ گفتگو کرنے لگا۔ تقریبا دس سے پندرہ منٹ کا وقت گزر گیا اور ایسے میں لڑکی خود اتر کر صورتحال جانچے، فی الوقت مجھے کچھ غیر مناسب لگا۔ مگر تشویش یقینی تھی۔ صاف نظر آرہا تھا، گفتگو بات بحث کے بعد تکرار میں تبدیل ہو رہی تھی۔ باقی جوان گاڑی کے گرد ہی موجود رہے۔
کچھ وقت کے بعد میں نے نیچے اتر کر صورتحال کو جانچنے کی کوشش کی، تو میرے شوہر نے آکر بتایا کہ یہ جوان کچھ رقم کا تقاضا کر رہے ہیں اور ادائیگی کے بعد ہی جانے پر بضد ہیں، بصورت دیگر ساتھ لے کر جانے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ ہمیں فالو کر کے پھر ہم پر گنیں تان لینے کی وجہ یہ تھی کہ رات کا وقت، پھر لڑکا لڑکی اور ہنستے مسکراتے جا رہے ہین۔ یقینا کوئی اور معاملہ ہے۔ ورطہ حیرت میں ڈالنے کے لئے، یہ بتانا ہی کافی ہے کہ وہ چار سرخیل جوان قانون کے رکھوالے "ڈولفن فورس" کے تھے!
چند دن پہلے اسلام آباد جیسے شہر میں اسامہ ندیم کی ہلاکت نے ہلا کر رکھ دیا۔ اس جوان کا خون وہ لاچار باپ کس کے ہاتھوں پر تلاش کرے گا، جس نے اپنے خون سے سینچ کر اپنے بیٹے کو جوان کیا۔ اس ماں کو صبر کیسے آئے گا؟ جس کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہی چھین لی گئی۔ کسی طرف سے موقف کچھ بھی ہو، مگر کیا پولیس کی کسی بھی فورس کی ٹریننگ میں اس بات کو شامل نہیں کیا جاتا کہ کسی مشکوک سرگرمی کی صورت میں روکنے کا طریقہ کار کیا ہے۔ فورس کے کام کرنے کے قواعد و ضوابط کیا ہے۔
عمران خان جب تک اپوزیشن میں رہے، تو پولیس کو غیر سیاسی بنانے سمیت ٹھیک کرنے کے ایک سو ایک طریقے بیان کرتے رہے۔ خیبرپختون خواہ کا ماڈل سمجھا کر داد وصول کرتے رہے۔ المیہ تو یہ ہے اقتدار کے تخت پر بیٹھتے ہی سب کچھ ہوا ہو گیا۔ ناصر درانی ہی نہیں برداشت ہو سکے۔ پھر ایک کے بعد ایک۔ پے در پے تحریک انصاف کے کریڈٹ میں ایسے واقعات شامل ہوتے جا رہے ہیں۔ حکومت ملتے ہی ساہیوال کا واقعہ، موٹر وے پر زیادتی کا واقعہ اور اب اسامہ ندیم کی ہلاکت۔ یہ سب تو وہ واقعے ہیں جو نظر میں آ گئے نہ جانے کس کس پر کیا کچھ بیت گیا!
المیہ یہ ہے خود عمران خان ایسا تاثر دیتے ہیں، جیسے حکومت میں آنے کے لئے تیاری نہ مکمل تھی، پھر ایسے میں ترجیحات طے کرنے بارے کون سوچے۔ عوام مہنگائی سے بلبلارہے ہیں۔ بے روزگاری نے اکثر گھروں کے چولہے ٹھنڈے کر دیئے۔ کاروبار ماند پڑ رہے ہیں، ان سب مسائل کے باوجود اگر صرف سیاست کا بازار گرم ہے تو کسی کو کیا پرواہ!