اصطلاح "دے گھما کر"سننے میں ہی بڑی زبردست محسوس ہوتی ہے کرکٹ میچ میں اس کا استعمال ویسے جوش بڑھانے کا سبب ہے۔ مخالف ٹیم کو چھکا پڑے، چوکا یا سیدھا باونسر، تمام صورتوں میں جوش اس قدر دیدنی ہوتا ہے کہ ہر دوسرے شخص کی زبان پر ایک عام مگر دلچسپ جملہ یہی ہوتا ہے۔"کیسا گھما کر دیا "۔
مگر کھیل کی بجائے اگر اسی اصطلاح کا بے رحمانہ استعمال ریاست یا ادارے عام عوام پر کریں تو پھر معاشرے کے رویوں میں بگاڑ کے سوا کچھ نہیں پنپتا۔ المیہ تو یہ ہے کہ "دے گھما کر"کا استعمال ہر اس طبقے پر نہ صرف ہوتا آیا بلکہ ہو رہا ہے جس نے اپنے حق کے لیے آواز اٹھائی پھر چاہے ڈاکٹرز ہو یا نرسیں، نابینا افراد ہوں یا غریب کسان۔ پستی کی حد تو یہ ہے قوم کے معماروں کو بھی اس میں استثنیٰ نہیں۔ جس کی حالیہ مثال اسلام آباد میں اساتذہ کے ساتھ جو کچھ ہمارے سامنے ہے۔
استاد بارے کہا جاتا ہے:" استاد افراد کی تربیت کر کے ایک مہذب معاشرہ تشکیل دیتا ہے گویا بادشاہ لوگوں پر حکومت کرتے ہیں اور بادشاہوں پر معلمین کی حکومت ہوتی ہے"۔
کپتان کی حکومت میں اساتذہ مستقلی کا مطالبہ لے کر احتجاج پر نکلے تو ہفتے کے روز پولیس نے "دے گھما کر" کی اصطلاح پر خوب عمل کیا"آئو دیکھا نہ تائو" جیسے دل چاہا طاقت کا زور چلایا۔ تحریک انصاف کی حکومت ہی نہیں بلکہ شریک جرم ماضی کی تمام جمہوری حکومتیں بھی ہیں جنہوں نے استادوں کے ساتھ ایسا برتاؤ کیا۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے:"عالم کا حق یہ ہے کہ اس کے آگے نہ بیٹھو اور ضرورت پیش آئے تو سب سے پہلے اس کی خدمت کے لیے کھڑے ہو جاؤ"۔
مگر ہم کس قسم کے مسلمان ہیں؟ کیسی فلاحی اور اسلامی ریاست کے باسی ہیں؟ کس ریاست مدینہ کی بات کرتے ہیں؟ کیا تصور بھی کیا جا سکتا ہے کہ ریاست مدینہ میں ایک معلم، ایک استاد سے ایسا سلوک کیا جائے۔ کیا اسلام جس میں استاد کا درجہ بے حد بلند ہے، حتی کہ روحانی باپ کہا جاتا ہے اسی کے نام پر بننے والی ریاست میں استاد پر ڈنڈے، لاٹھیاں اور آنسو گیس کے شیل برسائے جائیں۔
صورت کچھ بھی ہو، مذاکرات کا درمیانی راستہ ہمیشہ موجود رہتا ہے جس کا استعمال عام عوام سے شاذونادر مگر سیاسی جماعتوں کے بیچ ایڑھی چوٹی کا زور بھی لگانا پڑے تو قباحت نہیں۔
شاعر مشرق علامہ محمد اقبالؒ نے معلم کی عظمت اور اہمیت بارے کیا خوبصورت کہا ہے:"استاد دراصل قوم کا محافظ ہوتا ہے کیونکہ آئندہ آنے والی نسلوں کو سنوارنا اور ان کو ملک و ملت کی خدمت کے قابل بنانا ان ہی کے سپرد ہے۔ سب محنتوں میں اعلی درجے کی محنت اور کار گزاریوں میں سب سے بیش قیمت کار گزاری معلموں کی ہے"۔
اس سے بڑی بد قسمتی اور کیا ہو گی جس استاد نے معاشرے کی تشکیل کرنا ہے جس نے حقوق اور فرائض سے آشنائی دینا ہے وہی اپنے حقوق کی جنگ میں ایک ہارا ہوا سپاہی معلوم ہوتا ہے۔ کیا ایک ہارا سپاہی ایک بہادر اور مضبوط قوم کی بنیاد رکھ سکتا ہے؟ کبھی نہیں۔ وہ صرف ایک مایوس اور بزدل جوان ہی دے سکتا ہے جو نہ تو معاشرے کی تشکیل میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں نہ اپنے رویوں میں شائستہ معاشروں اور رویوں کی تخلیق ایک دن میں ہو جاتی ہے، بلکہ اس کے لیے ایک عرصہ درکار ہوتا ہے۔ ترکی کے ایک پائلٹ کی وائرل وڈیو کسے یاد نہیں ہو گی۔ جس کا استاد اسی جہاز میں سوار تھا۔ اچانک ساونڈ سسٹم کی مدد سے جہاز میں مسافروں کو متوجہ کرنے کے لئے ایک اعلان ہوتا ہے"قابل احترام پیسنجرز میں جہاز کا کیپٹن آپ سے مخاطب ہے۔ آج کا دن میرے لئے بہت اہم ہے۔ آج اس جہاز میں بہت اہم شخصیت سوار ہے جو کہ میرے استاد ہیں اور جن کی وجہ سے آج میں کیپٹن بنا۔ جہاز کا عملہ پھولوں کا ایک خوبصورت گلدستہ پیش کرنے جہاز کے اس حصے کی طرف جاتا ہے جہاں استاد موجود ہے۔ فرط جذبات سے نہ صرف استاد بلکہ بہت سے مسافروں کی آنکھیں بھی نم ہو گئیں "۔
پک جاتے ہیں کان جب حکمران ہر چھوٹی سے چھوٹی بات پر دوسرے ممالک کی مثال دیتے ہیں۔ قانون کی بات ہے تو باہر کے ملک، معیشت کو سنبھالنے کی بات ہے تو باہر کے ممالک کے فارمولے، بے روزگاری کے خاتمے کی بات پر بھی دیگر ممالک کے حوالے، معیاری اور یکساں تعلیم کے لئے اور ملکوں کی مثالیں، اور نہ جانے کس کس بات کا ذکر کروں۔ آپ نے تو قانون کو بھی سیاسی بنا دیا جہاں جی چاہا ڈنڈا چلا دیا۔ من پسند لوگ عہدوں پر براجمان کر دیے جاتے ہیں شاذونادر ہی کوئی ادارہ بچا ہو گا ورنہ میرٹ کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں۔
مجھے فخر ہے میرے والد پیشہ کے لحاظ سے نا صرف وکیل تھے بلکہ ایک بہترین معلم بھی تھے۔ استاد اور شاگرد کے درمیاں احترام کا ایک سنہرا وقت میں نے دیکھا ہے۔ معاشرے میں استاد کی اہمیت اور عظمت سے میں بخوبی واقف ہوں۔ جہاں استاد سڑکوں پر ہو اور قانون کے رکھوالے انہیں ہی قانون کی بھاشا بتائیں وہاں صرف بیمار ذہن ہی پیدا ہوتے ہیں پھر چاہے استاد اور سوسائٹی ہو یا استاد اور شاگرد کا رشتہ ہو۔ امید کرتے ہیں ہمارے کپتان وزیراعظم عمران خاں کرکٹ کی اصطلاحات عام عوام پر استعمال نہیں ہونے دیں گے۔