حجاج بن یوسف نے پہلی تقریر کی تو مسجد کے منبر پر کھڑے ہو کر کہا:میں تمھارے گناہوں کی سزا کے طور پر مسلط کیا گیا ہوں۔ ہزاروں مسلمانوں کا قاتل، ایک تابعی کے قتل کے بعد کسی کے قتل پر قادر نہ ہو سکا۔ بے شک طاقت کا سر چشمہ اللہ کی ذات ہے۔ بات ہو سیاست کی، عوام پر حکمرانی کی، تو میلہ رچایا ہی اس کرسی اور عہدے کے لیے جاتا ہے، جس پر آج برسوں کی جدوجہد کے بعد عمران خان براجمان ہے۔ مرزا غالب نے کہا تھا۔
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے
خواہش طاقت کی ہو، تو آنکھیں رکھنے والا بھی اندھا ہو جاتا ہے۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے، جیسے ہر وعدہ وفا نہیں ہو سکتا، ہر دعوی سچ ثابت نہیں ہو سکتا، اسی طرح ہر خواہش پوری نہیں ہو سکتی۔ اقتدارکی ہوس ہی نے حاکمِ وقت کے خلاف تمام جماعتوں کو اندھا اور بہرہ کر دیا ہے۔ ان کی زبانیں متحرک ہیں، مگر الفاظ کا چنائو، اظہار کا طریق اور اسلوب کا رنگ غائب ہے۔ بے ڈھنگی باتوں، بے تکے نعروں سے عوام بیزار ہو چکے ہیں، مجبور، لاچار اور بے بس عوام مہنگائی، بے روزگاری اور غربت سے کیسے بلبلا رہے ہیں، ان کا درد دیکھنے اور سننے سے سبھی عاری ہیں۔ اقتدار کی ہوس نے ان کی آنکھوں اور کانوں پر پردے ڈال رکھے ہیں۔ ان کی تقریوں کی رنگینی اور لہجے کی رونق بتا رہی ہے کہ انھیں خلق خدا سے نہیں اقتدار سے پیار ہے۔
موجودہ حکومت کے خلاف جن گیارہ جماعتوں نے"پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ" کے نام سے حکومت مخالف اتحاد بنایا، ان میں سے کسی ایک کا بھی ترجیحی نقطہ یہ نہیں کہ مہنگائی اور بے روزگاری کے تھپیڑوں سے بے حال عوام کے دکھوں کا مداوا کیا جائے، بلکہ ہر کسی کی نظریں کرسیِ اقتدار پر جمی ہوئی ہیں۔ حصہ بقدر جثہ وصولی کی کوششیں جاری ہیں، جس دن کہیں سے اشارہ مل گیا، اگلے روز اتحاد پارہ پارہ ہو جائے گا۔
لندن میں بیٹھے میاں نواز شریف سے تدبر، حوصلے، ٹھہرائواور دانش کی زیادہ امید تھی کیونکہ وہ اس ملک کے 3 بار وزیراعظم رہے، کئی برسوں کی حکومت میں سیاہ سفید کے مالک رہے مگر اپنی ہی دولت کا حساب نہ دے سکے۔ چند ہفتوں کی گارنٹی پر علاج کی غرض سے لندن گئے، علاج تو دور انھوں کسی ماہر ڈاکٹر سے مشاورت تک نہیں کی۔ لندن کے پارکوں میں ہشاش بشاش مٹر گشت کرتے نظر آتے ہیں۔ اب واپسی کے لیے بھی تیار نہیں۔
مولانا جلال الدین رومیؒسے دریافت کیا گیا۔ زہر کیا ہے؟ آپ نے فرمایا:ہر وہ چیز جو ہماری ضروریات سے زیادہ ہو زہر ہے۔ جیسے قوت، اقتدار، دولت، بھوک، لالچ، محبت، نفرت۔ یہ زہر ہی تو ہے جو سیاست دانوں کی نسوں میں بری طرح اتر چکا ہے، جس کے بنا چارہ نہیں۔ حاکم وقت کی مخالفت میں کھڑی جماعتوں نے ٹماٹر، پیاز، آلو، آٹا، چینی کے بڑھتے داموں کو اپنی تقریروں کا موضوع اس لیے بنا رکھا ہے کیونکہ ان پر صرف حکمرانی کا جذبہ غالب ہے۔ ورنہ اپنے اپنے ادوار میں انھوں نے دکھی عوام کی، جس طرح مدد کی ہر صاحب بصیرت اس سے آگاہ ہے۔ کرسی کی ہوس نے کئی مملکتوں کو اجاڑا، کئی فرمانرواوں کو جھکایا، حرمات شاہی کو خون کے آنسو رلایا، نسل انسانی کو جنگوں میں جھونکا۔ یہاں بھی بھان متی کاکنبہ، اپنی تقریروں سے ریاستی اداروں پر حملہ آور ہے۔
یاد رکھیے! محب وطن عوام کے دل وجان پاک آرمی کے شہدا، ہیروز، غازیوں اور جوانوں پر فدا رہیں گے۔ مسترد لوگوں کے بیانیے سے صرف دشمن قوتیں ہی خوش ہو رہی ہیں، وہ دشمن جو کبھی اس ملک کی سلامتی نہیں چاہتا، جس کے لیے اس ملک کی ترقی ناقابل برداشت ہے، جس نے عالمی سطح پر ہمیں تنہا کرنے کے لئے ہر حربہ آزمایا، جس نے اپوزیشن کے بیانیے پر خوشی کے شادیانے بجائے۔ کہا جاتا ہے، سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا، بلاشبہ سچ ہیں، مگر کیا سیاست میں اخلاقیات نام کی بھی کوئی چیز باقی نہیں رہی۔ اس سے زیادہ پستی اور کیا ہو گی کہ کوئی شخص اپنی کہی بات پر قائم نہ رہ سکے، اس کا پاس نہ رکھ سکے۔ میاں شہباز شریف نے ایک انقلابی کی طرح جس آصف زرداری کا پیٹ پھاڑ کر پیسے نکالنے تھے، جس کو سڑکوں پر گھسیٹنے کے اعلان کئے تھے نہ صرف ان سے معافی مانگی بلکہ کراچی میں ان سے ملاقات ہوئی تو جھکے اور تابعدار نظر آئے۔ مریم صفدر بار بار اپنے جلسوں میں عمران، زرداری بھائی بھائی کے نعرے لگواتی رہیں، آج اقتدار کی بھوک ایسی بڑھی، اسی پیپلزپارٹی کے ساتھ ایک میز پر جا بیٹھیں۔ 16 اکتوبر کے جلسے میں تمام حدیں پار ہوئیں مگر رہی سہی کسر کراچی جلسے سے پہلے مزار قائد پر لگنے والے سیاسی نعروں نے پوری کر دی۔ افسوس ہم نے اپنے مقاصد کے لئے عظیم لیڈر کو بھی نہ بخشا۔ آپ کس ووٹ کی عزت کی بات کرتے ہیں۔ آپ تواس ملک کو بنانے والے قائد کی آخری آرام گاہ کو بھی عزت نہ دے سکے۔ ہمارا تجربہ ہے، روشن، صاف، ہر قسم کی آلائشوں اور کدورتوں سے پاک، کئی ذہانتوں کا جانچا ہوا، کئی روشن فطرتوں کا ناپا ہوا تجربہ کہ ایسے لوگ کبھی بھی اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب نہیں ہوتے۔
قائد اعظم نے فرمایا: اگر ہم اس عظیم مملکت پاکستان کو خوش اور خوشحال دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی پوری توجہ لوگوں بالخصوص غریب طبقے کی فلاح وبہبود پر مرکوز کرنی پڑے گی۔ بدقسمتی سے اس ملک کے ٹھیکیداروں نے قائد کے ہر اس فرمان سے آنکھیں پھیر لیں، جو ان کے فرائض کی انجام دہی میں معاون و مددگار ثابت ہو۔
بے اثر ہو گئے سب حرف نوا تیرے بعد
کیا کہیں دل کا جو احوال ہوا تیرے بعد
تو بھی دیکھے تو ذرا دیر کو پہچان نہ پائے
ایسی بدلی ترے کوچے کی فضا تیرے بعد
اور تو کیا کسی پیماں کی حفاظت ہوتی
ہم سے اک خواب سنبھالا نہ گیا تیرے بعد