گلی کی نکڑ سے اچانک ایک عجیب حلیے کا انسان برآمد ہوا، جو ہم بچوں کے لئے کسی اور دنیا کی مخلوق کے سوا کچھ نہ تھا۔ یہ اس شخص کے ساتھ پہلا تعارف تھا۔ مختلف جگہوں سے پھٹے ہوئے، میلے کچیلے بد بو دار کپڑے، گرد میں اٹے بال اور چہرے پر کالی سیاہی کا لیپ، بچوں کو خوف میں مبتلا کرنے کے لئے کافی تھا۔ اسے اپنی جانب آتا دیکھ کے پیروں کے نیچے سے زمین نکل گئی، جس کوجہاں پناہ ملی، غنیمت جانا، مگر زینہ چڑھ کر چھت سے نیچے اس عجیب مخلوق کو نہ دیکھنا بھی بے عزتی کے مترادف تھا۔
کپڑوں پر بہت سارا سرخ رنگ، جسے ہمارے دماغوں نے 100 فیصد انسانی خون مانا۔ ہاتھ میں لکڑی کا چاقو، زبان پر اول فول کے جملے، جو سمجھنے سے ہم قاصر رہے۔ محلے کے بڑوں نے اس عجیب مخلوق کو روٹی پانی پلا کر چلتا کیا۔ سوال یہ تھا کہ آخر یہ ہے کون؟ ایک بہروپیا جو حالات کے مطابق خود کو کسی روپ میں ڈھالتا اور مقصد پورا ہونے پر اپنی راہ لیتا۔
سیاستدان بھی اسی بہروپیے کی مانند ہیں، یہ گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے ہیں، مقصد حاصل کرنے کے لیے کسی بھی روپ میں ڈھل جاتے ہیں، حصول مطلوب و مقصود کے بعد اپنا اصل چہرہ دکھا دیتے ہیں۔ بلاول زرداری نے کیا غلط کہا۔ وزیراعظم عمران خان نے دودھ اور شہد کی نہروں کے خواب دکھائے تھے مگر آٹا بحران، گیس بحران، بلا کی مہنگائی اور بے روزگاری کی شکل میں یہ سب چکنا چور ہو گیا، ان سب باتوں اور بحرانوں کے باوجود عوام مزید کوئی تماشا دیکھنے کے خواہشمند نہیں ہیں، جس کا کچھ عکس پشاور جلسے میں نظر آیا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے اس سطح پر عمران خان کا narrative جیت گیا۔ مزید اب تحریک اور اس کے تمام محرکات بوریت کا تاثر بھی دینے لگے ہیں۔
میاں نواز شریف، میاں شہباز شریف کی والدہ بیگم شمیم اختر کی وفات (اللہ ان کو جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے )کے بعد چونکہ چند دن کے لیے (ن )لیگ نے تمام سیاسی سرگرمیاں ملتوی کر دیں ہیں، تویہ فیکٹر بھی تحریک کو مزید ٹھنڈا کرے گا۔ لاہور اور ملتان جلسے کی تیاریاں بھی ماند پڑ جائیں گئیں۔ پھر دنیا کا ایسا کونسا ملک ہے جہاں بالواسطہ یا بلاواسطہ فوج کا عمل دخل نہ ہو؟ اسی کی اجازت بھی تو سیاست دان ہمیشہ سے خود دیتے آئے ہیں۔ جب بیانیہ ہی ایک ایسی افواج کے خلاف ہو جس کی بہادری کے معترف نا صرف 80 فیصد پاکستانی بلکہ دنیا کی اقوام ہوں، آپ ان کے خلاف نکل کھڑے ہیں۔ ممکن ہے فوج نے بڑی غلطیاں کی ہوں، مگر کیا ایسے بیانے پر آپ دشمن کو موقع نہیں دے رہے کہ وہ دنیا میں مزید طاقت کے ساتھ پراپیگنڈا کرے اور پاکستان کو عالمی تنہائی کے گڑھے میں پھینک دے۔ مگر بات بھی فوج سے ہی کرنا چاہتے ہیں، بس ایک بار وہ بھی یک زبان ہو جائیں جیسا کہ مولانا فضل الرحمان نے کہا: آپ بھی ہمارے ساتھ مل جائیں، ہماری آواز کے ساتھ آواز ملائیں تو پھر آپ اور ہم بھائی بھائی! اظہار شعلہ بیانی سے مایوسی ٹپک رہی ہے۔ اقتدار بھی کیا ظالم چیز ہے، اپوزیشن اپنے ایک پاو گوشت کے لیے پورا اونٹ قربان کرنے پر بضد ہے۔
اسٹیج سے نعرے لگتے ہیں ہم لے کر رہیں گے آزادی۔۔ ایک آزاد قوم کے ساتھ، غلاموں جیسا رویہ رکھنے والے آزادی کے نعرے لگا رہے ہیں۔ یہ بات ہے 23 مئی 2014 کی، جب افغانستان میں بھارتی سفارتخانے پر حملہ ہوا، اس وقت کے وزیراعظم میاں نواز شریف بھارت میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے لئے پہنچے، اشرف غنی بھی تقریب میں موجود تھے، جب انہوں نے اس حملے کا ذمہ پاکستان کے کھاتے میں ڈالا اور نواز شریف ایک لفظ نہ بول پائے۔ کوئی شبہ نہیں، ن لیگ کے ووٹ بینک پر مگر نواز شریف کو دوبارہ اقتدار میں لانے کا خواب شاید خواب ہی رہ جائے۔
البتہ ممکن ہے، مستقبل مائنس فارمولے کے ساتھ تابناک ہو۔ پیپلز پارٹی تو بذات خود کچھ گریزاں نظر آرہی ہے، ممکن ہے انکی حد تک کچھ بات بن بھی جائے۔ جلسے میں پارٹیوں کے تناسب نے بھی تحریک کا پردہ چاک کر دیاہے۔ صرف ایک جمعیت علمااسلام کے ورکرز تھے جو نظر آئے باقی تناسب تو 5 فیصد سے زیادہ کا نہیں تھا۔
کوروناکے بعد زندگی کا ایک الگ روپ ہو گا اور مقابلے کے لیے ڈھانچے کی مضبوطی لازم ہے، یہ تبھی ممکن ہو گا۔ ، اگر سسٹم کو چلنے دیا جائے۔ اپوزیشن کا کام ہی حکومت پر سختی کرنا ہے تاکہ اپنی پالیسیوں کی سمت درست رکھ سکے۔
تنقید، اختلاف کا صحیح فورم پارلیمان ہے، ایک انار سو بیمار کے سے حالات ہیں، کرسی ایک ہے اور خواہشمند بہت سے۔ یاد آیا بچپن میں لگنے والے اکثر میلے دیکھنے جاتے تھے، کبھی گھر کے کسی بڑے کے ساتھ اور کبھی ہم عمر بچوں کا ایک پورا گینگ ساتھ لے کر۔
آج بھی ملک کے بیشتر حصوں میں روایتی میلے ٹھیلے سجتے ہیں، ٹولیوں کی شکل میں لوگ جوق در جوق پہنچتے ہیں، کہیں سیٹی اور کہیں ڈگڈگی کے ساتھ کچھ کرتب دکھایا جاتا ہے اور تماش بینوں سے داد سمیٹی جا تی ہے۔
عوام کی نمائندہ جماعتیں شائستگی کے ساتھ شعلہ بیانی متعلقہ فورم پر کریں تو ہی جمہوریت کا حسن معلوم پڑتا ہے ورنہ سڑکوں پر تو بس تماشا ہوا کرتا ہے!