Friday, 15 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Mujhe Rehbaron Ki Talash Hai

Mujhe Rehbaron Ki Talash Hai

بچپن کا دور بھی کیا خوبصورت ہوتا ہے، ہر چہرہ، ہر بات اور شرارتیں سب یاد رہتی ہیں۔ عالم تو یہ ہے اکثر و بیشتر صبح کا ناشتہ جس جگہ سے آتا تھا، اس کا ذائقہ آج بھی زبان پہ زندہ ہے۔ انسانی دماغ اور گھر کا سٹور روم نئی پرانی چیزوں اور یادوں کو سنبھالے رکھتے ہیں۔ چھٹی کے روز صفائی کے خیال نے ایک ایسے صندوق سے سامنا کروا دیا، جس کی چابی گمشدہ اور تالا زنگ آلود۔ توڑنے پر ہی اکتفا ہوا۔ صندوق کھلنے پر معلوم ہوا، یہاں تو پورا پچپن محفوظ ہے۔ دوستوں اور بہن بھائیوں سے وصول عید کارڈز جن میں ٹوٹی پھوٹی اردو اور اوٹ پٹانگ اشعار درج ہیں، انگریزی خوبصورت لکھنے والا لکڑی کا ہولڈر، کچھ دیگر اشیا سمیت ایک خوشخطی کی کاپی۔ پڑھنے میں اچھے تھے مگر لکھائی میں بھی موتی جڑے نظر آئے، اس لئے گھر سے دور ماسٹر صاحب کا انتخاب ہو گیا۔ چھوٹی سی دوکان داخل ہوتے ہی ماسٹر صاحب کی میز کرسی، ایک عدد بینچ اور باقی ماندہ حصے پر بچھی فرشی دری۔ کاپی پر درج سطر کا آخری سبق "سوہنی دھرتی اللہ رکھے قدم قدم آباد تجھے" کیسے کیسے خوبصورت نغمے سر زمین پاک کی محبت میں لکھے گئے مگر یہاں قدم قدم پر اس کے باسیوں کو لٹیروں کا سامنا ہے۔ اس دھرتی کو حاصل کرنے کے لئے خون کے جس دریا کو عبور کرنا پڑا، اس کے قصے نانی اور دادا سے خوب سنے۔ کہتے ہیں قیامت سے پہلے ایک قیامت گزری۔ قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی قیادت نے اس سوہنی دھرتی کے لئے ناممکن کا لفظ تاریخ کے اوراق سے مٹا دیا۔ مگر 22 کروڑ انسانوں پر مسلط ہونے والوں نے کیا کیا۔

شیر جوان تحریک پر مبارک باد، مگر اس کے اغراض و مقاصد خیالی پلاو سے کچھ زیادہ محسوس نہیں ہو رہے۔ بتایا گیا ہے یہ تحریک مستقبل کی قیادت کی تیاری، اقبال کے شاہین بنانے اور جمہوری نظام پر اعتمادلانے کے لیے ہے۔ اہم ترین نکتہ ذہنوں کی غلامی سے آزادی ہے۔ کوئی چاہنے والا سوال کی جسارت کیا کرے مگر کوئی ایک بھی ایسا نہیں جو یہ سوال اپنی ذات کے سامنے رکھے؟ جناب کس مستقبل کی قیادت کی بات کرتے ہو، جو کبھی خاندان سے باہر ہی نہیں نکلنے کی۔ اقبال نے جن شاہینوں کی بات کی تھی وہ اونچی پرواز اور آسمان میں بسیرا کرنے والے تھے، ابھی کا سیاسی شاہین بس میڈیا سیل میں نوکری پکی کرنے کے لئے پرواز کرتا ہے۔ جہاں تک بات ہے، ذہنوں کی غلامی اور جمہوری نظام پر اعتماد کی تو اس کو خود ن لیگ اپنے طرز عمل سے غلط ثابت کر چکی ہے اگر ایسا نہ ہوتا تو بیانیہ کے خلاف آواز اٹھانے پر پارٹی عہدے سے برطرفی اور اقتدار بس خاندانی میناروں کے گرد نہ گھومتا۔ یہ صاف واضح ہے کہ حکمران جماعت کی ٹائیگر فورس کے مقابلے پر اس تحریک کو لانچ کیا گیا ہے حالانکہ تحریک انصاف کی ٹائیگر فورس نے بھی اپنی پرفارمنس سے دودھ اور شہد کی نہریں نہیں کھودیں۔ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی مگر ہم آج تک وہی گلی سڑی سیاسی چالوں کا پھٹا ڈھول بجا رہے ہیں اور باتیں انقلاب کی کرتے ہیں۔ دوسری طرف بار بار یہ احساس دلانے کی کوشش کیا ریاست اپنی بیٹیوں اور بہنوں سے یہ سلوک کرتی ہے تو ایک سوال نواز شریف اور چچا جان شہباز شریف سے بھی ہونا چاہیے، اقتدار کی ہوس سب بھلا دیتی ہے، ممکن ہے پیپلزپارٹی بھی وقتی طور پر بھول گئی ہو مگر تاریخ کے پنوں سے کون اس حقیقت کو نکالے گا، جب بے نظیر شہید اور آصف زرداری کی سزاوں کے لئے جسٹس قیوم کو احکامات صادر کئے جا رہے تھے(600) لاکھوں درود ان پر جن کے وسیلے سے رحمان ملا، قرآن ملا، ایمان ملا۔ ہماری جان قربان ہو، پیارے نبی آقاے دو جہاں نبی آخر الزمان حضرت محمد مصطفیﷺ پر۔ فرانسیسی صدر کے مکروہ بیان پر پوری قوت مگر پر امن طریقے سے پیغام جانا چاہیے تھا کہ ایسا کوئی بھی فعل ناقابل برداشت ہے۔ خارجی محاذ پر پوری قوت کے ساتھ یک آواز کیا ہوتے سب سیاستدان جماعتیں اپنی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنائے بیٹھی ہیں۔۔ علامہ اقبال نے کیا خوب فرمایا۔

شیرازہ ہوا ملت مرحوم کا اب

تراب تو ہی بتا، تیرا مسلماں کدھر جائے

وہ لذت آشوب نہیں بحر عرب میں

پوشیدہ جو ہے مجھ میں، وہ طوفان کدھر جائے

ہر چند ہے بے قافلہ و راحلہ و زاد

اس کوہ و بیاباں سے حدی خواں کدھر جائے

اس راز کو اب فاش کر اے روح محمد

آیات الہی کا نگہبان کدھر جائے!

دنیا کا کینوس تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے، نئے بلاکس بن رہے ہیں، جب اتحاد وقت کی ضرورت ٹھہرا، تو ہم انارکی اور انتشار کی جانب بڑھ رہے ہیں، جن اداروں نے سرحد پر بیٹھ کر دفاع کرنا ہے متنازع بنا کر انہی کے بازو کاٹ رہے ہیں، مداخلت کی غلطیاں ہوئیں مگر صاحب تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔ فرمان داتا علی ہجویریؒ ہے' سارے ملک کا بگاڑ تین گروہوں کے بگڑنے پر ہے حکمران جب بے علم ہوں، علما جب بے عمل ہوں اور فقیر جب بے توکل ہوں۔

کالم کا اختتام بس اسی کے ساتھ خوشخطی کی کاپی پر درج سطر کو لکھنے کی صورت، میں نے مکمل نہیں کیا تھا کیونکہ جانتی تھی اب نا تو ماسٹر صاحب سے سامنا ہونا ہے اور نا کسی سے جواب طلبی کا ڈر۔ آج برسوں بعد اس نا مکمل سبق کو میں نے مکمل کر لیا۔ اس دھرتی پر راج کرنے والے یاد رکھیں ان کے ہر عمل کا حساب ہو گا، عوام کی عدالت میں بھی، خدا کی عدالت میں بھی۔